اسحاق ڈار 3 دن میں واپس آ جائیں ورنہ جو کرنا پڑا کرینگے : چیف جسٹس
اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت)سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایم ڈی پی ٹی وی کی تعیناتی سے متعلق کیس کی سماعت میں عدالت نے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو آخری مہلت دیتے ہوئے تین روز میں طلب کرلیا، کیس کی سماعت جمعرات تک ملتوی کردی گئی ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ عدالت سب کا احترام کرتی ہے عدالتی حکم کا بھی احترام ہونا چاہئے، اسحق ڈار اتنے مغرور ہیں کہ عدالتی حکم کو خاطر میں نہیں لاتے، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ مریم اور نوازشریف کو سزا ہوئی وہ تو پھر بھی آرہے ہیں، اسحاق ڈار کیوں نہیں آ رہے۔ سوموار کے روز چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل دورکنی بینچ نے سابق ایم ڈی پی ٹی وی عطاءالحق قاسمی کی تعیناتی کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسحٰق ڈارکو بلایا تھا کدھر ہیں وہ ‘؟ جس پر اٹارنی جنرل خالد جاوید نے آگاہ کیا کہ اسحٰق ڈار نہیں آئے۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اسحٰق ڈار عدالت کے بلانے پر نہیں آئے، سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار عدالت کی بے توقیری کررہے ہیں اور نوٹس گھر کے باہر چسپاں کرنے کے باوجود پیش نہیں ہو ئے۔ چیف جسٹس نے انتباہ دیا کہ اگر اسحٰق ڈار عدالت پیش نہیں ہوئے تو ہم ان کا پاسپورٹ کینسل ریڈ وارنٹ بھی جاری کر سکتے ہیں۔ بعد ازاٰں چیف جسٹس نے حکم دیا کہ اسحٰق ڈار کے وکیل کو بلائیں، ان سے پوچھیں کہ طلب کرنے کے باوجود اسحٰق ڈار عدالت میں پیش کیوں نہیں ہوئے۔ چیف جسٹس کا اپنے ریمارکس میں مزید کہنا تھا کہ اسحٰق ڈار کی جانب سے ایک ہی میڈیکل سرٹیفکیٹ پیش کیا جارہا ہے اس موقع پر انہوں نے اٹارنی جنرل کو حکم دیا کہ وزارت داخلہ حکام کو بلالیں ان سے پوچھ لیتے ہیں، اسحٰق ڈار کی واپسی کے لیے جو کرنا پڑا کریں گے۔عدالت کے طلب کرنے پر سیکریٹری داخلہ عدالت میں پیش ہوئے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ہم اتنے بے بس ہو گئے ہیں کہ ایک سابق وزیر خزانہ کو بھی نہیں بلا سکتے؟ بتایا جائے کہ اسحٰق ڈار کا پاسپورٹ کیسے منسوخ کیا جا سکتا ہے؟ پاسپورٹ منسوخ ہوا تو اسحاق ڈار غیر ریاستی فرد بن جائیں گے۔ اس پر سیکرٹری داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ نیب کی جانب سے بعض دستاویزات فراہم کی جانی ہیں، دستاویزات جاری ہونے پر اسحٰق ڈار کے ریڈوارنٹ جاری ہوں گے۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگا کیا کہ سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار تو نہیں آئے مگر سابق سیکرٹری خزانہ وقار مسعود صاحب عدالت میں موجود ہیں۔جس پر چیف جسٹس نے سابق سیکرٹری خزانہ سے استفسار کیا کہ وقار مسعود صاحب سچ بتائیں کس کے کہنے پراتنی بڑی تنخواہیں دیں؟ چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اسحٰق ڈار کے خلاف توہین عدالت سمیت تمام قانونی آپشن استعمال کریں گے۔ کیس کی سماعت گیارہ جولائی تک ملتوی کر دی گئی۔علاوہ ازیں میانی صاحب قبرستان اراضی ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قبرستان کی زمین اللہ کے نام وقف ہوتی ہے کسی صورت بھی فروخت نہیں کی جا سکتی، عدالت نے کیس میں متاثرین کی درخواست خارج کر دی۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ میانی صاحب قبرستان کی اراضی پر بڑے بڑے گھر بن گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے کسی کے گھر کے خلاف کوئی حکم نہیں دیا۔ ہائی کورٹ کے سنگل جج کے خلاف عدالت عظمیٰ میں اپیل قابل سماعت نہیں ہے۔ عدالت نے میانی قبرستان متاثرین کی درخواست خارج کر دی۔ سپریم کورٹ میں بنی گالہ تجاوزات سے متعلق ازخودکیس کی سماعت۔کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔ عدالت نے سیکرٹری کابینہ کو طلب کر لیا۔ متعلقہ افسرجب عدالت پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے استفسار کےا کہ کیا بنی گالہ کے ایریا کی تجاوزات کو ریگولر کیا گیا ہے؟ جواب میںایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتاےا کہ تاحال تجاوزات ریگولر نہیں ہوئی، کابینہ نے آخری میٹنگ میں طارق فضل چوہدری کی تجویز مسترد کر دی تھی۔بعدازاں عدالت نے قانون کے مطابق اراضی ریگو لائز کرنے کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔ سپریم کورٹ نے وزارت خزانہ کی جانب سے ڈیم کی تعمیر کے لیے بینک اکاو¿نٹس کھولنے کا نوٹس لے لیا، چیف جسٹس نے کہا کہ لوگ ڈیم کے لیے پیسے لے کر گھوم رہے ہیں، سٹیٹ بینک ہمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ گھماتا رہا، عدالت نے سیکرٹری فنانس کو ذاتی حیثیت میں کل طلب کر لیا۔سپریم کورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے وزارت خزانہ ڈیم کی تعمیر کے لیے بینک اکاو¿نٹس کھولنے کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ سٹیٹ بینک تاثر قائم کر رہا ہے کہ اکاونٹ حکومت نے بنایا ہے جبکہ لوگ کہہ رہے ہیں ہم حکومت کے اکاو¿نٹ میں پیسے جمع نہیں کرائیں گے، سٹیٹبینک نے اکاونٹ کھولنے میں تین دن لگادیے، چیف جسٹس نے کہا کہ لوگ ڈیم کے لیے پیسے لے کر گھوم رہے ہیں پیسے دینے والوں کے ہاتھ چومنے چاہییں چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فنڈز قائم کیے ہیں کسی کو کمیشن کھانے دیں گے نہ ہی ایک دھیلے کی بھی کرپشن ہونے دیں گے، ڈیم کے لیے بنائے گئے اکاونٹ کا آڈٹ ہوگا اور ہم خود پہرہ دیں گے، عدالت نےاٹارنی جنرل کو وزارت خزانہ نے ڈیم کے لیے اکاونٹ کھولنے پروزیراعظم سے بات کرکے عدالت کو اگاہ کرنے کی ہدایت کردی۔ دریں اثناءسپریم کورٹ نے وفاق دارلحکومت میں ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والی فیکٹریوں کو حفاظتی اقدمات کرنے پر مشروط طور پر کام کرنے کی اجازت دیدی ہے جبکہ ایک سٹیل مل فیکٹری کو چھ ہفتے بند رکھنے کا حکم دیا ہے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے تمام فیکٹریوں کو آلودگی پر قابو پانے کے آلات سمیت سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے کا حکم دیا ہے اور قرار دیا ہے کہ شکایت ملنے پر فیکٹریوں کے مالکان کے خلاف توہین عدالت میں کارروائی کی جائے گی۔ عدالت نے ڈی جی انوائرمنٹل پروٹکشن ایجنسی کو باقاعدگی کے ساتھ فیکٹریوں کی معائنہ کر نے جبکہ ضلعی انتظامیہ اور فیکٹری مالکان کو انوئرمنٹل پروٹکشن ایجنسی کے ساتھ تعاون کرنے کی ہدایت کی ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریما رکس دیے کہ ایک بچے کی زندگی فیکٹریوں کے اربوں روپیہ کی سرمایہ کاری سے قیمتی ہے۔گزشتہ روز ماحولیاتی آلودگی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ڈی جی انوائرمنٹل پروٹکشن ایجنسی نے عدالت کو بتایا کہ جب وہ مذکورہ اسٹیل مل وزٹ کرنے کے لیے پہنچے تو مالکان کی جانب سے ان کے ساتھ نارواسلوک کیا گیا، مل کے ملازمین کو شدید گرمی میں کئی گھنٹے زبردستی کمروں میں بند کر کے بجلی بند کر دی گئی۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ مستحکم اسٹیل انڈسڑی والے کون ہیں؟آئی جی کو بلوائیں ابھی اور ابھی پرچہ درج کرواتے ہیں۔چیف جسٹس نے مل مالک کو کہا کہ یہ بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے، لوگوں کی صحت کا مسئلہ ہے۔ ڈی جی ای پی اے نے کہا کہ کراچی اور مستحکم اسٹیل مل والوں ای پی اے ٹیم کے ساتھ تعاون نہیں کیا، سپریم کورٹ کے حکم کے بعد ملز مالکان نے تین ماہ کی جعلی رپورٹس تیار کیں۔اس موقع پر مل مالک نے اپنی انڈسٹری بنگلا دیش منتقل کر نے کی دھمکی دی تو چیف جسٹس نے کہا کہ ایسی باتیں نہ کریں بچوں کی صحت کا مسئلہ ہے، اگر تمام معاملات درست ہیں تو ہم بھی انوسٹی گیشن ہی کروا رہے ہیں ؟ ڈی جی ای پی اے نے کہا دورے سے پہلے ہی تمام سٹیل ملز کو معلوم ہو جاتا ہے،تمام فیکٹری مالکان ایک دوسرے کو آگاہ کر دیتے ہیں۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے میرے سیکرٹری کو آگا ہ کیوں نہیں کیا؟میرے عملے کو آگاہ کرتے تو میں خود آ جاتا۔ مزید برآں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے ہیں کہ اللہ کا شکر ہے کہ بیرون ملک جیلوں میں قید پاکستانیوں کی واپسی کا عمل شروع ہورہا ہے اور انشاءاللہ 6 ماہ میں قیدی واپس آجائیں گے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل دورکنی بینچ نے تھائی لینڈ اور سری لنکا کی جیلوں میں قیدیوں کی واپسی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چین، برطانیہ، ایران اور عراق سے بھی قیدیوں کی واپسی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستانی قیدیوں کا معاملہ اب انسانی حقوق کا مسئلہ ہے، عدالت خود اس معاملے کو دیکھ رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے نااہلیت کے فیصلے کے خلاف سردار غلام عباس اور آفتاب اکبر کی درخواستیں خارج کر دی ہیں جبکہ علی مدد جاتک، دیوان عاشق حسین اور حلقہ پی بی 282لیہ سے امیدوار محمد بشارت کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے ابزرویشن دی کہ صاف اور شفاف ساکھ کے حامل افراد کو منتخب ہوکر اسمبلی میں پہنچنا چاہیے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریما رکس دیے کہ عوامی نمائندگی کے امیدوار مشکل سے اہلیت پر پورا اتر رہے ہیں، آئین کے آرٹیکل 62(1)(f)کے تحت نااہل ہونے والا شخص تاحیات الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتا۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل دو رکنی بینچ نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 64چکوال سے آزاد امیدوار سردار غلام عباس اور صوبائی اسمبلی پی پی 23 سے پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار آفتاب اکبر کو ایک مختصر فیصلے کے ذریعے الیکشن کے لئے نااہل قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا جبکہ دوران سماعت چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ درخواست گزاروں کا تو انکم ٹیکس ریکارڈ ہی نہیں۔ جواب میں درخواست گزاروں کے وکیل کامران مرتضی نے بتایا کہ انکم ٹیکس ریکارڈ اس لیے نہیں ہے کہ آمدن ہی نہیں ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اگر آمدن ہی نہیں تو الیکشن کیسے لڑیں گے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ امیدواروں نے اپنے جائیداد بھی ظاہر نہیں کی۔وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ تمام جائیداد ظاہر کی ہے یہ وراثتی جائیداد ہے۔ چیف جسٹس نے کامران مرتضی سے استفسار کیا کہ آپ کے موکل کا تو این ٹی این نمبر ہی نہیں، اس پر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ این ٹی این نہ ہونے پر نا اہلی نہیں ہوتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ افسوس ہے کہ ہمارے عوامی نمائندے اعلی معیار پر مشکل سے پورا اترتے ہیں۔