شرح سود میں ایک فیصد اضافہ‘ ادھار لیکر بھی معاملات چلانا مشکل‘ مہنگائی بڑھے گی : گورنر سٹیٹ بینک
کراچی ( کامرس رپورٹر+نیٹ نیوز) سٹیٹ بینک آف پاکستان نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کر دیا جس میں شرح سود کو ایک فیصد بڑھا دیاگیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق گورنر سٹیٹ بنک طارق باجوہ نے مانیٹری پالیسی 2018ءکا اعلان کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کیا اور بتایا مرکزی بنک نے شرح سود6.5 فیصد سے بڑھاکر7.5 فیصد کردی ہے۔ انہوں نے کہا مہنگائی کی شرح بڑھ رہی ہے، زرمبادلہ ذخائر پر درآمدات کی وجہ سے دباﺅ ہے جبکہ روپے کی قدرمیں کمی سے مہنگائی بڑھے گی تاہم بجٹ خسارہ 6 اعشاریہ 8فیصد رہنے کا اندازہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا اب تک ادھار لے کر معاملات چلاتے آ رہے ہیں لیکن اسے جاری رکھنا مشکل ہے اس لئے شرح سود بڑھا کر طلب کے دباﺅ کو کم کرنے کی کوشش کی گئی جبکہ ماہرین رواں مالی سال شرح سود میں دو سے ڈھائی فیصد اضافے کا اندازے لگارہے ہیں۔کراچی کامرس رپورٹر کے مطابق شرح سود میں 100 بیسز پوائنٹس کا اضافہ کر دیا گیا جس کے نتیجے میں ایک فیصد اضافے سے نئی ممالیاتی پالیسی میں شرح سود 7.50 ہو گئی‘ پاکستان نے 13 سال کی بلند نمو 5.8 فیصد حاصل کی ہے‘ کرنٹ اکاﺅنٹ خسارہ 15.2 سے بڑھ کر 16.2 ارب ڈالر ہو گیا۔ گورنر اسٹیٹ بنک طارق باجوہ نے ہفتے کی شام پریس کانفرنس میں آئندہ 2 ماہ کیلئے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ زر مبادلہ کے ذخائر پر مسلسل دباو¿ بڑھ رہا ہے‘ امپورٹ کی وجہ سے شدید دباو¿ ہے ‘ تیل کی عالمی قیمتوں میں 50 سے 75 ڈالر تک اضافہ ہو گیا ہے‘ نجی شعبوں کے قرضوں میں 708 ارب کا اضافہ ہوا ہے‘ بینکاری شعبوں کے نیٹ فارن ایسٹ میں 793 ارب کی خالص کمی ہوئی ہے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات میں کچھ بہتری ہوئی ہے‘ سال کی بلند ترین نمو 5.8 حاصل کر لی گئی ہے‘ مالی سال 2018ءکیلئے بجٹ تخمینہ 6.8 ہے‘ جون کا انفلیشن ریٹ 5.2 فیصد رہی ہے جبکہ ایک سال میں 7 فیصد بھی اندازہ لگایا جا رہا ہے‘ جی ڈی پی نمو 5.5 فیصد رہنے کا اندازہ لگایا ہے‘ تعمیراتی شعبوں میں اپنے ہدف مکمل کر لئے جائیں گے اب تک پاکستانیوں نے 60 ارب ڈالر کی ریکارڈ درآمد کر ڈالی ہے‘ روپے کی قدر میں 13.5 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ گورنر اسٹیٹ بنک نے کہاکہ اب تک 23 ارب ڈالر کی ہی برآمدات کرا سکے ہیں تاہم درآمدات کو گھٹانے لے لئے سخت اقدامات کئے جائیں گے۔ اعلان کردہ مالیاتی پالیسی کی تفصیلات کے مطابق اوسط مہنگائی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت (CPI).06 فیصد کے ہدف سے کافی نیچے ہے تاہم آگے چل کر پاکستانی معیشت کو درپیش چیلنجوں میں شدت آئی ہے‘ مالی سال 2018ءمیںمالیاتی خسارے کا عبوری تخمینہ 6.8 فیصد لگایا گیا ہے جس کا تخمینہ مئی 2018ءمیں 5.5 فیصد تھا‘ جولائی تا مئی مالی سال 2018ءمیں جاری کھاتے کا خسارہ بھی بڑھ کر 16.0 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے جو کہ گزشتہ برس کی اسی مدت میں 11.1 ارب ڈالر تھا اس کا مطلب ہے کہ مجموعی طلب اس سے زیادہ ہے جتنا پہلے سوچا گیا تھا۔ جون (سال بہ سال) میں مہنگائی 5.2 فیصد تھی اور توقع ہے کہ مالی سال 2019ءکےلئے اوسط عمومی مہنگائی 6.0فیصد کے سالانہ ہدف سے تجاوز کر سکتی ہے‘ قوزی مہنگائی کے اعدادوشمار اور ان کی ایک سال آگے کی پیش گوئیاں تقریباً 7 فیصد ہیں جن سے طلب کے دباو¿ کی عکاسی بھی ہوتی ہے۔ بیرونی محاذ پر اگرچہ برآمدات اور کارکنوں کی ترسیلات زر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں لیکن زرمبادلہ کے ذخائر پر درآمدات کے حجم کا دباو¿ بدستور موجود ہے۔ حقیقی معاشی سرگرمیوں نے ایک بار پھر مالی سال 2017ءجیسی مضبوط کارکردگی دکھائی تاہم مالی سال 2018ءکے اواخر میں کچھ دشواریوں نے حقیقی شعبے کی اس بلند نمو کی راہ پر سفر جاری رکھنے کی استعداد کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر دئیے جبکہ تعمیرات سے منسلک صنعتیں امکان ہے کہ توقع کے مطابق کارکردگی برقرار رکھیں گی ان حالات اور خدمات کے شعبے پر ان کے اثرات کا جائزہ لینے کے بعد اسٹیٹ بینک نے مالی سال 2019ءکےلئے جی ڈی پی کی نمو تقریباً 5.5 فیصد رہنے کا تخمیہ لگایا ہے جبکہ سالانہ ہدف 6.2 فیصد ہے جہاں تک صارف اشاریہ قیمت کا تعلق ہے تو مالی سال 2018ءکےلئے اوسط عمومی مہنگائی 3.9 فیصد ہے تاہم یہ صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے جیسا کہ بڑھتی ہوئی (سال بہ سال) عمومی اور قوزی مہنگائی سے ظاہر ہے جو کہ جون 2018ءمیں بالترتیب 5.2 فیصد اور 7.1 فیصد تھی‘ جولائی 2018ءکے آئی بی اے ایس بی پی اعتماد ِصارف سروے کے جولائی 2018ءکے ایڈیشن سے سامنے آنے والی بلند مہنگائی کی توقعات کے سروے پر مبنی پیمائش‘ مالی سال 2018ءمیں زرعی توسیع بجٹ میں اعانت کےلئے حکومتی قرض گیری اور نجی شعبے کو قرضوں میں صحت مند نمو کی بدولت ہوئی ہے‘ معین سرمایہ کاری میں کچھ کمی‘ نجی شعبے کے قرضوں میں 768 ارب روپے کا اضافہ ہوا جو 14.8 فیصد نمو کے مساوی ہے توقع ہے کہ مالی سال 2019ءمیں نجی شعبے کے قرضے لگ بھگ 13 فیصد کی شرح سے بڑھیں گے۔ اسٹیٹ بنک کے زرِمبادلہ کے سیال ذخائر 6 جولائی 2018ءتک 6.7 ارب ڈالر کمی کے بعد 9.5 ارب ڈالر پر آ گئے ان حالات سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کے بیرونی کھاتوں کا قلیل المدتی انتظام کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔
گورنر سٹیٹ بنک