اخبار میں بیٹھے لوگ اخبار نہیں پڑھتے اور رخشندہ نوید
نامور اور بے شمار شاعر اور دانشور پروفیسر ڈاکٹر اختر شمار نے ممتاز صحافی کالم نگار اور شاعرہ سعدیہ قریشی کا انٹرویو کیا ہے وہ کہتی ہے ’’اخبار میں بیٹھے اکثر لوگ کتاب تو دور کی بات اخبار تک نہیں پڑھتے‘‘ ہم اختر شمار کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے شعر و ادب سے تعلق رکھنے والی ایک پڑھی لکھی جینوئن شاعر ہ اور کالم نگار سے متعارف کرایا۔ سعدیہ قریشی نے بہت خوبصورت اور بامعنی باتیں بڑی جرات اور حکمت سے کیں۔ کسی بھی کمپلیکس کے بغیر اچھی بات کرنا ہر ایک کا نصیب نہیں ہوتا۔
سعدیہ قریشی محمود شام کے لئے پسندیدگی رکھتی ہیں۔ محمود شام انہی دنوں گورنمنٹ کالج لاہور میں تھے، جب ہم بھی وہاں تھے۔ محمود شام ہم سے سینئر تھے، وہ مجھ سے پہلے ’’راوی‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔ ہم نے گورنمنٹ کالج سے ایم اے کیا تھا۔ اب یہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی ہے۔ ہم طرح طرح کے احساس کمتری سے کب نکلیں گے۔ برطانیہ میں ایک تعلیمی ادارہ ہے اس کا نام ’’لندن سکول آف اکنامکس ہے وہ ایک شاندار تعلیمی ادارہ ہے وہاں پی ایچ ڈی بھی ہوتی ہے۔
سعدیہ قریشی نے انگریزی ادب میں ایم اے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے کیا۔ ممتاز شاعرہ نوشی گیلانی وہاں تب استاد تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ گھر کا ماحول انسان دوست اور کتاب دوست ہے۔
اک بات میرے دل کو لگی، ہمیں بچپن سے یہی سکھایا گیا کہ انسان کتنا ہی غربت زدہ ہو وہ قابل احترام ہے۔ محمود شام کے علاوہ سعدیہ قریشی نے صہیب مرغوب کا ذکر بڑی محبت سے کیا۔ اخبارات میں خواتین صحافیوں کو عورتوں اور بچوں کے لئے کام کرنے کو کہا جاتا ہے۔ خواتین کے لئے یہ سوچ اس لئے پائی جاتی ہے کہ انہیں کام نہیں آتا۔ میرے کچھ فیچر شائع ہوئے ایک سینئر صحافی نے پوچھا یہ فیچر آپ نے لکھے ہیں۔ میری رائے یہ ہے کہ ادب سے متعلق لکھنے والے کتاب سے دور رہتے ہیں۔ اس میں خواتین بہت زیادہ ہیں۔
برادرم ڈاکٹر پروفیسر اختر شمار نے دو چار بیش بہا سطریں سعدیہ قرشی کے لئے لکھی ہیں۔ اس طرح سعدیہ قریشی کو اچھی باتیں کرنے کے لئے آمادہ کیا گیا۔ اگر اختر بھائی سعدیہ قریشی کے کچھ اشعار بھی اپنے اس شاندار انٹرویو میں شامل کر لیتے تو ہم ان کے کچھ اور شکرگزار ہوتے۔ اختر شمار ایک اخبار میں ادبی ایڈیشن بھی شائع کرتے ہیں میں بڑی باقاعدگی سے اس صفحے کو دیکھتا ہوں اسے مختلف بنانے میں اختر کامیاب ہیں اور مختلف ہونا ہی اصل خوبی ہے جو بڑی مشکل ہے۔
٭……٭……٭
ڈاکٹر صغرا صدف پنجابی انسٹیٹیوٹ آف کلچر اینڈ آرٹ میں ڈائریکٹر جنرل ہیں بہت ان تھک اور مخلص ہیں۔ انہوں نے اس ادارے کو شہر کا علمی ادبی مرکز بنا دیا ہے۔ ان سے میری گزارش ہے کہ وہ سعدیہ قریشی کے لئے ایک تقریب منعقد کریں جہاں صرف سعدیہ قریشی کو سنا جائے۔
٭……٭……٭
مستنصر حسین تارڑ ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں۔ انہوں نے سفرنامے لکھے پھر افسانہ اور ناول بھی لکھ دیا۔ اُن کے فن ا ور شخصیت پر ایک کتاب شائع ہوئی ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین سید جنید اخلاق نے اس موقع پر کہا کہ مستنصر کا شمار عصر حاضر کے صف اول کے ادیبوں میں ہوتا ہے۔ وہ ایک ناول نگار، سفر نامہ نگار، افسانہ نگار ، ڈرامہ نگار اور کالم نگار ہیں۔ قدرت نے انہیں تخلیقی وفور اور قوت مشاہدہ عطا کی ہے۔ یہ کتاب تنقیدی اور تخلیقی شعور کی عکاس ہے۔ مستنصر تارڑ کے حوالے سے اہم کتاب ہے۔ اس پر نظرثانی معروف ادبی شخصیت ڈاکٹر امجد طفیل نے کی۔
٭……٭……٭
شاعرہ رخشندہ نوید کی کتاب کے لئے تقریب بھی پیلاک کی طرف سے ہوئی ۔ کتاب کا نام مشکل ہے۔ صدارت نامور ادیب غلام حسین ساجد نے کی۔ ڈاکٹر غافر شہزاد، قائم نقوی اور ڈاکٹر صغرا صدف نے ا س کام کو ایک نگارخانہ سے تشبیہ دی۔ تقریب کے صدر غلام ساجد نے کہا کہ رخشندہ نوید کی شاعری ان کے دل کی بھڑاس ہے اور عورت کے وجود کا الائو ہے۔ ڈاکٹر اختر شمار نے کہا کہ رخشندہ کی شاعری پڑھتے ہوئے آدمی گائوں کی سیر کرتے ہوئے محسوس کرتا ہے۔ نظامت کے فرائض خاناں حیدر نے بڑی خوش اسلوبی سے سرانجام دئیے اور کہا کہ رخشندہ کی کتاب مجھے میری ماں کی یاد دلاتی ہے۔ آخر میں رخشندہ نے اپنا کلام سنایا اس کے مداحوں نے اسے پھول بھی پیش کئے۔ گلوکار سجاد سیری نے شاہ حسین کا کلام سنایا۔ اسے رخشندہ کا کلام سنانا چاہئے تھا۔ سجاد سیری خوبصورت گلوکار ہے اور ادبی محفلوں میں خاص طور پر شریک ہوتا ہے۔