تحریک انصاف کا امیدوار کون‘ رانا آصف توصیف یا رضا نصر اللہ گھمن‘ فیصلہ نہ ہو سکا
فیصل آباد (احمدجمال نظامی سے) این اے 105 فیصل آباد V سابقہ این اے 80 میں تحریک انصاف کے دو امیدوار فٹ بال بنے ہوئے ہیں۔ 25جولائی کے انتخابات میں صرف 20روز باقی رہ گئے تھے تو تحریک انصاف کے امیدوار رانا آصف توصیف جنہیں تحریک انصاف کی طرف سے باضابطہ طور پر پارٹی ٹکٹ جاری کیا گیا تھا اور ان کے کاغذات ریٹرننگ آفیسر کی طرف سے منظور بھی کر لئے گئے تھے ان کو بلے کا انتخابی نشان بھی جاری کر دیا گیا لیکن لاہور ہائیکورٹ میں ان کے خلاف ایک درخواست کی بنیاد پر دو رکنی بنچ نے ان کو ان کی اہلیہ کے بینک ڈیفالٹر ہونے کی بناء پر نااہل قرار دے دیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد تحریک انصاف نے مسلم لیگ(ن) کے سابق رکن صوبائی اسمبلی رضا نصراللہ گھمن جو کہ پیر آف سیال شریف کی ختم نبوت پر احتجاجی تحریک کے دوران مسلم لیگ(ن) کو خیرباد کہہ کر تحریک انصاف میں شامل ہو گئے تھے اور وہ این اے 105 میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے بیل گاڑی کے انتخابی نشان پر کھڑے تھے انہیں تحریک انصاف نے باضابطہ طور پر اپنا امیدوار نامزد کر دیا اور پھر رانا آصف توصیف کی مشروط حمایت پر رضا نصراللہ گھمن کو بلے کا انتخابی نشان مل گیا لیکن اب انتخابات سے صرف 15روز پہلے رانا آصف توصیف کو سپریم کورٹ کی طرف سے الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اس لحاظ سے این اے 105 انتہائی دلچسپ صورت حال اختیار کئے ہوئے ہے اور اس دلچسپی میں مزید اضافہ اس وقت ہوتا ہے جب این اے 105 میں مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ ہولڈر اور سابق رکن قومی اسمبلی میاں محمد فاروق کے ایک بیٹے قاسم فاروق بالٹی اور دوسرے بیٹے معظم فاروق جیپ کے انتخابی نشان پر بھی میدان میں موجود ہیں۔ اب تحریک انصاف رضا نصراللہ گھمن یا رانا آصف توصیف میں سے کسی ایک کے بارے میں فیصلہ کرے گی لیکن تحریک انصاف کے اندرون حلقوں کے مطابق رانا آصف توصیف کے بھائی، معروف صنعت کار اور پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین رانا عارف توصیف کی دو روز قبل رحلت ہونے کے باعث رانا آصف توصیف شاید خود انتخابات میں حصہ نہیں لینا چاہتے اور اس طرح سے رضا نصراللہ گھمن اور میاں محمد فاروق کے درمیان این اے 105 کے محاذ پر انتخابی معرکہ ہو گا۔ میاں محمد فاروق اس حلقے سے تین مرتبہ رکن اسمبلی منتخب ہو چکے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) نے این اے 105 میں میاں محمد فاروق کو اپنا ٹکٹ جاری کیا ہے جبکہ این اے 105 کے صوبائی اسمبلی کے دو نوں حلقوں پی پی 106 میں خالد پرویز اور پی پی 107 میں شفیق گجر سابق رکن صوبائی اسمبلی کو اپنا ٹکٹ جاری کیا ہے۔ شفیق گجر 2008ء کے عام انتخابات میں این اے 109 سابقہ این اے 83 کے صوبائی اسمبلی کے ذیلی حلقے سے مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر ایم پی اے رہ چکے ہیں لیکن 2013ء کے انتخابات میں انہیں مسلم لیگ(ن) نے ٹکٹ جاری نہیں کیا تھا اور وہ اس حلقے سے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں شکست کھا گئے تھے اس مرتبہ رانا ثناء اللہ خاں اور چوہدری شیرعلی دونوں گروپوں کی حمایت سے وہ این اے 109 کے ذیلی حلقوں پی پی 114 یا پی پی 115 کی بجائے این اے 105 کے صوبائی اسمبلی کے ذیلی حلقہ پی پی 107 میں ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف نے اس حلقہ میں اب تک کی صورت حال کے مطابق رضا نصراللہ گھمن کو اپنا امیدوار رکھا ہے۔ پی پی 106 میں سردار دلدار چیمہ کے بیٹے سردار دلنواز چیمہ اور پی پی 107 میں خالد رفیع کو ٹکٹ جاری کیا ہے۔ پیپلزپارٹی نے این اے 105 میں چوہدری اعجاز، پی پی 106 میں گل احمد اور پی پی 107 میں معروف سیاست دان شہباز لونا کو اپنا ٹکٹ جاری کیا ہے۔ تحریک لبیک یارسول اللہ نے این اے 105 میں ابرار حسین، پی پی 106 میں محمد الیاس اور پی پی 107 میں سجاد علی کو اپنے ٹکٹ جاری کئے ہیں۔ پانچ مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل این اے 105 اور اس کے دونوں پنجاب اسمبلی کے ذیلی حلقوں پی پی 106 اور پی پی 107 میں کسی بھی امیدوار کو ٹکٹ جاری کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ملی مسلم لیگ اللہ اکبر تحریک کے پلیٹ فارم سے این اے 105 میں نواز احمد چیمہ کو میدان میں اتارنے میں کامیاب رہی لیکن پی پی 106 اور پی پی 107 میں کسی امیدوار کو نامزد نہیں کر سکی۔ این اے 105 میں کل 13 امیدوار میدان میں موجود ہیںجبکہ پی پی 106 میں 22 اور پی پی 107 میں 23امیدوار انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ نئی مردم شماری اور حلقہ بندیوں کے بعد اس حلقے کی کل آبادی 809773 جبکہ 244178 مرد اور 196241 خواتین ووٹرز اس حلقے میں رجسٹرڈ ہیں۔ این اے 105 کی نمایاں برادریوں میں جٹ، آرائیں، راجپوت، گجر، کھرل اور رحمانی برادریاں شامل ہیں لیکن نئی مردم شماری کے بعد 37یونین کونسلز پر محیط اس حلقہ میں آرائیں برادری کا ووٹ کم ہوا ہے۔ این اے 105 کی 37یونین کونسلز، یونین کونسل 209 سے شروع ہوتی ہیں۔ میونسپل کمیٹی ڈجکوٹ، سرشمیر، فیصل آباد صدر تحصیل کے صدرI اور صدرII 69گ۔ ب اور 113گ۔ ب، ستیانہ کانگو حلقہ اس حلقہ انتخاب کا حصہ ہیں۔ معروف روحانی شخصیت صوفی برکت علی کا مزار بھی اسی حلقہ انتخاب میں واقع ہے۔ حلقہ انتخاب کے بنیادی مسائل میں پینے کے صاف پانی کی قلت، منشیات فروشی، چوری، ڈکیتی، اغوا، زنا بالجبر، سیوریج سسٹم کی عدم موجودگی اور بے روزگاری شامل ہیں۔ بیروزگاری اس حلقہ انتخاب کا سب سے بڑا مسئلہ اس لئے بھی ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں اس حلقہ انتخاب میں ایک اندازے کے مطابق 6200 سے زائد پاور لومز توانائی بحران کے باعث بند ہو چکی ہیں جس کے باعث نوجوان بیروزگاری کا شکار ہیں۔ رانا زاہد توصیف نے 1993ء اور 1997ء میں اس حلقہ انتخاب میں کامیابی حاصل کی۔ 2002ء کے عام انتخابات کے دوران رانا زاہد توصیف گریجوایٹ ڈگری ہولڈر نہیں تھے اور پرویزمشرف کی طرف سے گریجوایشن کی شرط عائد کر دی گئی تھی جس پر رانا زاہد توصیف نے اپنی جگہ اپنے چھوٹے بھائی رانا آصف توصیف کو میدان میں اتارا۔ 2002ء کے عام انتخابات میں رانا آصف توصیف مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر اس حلقے سے کامیاب ہوئے تھے۔ 2008ء کے عام انتخابات میں رانا آصف توصیف مسلم لیگ(ق) کے ٹکٹ پر اس حلقہ انتخاب سے ایک مرتبہ پھر کامیاب ہوئے۔ انہوںنے مسلم لیگ(ن) کے امیدوار میاں محمد فاروق کو شکست دی۔ میاں محمد فاروق نے اپنی سیاست کا آغاز 1979ء میں ضلع کونسل کے ممبر کے طور پر کیا تھا۔ ان کو سیاست میں چوہدری نذیر مرحوم لے کر آئے تھے۔ 