• news

سیاسی دشمنیوں کے حوالے سے بدنام حلقہ‘ ماضی میں کئی افراد قتل بھی ہوئے

فیصل آباد (احمد جمال نظامی سے) این اے 104 فیصل آباد IV سابقہ این اے 79 تحصیل سمندری کے علاقوں پر مشتمل حلقہ انتخاب ماضی میں سیاسی دشمنیوں کے حوالے سے بدنام علاقہ ہے کہ ماضی میں سیاسی مخالفتوں کی بناء پر یہاں کئی افراد قتل بھی ہوئے۔ این اے 104 میں جٹ، راجپوت اور گجر برادری سے تعلق رکھنے والے سیاستدان 1970ء سے انتخابات جیتتے آ رہے ہیں کہ اس حلقہ انتخاب میں آرائیں، جٹ، گجر اور راجپوت بڑی برادریاں ہیں جبکہ عیسائیوں کا ایک بڑا مذہبی مرکز جوش پورہ اس علاقے میں واقع ہونے کی بناء پر مسیحی برادری بھی ایک بڑی تعداد میں اس حلقہ انتخاب میں رہائش پذیر ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق حلقہ میں 273686 مرد جبکہ 220132 خواتین ووٹرز رجسٹرڈ ہیں۔ الیکشن کمیشن نے اس حلقہ انتخاب میں 398پولنگ سٹیشنز اور 1063پولنگ بوتھ قائم کرنے کے لئے اپنی تیاریاں مکمل کر رکھی ہیں۔ این اے 104 میں تھانہ ترکھانی، ماموں کانجن، سٹی سمندری اور تھانہ صدر سمندری کے علاقے واضح طور پر شامل ہیں۔ مسلم لیگ(ن) نے این اے 104 میں اپنا ٹکٹ 2013ء کے انتخابات میں اپنی پارٹی کے کامیاب ہونے والے رکن قومی اسمبلی شہبازبابر گجر کو دیا ہے جبکہ پی پی 104 کے لئے صفدر شاکر اور پی پی 105 کے لئے سابق رکن صوبائی اسمبلی راؤ کاشف رحیم کو اپنے ٹکٹ جاری کئے ہیں۔ جیساکہ گزشتہ روز واضح کیا گیا تھا پی پی 102 اور پی پی 101 کے کچھ علاقے بھی اس حلقے این اے 104 میں شامل ہیں تاہم پی پی 104 اور پی پی 105 مکمل طور پر این اے 104 کے ذیلی صوبائی اسمبلی کے حلقے ہیں۔ تحریک انصاف نے این اے 104 میں اپنا ٹکٹ سابق رکن قومی اسمبلی سردار دلدار چیمہ کو دیا ہے۔ سردار دلدار چیمہ سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے اور ہر مرتبہ حلقہ انتخاب تبدیل کرنے کی وجہ سے امپورٹڈ امیدوار کہلاتے ہیں۔ تحریک انصاف نے پی پی 104 کا ٹکٹ سابق رکن صوبائی اسمبلی شاہد خلیل نور اور پی پی 105کا ٹکٹ حافظ ممتاز احمد کو دیا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے این اے 104 کے لئے سابق وفاقی وزیر برائے ٹیکسٹائل انڈسٹری اور پیپلزپارٹی کے دیرینہ رہنما رانا فاروق سعید کو اپنا ٹکٹ جاری کیا ہے۔ پیر غلام حسین کو پی پی 104 اور پی پی 105 میں رانا فاروق سعید ہی کو اپنا ٹکٹ جاری کیا ہے اور اس طرح سے رانا فاروق سعید این اے 104 اور اس کے صوبائی اسمبلی کے دوسرے حلقے پی پی 105 سے پاکستان پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ این اے 104 میں ملی مسلم لیگ نے اللہ اکبر تحریک کے عبدالخالق، پی پی 104 میں محمد منیر، پی پی 105 میں منیر احمد جبکہ متحدہ مجلس عمل نے این اے 104 میں کسی امیدوار کو ٹکٹ جاری نہیں کیا۔ پی پی 104 میں متحدہ مجلس عمل نے محمد ثاقب سعید اور پی پی 105 میں بھی کسی کو اپنا ٹکٹ جاری نہیں کیا۔ تحریک لبیک یارسول اللہ نے این اے 104 میں فہد غفار جبکہ پی پی 104 میں امجد رضا، پی پی 105 میں کسی امیدوار کو اپنا ٹکٹ جاری نہیں کیا۔ این اے 104 میں کل 14امیدوار میدان میں موجود ہیں۔ پی پی 104 میں کل 18 جبکہ پی پی 105 میں کل 16 امیدوار میدان میں موجود ہیں۔ تاہم 2002ء کے عام انتخابات کے دوران صفدر شاکر جو کہ 25جولائی کے انتخابات کے لئے پی پی 104 کی نشست پر مسلم لیگ(ن) کے امیدوار ہیں وہ این اے 104 سابقہ این اے 79 میں کامیاب ہوئے تھے۔ 2002ء میں صفدر شاکر کے پاس مسلم لیگ(ق) کا ٹکٹ تھا۔ انہوں نے 61150 ووٹ حاصل کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے امیدوار رانا فاروق سعید کو شکست دی تھی جنہوں نے 56773 ووٹ حاصل کئے تھے۔ مسلم لیگ(ن) کے 2002ء کے انتخابات میں امیدوار سابق رکن قومی اسمبلی اور مسلم لیگ(ن) کے سابق ضلعی صدر چوہدری صفدرالرحمن تھے جنہوں نے 23448 ووٹ حاصل کئے۔ صفدرالرحمن نے 12اکتوبر 1999ء کے فوجی کو کے بعد اے آر ڈی کے پلیٹ فارم پر انتہائی متحرک کردار ادا کیا اور محترمہ کلثوم نواز کے ساتھ پیش پیش رہے جس کے باعث ان کو کئی مرتبہ جیل یاترا جانا پڑا۔ پرویزمشرف کی پابندیوں کے باعث انہوں نے کلثوم نواز کا ورکرز کنونشن اس دور میں اپنے ایک ملکیتی سینما میں کرایا جس پر بار بار ایجنسیاں انہیں گرفتار کرتی رہیں اور ان کی قربانیوں کے اعتراف پر بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ علی خاں نے انہیں اے آر ڈی پنجاب کا جنرل سیکرٹری بنا دیا تھا لیکن2013ء کے عام انتخابات کے دوران حیرت انگیز طور پر مسلم لیگ(ن) نے محترمہ کلثوم نواز کی سفارش اور اصرار اور صفدرالرحمن کی قربانیوں کے باوجود ان کو ٹکٹ جاری نہیں کیا۔ چوہدری صفدرالرحمن اور صفدرشاکر دونوں جٹ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ 2008ء کے عام انتخابات کے دوران پیپلزپارٹی کے رانا فاروق سعید سے محترمہ بے نظیر بھٹو انتخابات سے ایک سال قبل کسی بات پر ناراض ہو گئی تھیں اور انہوں نے اپنی شہادت سے پہلے ہی پارٹی ٹکٹوں کے فیصلے پر (کیونکہ سانحہ لیاقت باـغ سے پہلے انتخابات 2007ء کے آخر میں ہونے تھے) نے فیصلہ کر دیا تھا کہ رانا فاروق سعید کو پیپلزپارٹی کا ٹکٹ نہیں دیا جائے گا۔ رانا فاروق سعید نے 2008ء کے 18فروری کو ہونے والے انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے قومی و صوباـئی اسمبلی کی نشست پر انتخاب لڑا اور پیپلزپارٹی کی سمندری میں شناخت ہونے کی بناء پر پیپلزپارٹی کے ووٹروں کا اعتماد جیتتے ہوئے 58563 ووٹ حاصل کرتے ہوئے این اے 104 سابقہ این اے 79 کی نشست اور صوبائی اسمبلی کی نشست پر بھی کامیاب ہو گئے۔ ان کے مقابلے میں مسلم لیگ(ق) کے ٹکٹ پر صفدرشاکر نے ان انتخابات میں 29267 ووٹ حاصل کئے۔ صفدرالرحمن نے مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر 27869 ووٹ حاصل کئے اور شکست سے دوچارہو گئے۔ رانا فاروق سعید نے 2008ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد پیپلزپارٹی کے قائدین کو راضی کر لیا اور آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہو کر پیپلزپارٹی میں شامل ہو گئے۔ انہیں سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی وفاقی کابینہ میں پرویزمشرف دور میں ایجاد کی گئی نئی وزارت برائے ٹیکسٹائل انڈسٹری کے وفاقی وزیر ٹیکسٹائل انڈسٹری بنا دیا گیا۔ جیساکہ اس حلقہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں پر جٹ، گجر برادری کے امیدوار 1970ء کے انتخابات سے بار بار وقفے وقفے سے کامیابی حاصل کر لیتے ہیں۔ 1970ء میں محمد خاں جٹ، 1977ء میں غلام نبی گجر، 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات میں عبداللہ غازی، 1988ء کے انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر عبدالصبور، 1990ء کے انتخابات میں دوبارہ عبداللہ غازی جو کہ جٹ برادری سے تعلق رکھتے ہیں کامیاب ہوئے۔ 1993ء میں پہلی مرتبہ آرائیں برادری سے تعلق رکھنے والے امیدوار اور متعدد مرتبہ چیئرمین ضلع کونسل اور رکن اسمبلی رہنے والے چوہدری نذیر مرحوم کے صاحبزادے زاہد نذیر چوہدری این اے 104 سابقہ این اے 79 میں کامیاب ہوئے۔ زاہد نذیر اس وقت مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر پہلی مرتبہ جماعتی بنیادوں پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتیجہ میں چیئرمین ضلع کونسل تو ہیں لیکن ان کا بیٹا مسعود نذیر این اے 105 اور بھائی عاصم نذیر این اے 101 میں مسلم لیگ(ن) کا ٹکٹ لینے کی بجائے آزاد حیثیت سے میدان میں موجود ہیں۔ 1997ء کے انتخابات میں بھی جٹ برادری سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ(ن) کے امیدوار چوہدری صفدرالرحمن یہاں سے کامیاب ہوئے۔ 