عدالت نے سردار غلام عباس کی درخواست مسترد کی توسردار غلام عباس نے کہا کہ اگر عدالت اجازت دے تو وہ کچھ عرض کرنا چاہتا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی ضرورت نہیں آپ کے وکیل نے بات کر لی ہے۔چیف جسٹس نے پی پی 23سے پی ٹی ٓئی کے امیدوار سردار آ فتاب اکبر کے انکم ٹیکس ریکارڈ کا معاملہ اٹھایا تو ان کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل کی آ مدن اتنی نہیں جس پر ٹیکس دیا جاسکے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو ٹیکس نہ دے ایسے لوگوں کو کیسے الیکشن لڑنے کی اجازت دے دیں، وکیل نے کہا کہ زرعی ٹیکس ادا کیا گیا ہے، تمام جائیداد بھی کاغزات نامزدگی میں ظاہر ہے،زرعی ٹیکس جمع کرانے کی دستاویزات موجود ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سب کو پتہ ہے کہ الیکشن پربھاری اخراجات ہوتے ہیں، پارلیمنٹ میں اچھے لوگ آ نے چاہئیں۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہاکہ سردار آ فتاب اکبرنے بہت سی چیزیں چھپائی، نہ زرعی آمدن بتائی نہ ہی گاڑیاں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سردار غلام عباس کے کیس کے بھی یہی حقائق ہیں۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے بلوچستان اسمبلی کے امیدوار علی مدد جتک کی اپیل خارج کر دی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ علی مدد کی جعلی ڈگری پر الیکشن لڑنا ثابت ہو چکا ہے، اسی پر انہیں سزا بھی ہوئی ہے، سپریم کورٹ کا اپنا بھی ایک موقف ہے کہ نیٹ اور کلین لوگوں کو منتخب ہو کر آنا چاہئیے۔دریں اثنائ عدالت نے سابق ایم این اے کی جعلی ڈگری کیس میں نااہل ہونے والے رہنمادیوان عاشق حسین کی اپیل کی بھی خارج کردی، بابر اعوان ایڈووکیٹ نے پیش ہوکر دلائل دیتے ہوئے کہاکہ پہلے دو دفعہ عدالت ان کے موکل کی ڈگری کو درست قرار دے چکی ہے لیکن تیسری مرتبہ انہیں نااہل قراردے دیا گیا، عدالت کا کہنا تھا کہ اب یہ قانون طے ہوچکا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62(1) f کے تحت تاحیات نااہلی ہوگی۔فاضل بینچ نے حلقہ پی بی 282لیہ سے امیدوار محمد بشارت کے کاغزات نامزدگی مسترد کئے جانے کے خلاف اپیل خارج کردی عدالت کا کہنا تھا کہ محمد بشارت کوکاغذات نامزدگی جمع کرانے سے چیئرمین میونسپل کمیٹی کے عہدے سے استعفیٰ دینا چاہیے تھا جو انہوں نے نہیں دیا اس لئے اپیل خارج کی جاتی ہے۔ دوسری طرف سپریم کورٹ نے اسلام آباد گن اینڈ کنٹری کلب کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کلب کی زمین پاکستان سپورٹس بورڈ کو دینے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انشاءاللہ گن اینڈ کنٹری کلب کی زمین پر پولی کلینک ہسپتال بنے گا۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے گن اینڈ کنٹری کلب کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت عدالت نے گن اینڈ کنٹری کلب کے قیام سے متعلق جنرل پرویز مشرف دور کی قرارداد بھی غیر قانونی قرار دیتے ہوئے سروے آف پاکستان کو دو ہفتوں میں 145 ایکڑ زمین کی حدبندی کرنے کا بھی حکم دیا۔ گن اینڈ کنٹری کلب کے ملازمین اور ممبران کی ممبر شپ فیس کی واپسی کا معاملہ وزارت کھیل کے سپرد کردیا۔ چیف جسٹس نے کہا انشاءاللہ گن اینڈ کنٹری کلب کی زمین پر پولی کلینک ہسپتال بنے گا۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ 1975 میں لیز کے تحت 175 ایکڑ زمین دی گئی جبکہ 2008ءمیں لیز میں مزید 33 سال کے لئے توسیع کی گئی۔ عدالت نے قرار دیا کہ کلب کو دی گئی 44 ایکڑ اراضی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ کلب کو دی گئی زمین کی سی ڈی اے سے منظوری نہیں لی گئی۔ یہ اراضی سپورٹس بورڈ کی ہے، کلب ممبران نے ممبرشپ اپنے رسک پر لی۔
چیف جسٹس