ڈالر کی قیمت میں ریکارڈ 6.45 روپے اضافہ‘ مہنگائی کا طوفان آئیگا ....
لاہور (کامرس رپورٹر+ نوائے وقت رپورٹ) انٹربینک مارکیٹ میں ٹریڈنگ کے آغاز پر ہی ڈالر کو پر لگ گئے اور کاروبار کے دوران ڈالر 128 روپے 26 پیسے کا بھی فروخت ہوا۔ سٹیٹ بینک کے مطابق انٹر بینک مارکیٹ میں کاروبار کے اختتام پر روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر ریکارڈ 6 روپے 45 پیسے کے اضافے سے 127 روپے 99 پیسے رہی جبکہ ایکس چینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے مطابق اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت فروخت 128 روپے 75 پیسے ہو گئی۔ نگران حکومت نے گزشتہ ماہ بھی روپے کی قدر 5 فیصد کم کی گئی تھی۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق روپے کی قدر میں کمی سے مہنگائی کا ایک نیا طوفان آئے گا۔ نگران حکومت آنے والی حکومت کی آسانی کے لئے ایسے فیصلے کر رہی ہے۔ دو روز قبل شرح سود ایک فیصد بڑھانے کے بعد اب ایک ہی روز میں ڈالر 5 فیصد سے زیادہ مہنگا کر دیا، جس کے باعث نئی حکومت کو فوری طور پر عوام دشمن اور مشکل فیصلے کیے بغیر آئی ایم ایف سے نیا قرض لینے کے سلسلے میں مذاکرات میں آسانی ہوگی۔ نگران حکومت کے دور میں اب تک ہونے والی بے قدری کے باعث ملک پر بیرونی قرضوں میں نیا قرض لئے بغیر ہی اب تک 8 کھرب روپے سے زائد کا اضافہ ہو چکا ہے۔ بلوم برگ کے مطابق مسلسل بے قدری کے باعث پاکستانی کرنسی ایشیا کی سب سے کمروز ترین کرنسی بن چکی ہے۔ سٹیٹ بینک کے مطابق ڈالر مہنگا ہونے سے آج حکومت کے بیرونی قرضوں میں 800 ارب روپے کا اضافہ ہوا جو بڑھ کر 8 ہزار 120 ارب روپے ہوچکا ہے۔ سٹیٹ بینک کے مطابق مئی کے اختتام پر حکومت کا بیرونی قرض 7 ہزار 324 ارب روپے تھا اور مئی میں بیرونی قرضوں کی مالیت روپے میں 115اعشاریہ 61 کی شرح تبادلہ سے نکالی گئی۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور ادائیگیوں کی وجہ سے پاکستانی روپے کی قدر میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے اور ڈالر مہنگا ہونے سے مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا۔ جمعہ کو کاروبار کے اختتام پر ڈالر 121 روپے 54 پیسے کا تھا جس میں مسلسل اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ رواں سال کی ابتدا میں کاروبار کے دوران ڈالر 110 روپے 50 پر ٹریڈ کر رہا تھا اور مختلف اوقات میں اس میں مسلسل اضافہ دیکھا جارہا ہے۔ دوسری طرف پاکستان سٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) میںایک بار پھر مندی کے بادل چھا گئے، کے ایس ای 100 انڈیکس605.23 پوائنٹس کی کمی سے39665.77 پوائنٹس پر بند ہوا، مارکیٹ سرمایہ میں ایک کھرب 25ارب 57 کروڑ 97 لاکھ 20ہزار 596روپے کی کمی ہوئی تاہم تجارتی حجم میں 34کروڑ 26 لاکھ 55 ہزار 958 روپے کی تیزی ریکارڈ کی گئی۔ جبکہ خرید و فروخت میں 2کروڑ 27 لاکھ 30ہزار 390 حصص کا اضافہ ہوا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق بیک وقت پیدا ہونے والی 3وجوہات، روپے کی قدر میں کمی، سیاسی صورتحال اور شرح سود میں اضافہ مندی میں اضافے کی وجوہات ہیں۔ علاوہ ازیں چیئرپرسن ایف بی آر رخسانہ یاسمین نے کہا ہے کہ کالادھن سفید کرنے والی ”ٹیکس ایمنسٹی سکیم“ ناکام ہو گئی ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ سکیم شاندار تھی لیکن رسپانس اچھا نہیں ملا۔ بہت کم لوگوں نے سکیم سے فائدہ اٹھایا۔ چیئرپرسن نے ایمنسٹی سکیم کی مدت مزید نہ بڑھانے کا اعلان کیا۔ سکیم ختم ہوتے ہی انہوں نے بھرپور آپریشن کا اعلان کیا۔سٹیٹ بنک اعلامیہ کے مطابق درآمد ہونے والی 131 اشیا پر 100 فیصد کیش مارجن عائد کر دیا گیا۔ فیصلے کا اطلاق فوری طور پر کیا گیا ہے۔ فہرست میں موٹر سائیکل، ٹائر، سم کارڈ اور ڈیٹا پروسیسنگ مصنوعات شامل ہیں۔ فہرست میں پان، تمباکو، الائچی اور دیگر اشیا شامل ہیں۔دوسری طرف پاکستانیوں کی بیرون ملک جائیداد کی معلومات تک رسائی کا اہم معاہدہ ہوگیا، او ای سی ڈی کے تحت 101 ممالک معلومات فراہم کرنے کے پابند ہیں۔ معاہدے پر مکمل عملدرآمد یکم ستمبر سے ہوگا۔ برطانیہ میں پاکستانیوں کی غیر منقولہ جائیداد کی تفصیلات ایف بی آر کو مل گئیں۔ پاکستانی شہریوں کی بیرون ملک جائیداد کی معلومات ملنا شروع ہوگئیں۔ جائیداد والوں میں سیاستدان، بیورو کریٹس اور کاروباری شخصیات شامل ہیں۔ سٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ انٹر بینک مارکیٹ میں پاکستانی روپے اور امریکی ڈالر کا ایکسچینج ریٹ 128.0 روپے فی ڈالر پر بند ہوا جبکہ گذشتہ روز 121.55 روپے فی ڈالر پر بند ہوا تھا۔ ایکسچینج ریٹ میں یہ تبدیلی انٹربینک مارکیٹ میں زر مبادلہ کے طلب و رسد کے فرق کی عکاسی کرتی ہے۔ جیسا کہ حالیہ مانیٹری پالیسی بیان میں کہا گیا، مالی سال 18ء کا اختتام 13 سال کی بلند ترین حقیقی جی ڈی پی شرح نمو پر ہوا تھا۔ تاہم اس بلند نمو کے ساتھ ملک کے توازن ادائیگی میں نمایاں خرابی پیدا ہوئی۔ برآمدات میں دو ہندسی نمو (جولائی تا مئی مالی سال 18ءمیں 13.2 فیصد سال بسال)اور ترسیلات زر میں معتدل اضافے کے باوجود درآمدات کی مضبوط طلب (جولائی تا مئی مالی سال 18ءمیں16.4 فیصد سال بسال نمو)نے ملک کے جاری کھاتے کے خسارے کو اس سطح تک پہنچا دیا ہے جو قلیل مدت سے آگے پائیدار دکھائی نہیں دیتا۔سٹیٹ بینک کا نقطہ نظر یہ ہے کہ پالیسی ریٹ میں اضافے اور دیگر انتظامی اقدامات کے ساتھ ایکسچینج ریٹ میں یہ تبدیلی بالعموم ملکی طلب کو قابو میں لانے اور بالخصوص ملک کے بیرونی کھاتوں میں عدم توازن کو کم کرنے میں مدد دے گی۔سٹیٹ بینک معیشت کی ابھرتی ہوئی مبادیات کا بغور جائزہ لیتا رہے گا اور مالی منڈیوں میں استحکام کو یقینی بنانے کے لیے تیار ہے۔
لاہور (احسن صدیق) ملک میں ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافے نے مستحکم معیشت کا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔ سٹیٹ بنک کے دستیاب ڈیٹا کے مطابق 2 اکتوبر 2017ءکو روپے کے مقابلے میں ڈالر کا انٹر بنک ریٹ 105.43 روپے تھا جو 16 جولائی 2018ءمیں 22 روپے 57 پیسے کے ضافے سے 128 روپے تک پہنچ چکا ہے جو کہ ملکی تاریخ میں نیا ریکارڈ ہے۔ ڈالر کی قیمت میں حالیہ 5.45 پیسے کے اضافے سے پاکستان کے ذمے قرضوں میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 8 کھرب روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں حالیہ اضافے سے ملک میں پانی کی قلت ختم کرنے کے لئے بنائے جانے والے ڈیموں کی تعمیری لاگت میں بھی تقریباً 5 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ اس طرح ڈالر مہنگا ہونے سے ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا ہو گا۔ کھانے پینے کی اشیاءسے لیکر استعمال کے لئے درآمد کی جانے والی ہر چیز کی قیمت کو آگ لگ جائے گی جس سے ہر شخص کا بجٹ بری طرح متاثر ہو گا اسی طرح ملک میں گاڑیاں تیار کرنے والی کمپنیاں گاڑیوں کی قیمتوں میں 2 لاکھ روپے تک اضافہ کر دیں گی۔
گرانی کا طوفان