1985ء کے غیرجماعتی انتخابات میں زاہد نذیر جو کہ اس وقت ملک میں پہلی مرتبہ جماعتی بنیادوں پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے بعد مسلم لیگ(ن) کے چیئرمین ضلع کونسل بھی ہیں 1985ء میں بھی زاہد نذیر جب چیئرمین ضلع کونسل منتخب ہوئے تو انہوں نے میاں محمد فاروق کو اس حلقہ انتخاب میں بطور رکن صوبائی اسمبلی منتخب کروانے میں اہم کردار ادا کیا۔ میاں محمد فاروق 6مرتبہ رکن قومی و صوبائی اسمبلی رہ چکے ہیں ان کا ایک بیٹا معظم فاروق 1990ء میں چیئرمین ضلع کونسل رہ چکا ہے۔ 2002ء میںمسلم لیگ(ن) نے ان کی صاحبزادی کو خواتین کی مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی بنایا لیکن بعدازاں جعلی ڈگری نکلنے کی بناء پر انہیں نااہل کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی دونوں جماعتوں کے امیدواروں کا تعلق آرائیں برادری سے ہے۔ پیپلزپارٹی کے این اے 105 میں اعجاز چوہدری کے بھائی ریاض چوہدری 1982ء سے 2000ء تک پاکستان پیپلزپارٹی کے برطانیہ میں انچارج رہے۔ انہوں نے سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے مشیر کے طور پر بھی کام کیا۔ اس وقت وہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی بہن فریال تالپور کے سیکرٹری کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ 2002ء کے انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر اس حلقہ این اے 105 میں رانا آصف توصیف نے 43547ووٹ حاصل کرتے ہوئے مسلم لیگ(ق) کے امیدوار دلدار چیمہ جنہوں نے 41947 ووٹ حاصل کئے تھے انہیں شکست دی تھی جبکہ اس وقت پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر رضا نصراللہ گھمن بھی اس حلقہ انتخاب میں امیدوار تھے جو 40264ووٹ لے کر شکست کھا گئے تھے لیکن سردار دلدار چیمہ صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر کامیابی حاصل کر گئے۔ این اے 105 میں مذہبی، سیاسی جماعتوں کا زیادہ ووٹ بینک نہیں جس کا ایک واضح ثبوت 2002ء میں متحدہ مجلس عمل کے امیدوار این اے 105 سابقہ این اے 80 کو حلقے میں صرف 786ووٹ ملنے سے ملتی ہے۔ 2008ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ(ق) کے ٹکٹ پر رانا آصف توصیف نے 56724 ووٹ حاصل کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی۔ انہوں نے میاں محمد فاروق کے صاحبزادے اور مسلم لیگ(ن) کے ضلعی صدر مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ ہولڈر قاسم فاروق کو شکست سے دوچار کیا جنہوں نے 44927 ووٹ حاصل کئے۔ 2013ء کے انتخابات میں گریجوایشن کی شرط ختم ہو چکی تھی لہٰذا مسلم لیگ(ن) نے اپنا ٹکٹ اپنے سابق رکن قومی اسمبلی میاں محمد فاروق کو دیا۔ میاں محمد فاروق نے ان انتخابات میں 85964 ووٹ حاصل کرتے ہوئے مسلم لیگ(ق) کے رانا آصف توصیف کو شکست دی جنہوں نے 54402 ووٹ حاصل کئے۔ اس حلقہ انتخاب میں تمام سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو خوب محنت کرنا پڑے گی اور وہ اس مقصد کے لئے ڈور ٹو ڈور کمپین بھی کر رہے ہیں لیکن اس حلقہ میں نمبردار، چوہدریوں اور برادریوں کے دھڑے اصل کردار ادا کرتے ہیں کہ حلقہ انتخاب کے ووٹر ان نمبرداروں، چوہدریوں اور برادری دھڑے کے بڑوں کے ہر فیصلے کا ہر مرتبہ احترام کرتے ہیں۔ اس حلقے میں اصل مقابلہ مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف کے درمیان ہے۔