25جولائی کے آمدہ انتخابات کے حوالے سے سیاسی پنڈتوں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کے امیدوار سابق وفاقی وزیر رانا فاروق سعید اور پی ٹی آئی کے امیدوار سردار دلدار چیمہ مضبوط امیدوار ہیں لیکن مسلم لیگ(ن) کے امیدوار سابق رکن قومی اسمبلی شہباز بابرجو کہ 2013ء کے انتخابات میں کامیاب ہو گئے تھے وہ قومی اسمبلی کے اس حلقہ انتخاب پر مقابلے کو کانٹے دار بنا دیں گے۔ شہباز بابر کے والد شریف گجر ایک انویسٹی گیشن ایجنسی کے ڈائریکٹر تھے ان کے متعدد سیاسی پارٹیوں کے قائدین کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ 2013ء کے انتخابات سے پہلے نوازشریف نے شریف گجر کو مسلم لیگ(ن) کا ٹکٹ دینے کا اعلان کیا لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اور شریف گجر ایک موٹروے پر ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہو گئے جس کے باعث نوازشریف سمندری ان کی وفات پر تعزیت کے لئے آئے اور انہوں نے شریف گجر مرحوم کی جگہ ٹکٹ ان کے بیٹے شہباز بابر گجر کو دینے کا اعلان کیا۔ این اے 104 میں تحریک انصاف کے امیدوار سردار دلدار چیمہ انتخابی مہم پر لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرنے کی شہرت رکھتے ہیں۔ ماضی میں ایک موقع پر جب سردار دلدار چیمہ نے مرحوم چوہدری نذیر کے خلاف الیکشن لڑا تو دونوں امیدواروں کی انتخابی مہم پر اتنا پیسہ خرچ ہوا کہ اس مہم کو انٹرنیشنل میڈیا نے بھی کوریج دی کیونکہ دونوں امیدوار پانی کی طرح پیسہ بہا رہے تھے۔ سردار دلدار چیمہ نے 1985ء ، 1988ئ، 1990ئ، 1993ئ، 1997ئ، 2002ء اور 2008ء کے انتخابات میں حصہ لیا۔ 2002ء کے انتخابات کے علاوہ وہ ہمیشہ کسی نہ کسی طرح کامیاب ہوتے رہے۔ سردار دلدار چیمہ جنگل سنگھ کے صاحبزادے ہیں اور یہ بات مشہور ہے کہ جنگل سنگھ نے پاکستان میں اپنی بہت وسیع و عریض زمین و جاـئیداد کے پیش نظر اسلام قبول کیا۔ سردار دلدار چیمہ آج بھی بھاری پراپرٹی کے مالک ہیں۔ لہٰذا اس حلقے میں تحریک انصاف کے سردار دلدار چیمہ اور شہباز بابر کے مابین انتخابی مہم پر بھاری رقم خرچ کی جا رہی ہے جبکہ دوسری طرف پیپلزپارٹی کے امیدوار رانا فاروق سعید پنجاب اور اس حلقے میں پیپلزپارٹی کمزور ہونے کے باوجود حیرت انگیز طور پر بھرپور اور مضبوط انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ رانا فاروق سعید مضبوط امیدوار ہیں لیکن پیپلزپارٹی کمزور جماعت ہو چکی ہے۔ 25جولائی کے حوالے سے انتخابی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کی خصوصی نظریں اس حلقہ انتخاب پر جمی ہوئی ہیں کیونکہ فیصل آباد ضلع میں تحصیل سمندری کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ سمندری کی بنیاد 1887ء میں چک نمبر533گ۔ب کے طور پر رکھی گئی تھی۔ بعدازاں اس کا نام سہ مندر پڑ گیا کیونکہ ہندوؤں کے تین مندر یہاں واقع تھے۔ سہ کے پارسی زبان میں تین سے لئے جاتے ہیں اسی لئے تین مندر ہونے کی بناء پر اس علاقے کا نام سہ مندر کے طور پر پڑ گیا۔ 1887ء میں یہاں تین ہندوؤں کے مندر تھے لیکن اب یہاں گھر اور ایک گورنمنٹ پرائمری سکول بن چکے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد یہ تبدیلی سامنے آئی۔ 1900ء میں مغربی پنجاب کے مسلمانوں نے قیام پاکستان کے لئے مسلم لیگ کا بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا۔ 14اگست 1947ء کو یہاں سے اقلیتی آبادی ہندوؤں اور سکھوں نے ہندوستان ہجرت کی جبکہ مسلمان مہاجرین نے بھارتی مشرقی پنجاب سے پاکستان کے مغربی پنجاب اور دیگر حصوں میں ہجرت کر لی۔ اس وجہ سے سمندری کی تاریخی اہمیت کو بھی کسی طور پر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی دونوں کے امیدوار ان کے قائدین کو بہت زیادہ عزیز ہیں۔ سردار دلدار چیمہ بھی عمران خان کے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن