معروف موسیقار شاعر اور گلوکار” مہدی ظہیر“
شاہد لطیف
پاکستان ٹیلیوژن کراچی مرکزکے شعبہ پروگرام میں راقِم کو 80 کی دہائی میں معاون پروڈیوسر کی حیثیت سے ملک کی نامور شخصیات کوقریب سے دیکھنے اور ان کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا ۔دل چاہتا ہے کہ ان کے ساتھ کام کرنے کا تجر بہ اور ان کی فنکارانہ زندگی کی کچھ باتیں کی جائیں جوشاےدپڑھنے والوں کو دلچسپ لگیں ۔آج جِس شخصےت کا ذکر کروں گاوہ مہدی ظہیر ہیں۔ کراچی کے فیڈرل کیپیٹل ایریا ، المعروف ایف سی اےرےا میں ایک عام سے سرکاری کوارٹر میں مجھے مہدی ظہیر کی خدمت میں بارہا حاضری کا شرف حاصل رہا۔
مہدی ظہیر 1927 میں لکھنﺅ میں پیدا ہوئے ۔ ان کا اصل نام سید افتخار مہدی تھا اور شاعری میں ضو کلیمی تخلص کرتے تھے۔اُن کا زیادہ تر کلام ہمیشہ ہی غیر مطبوعہ رہا۔شاید وہ اس کو شائع کرانے یا مشہور ہونے میں سنجیدہ نہیں تھے حالاں کہ خاکسار نے اُن کے سرکاری کوارٹر میں صادقین، شان الحق حقی اور کئی ایک نامور شخصیات کو بیٹھے دیکھا۔میں نے مہدی ظہیر کی شاعری خود اُن ہی سے سنی ہے۔ ویسے تو شاعری کی تمام اصناف پر انہوں نے طبع آزمائی کی جس کی وہ خاصی قدرت بھی رکھتے تھے لیکن زیادہ تر نعت، منقبت،سلام اور غزل پر کام کیا۔ہاں ایک اور بات یاد آئی....انہوں نے فارسی اورعربی میں بھی شاعری کی۔ کبھی کبھی مجھے بھی ایک آدھ شعر سنا دیتے لیکن اس کو کیا کیجئے کہ عربی اور فارسی....
غرور نام کی شے اُن سے چھو کر بھی نہیں گزری تھی۔ہر ایک سے جھُک کر ملتے تھے۔کم از کم اس کم تر کو تو سخت شرمندگی ہوتی تھی کہ اتنی عظیم شخصیت مجھ سے اس قدر انکساری سے ملے.... یہ ہمیشہ ادبی بیٹھکوں اور مشاعروں اور بھیڑ بھاڑ سے دور ہی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ بطور شاعر شہرت نہ پا سکے۔اُن کی وفات سے تقریباََسال بھر پہلے میری اُن کے ہاں اس موضوع پر بات بھی ہوئی لیکن ہمیشہ کی طرح ا پنے مشہورِ زمانہ ’ تبسم‘ سے بات کو ٹال کر کراچی جم خانہ کی سو سالہ تقریب کے لئے اپنے لکھے ہوئے ترانے کی ریکارڈنگ سنائی جس کی دھن بھی انہوں نے بنائی تھی:
چھتیس ہزار اور پانچ سو رنگین شاموں کا فسانہ
کراچی جمخانہ کراچی جمخانہ
مزدور اور محنت کش افراد کے لئے تیار کیا گیا’ روشنی کا سفر‘ نام کا ایک لانگ پلے ریکارڈ ای ایم آئی پاکستان نے 1972میں ریلیز کیا جس میں ایک طرف 6 اور دوسرے رُخ پر بھی 6 گیت تھے۔ان میں سے 5نغمات کی موسیقی مہدی ظہیر کی تھی۔مثلاََ سلیم گیلانی کے لکھے گیت: ” ہیا ہیا ریل کا پہیہ....“، ” ابھی کل کی یہ بات ہے....“ ۔تمام گیت ریڈیو پاکستان کراچی میں ریکارڈ کئے گئے تھے۔ یہ سُپر ہِٹ گیت تھے جو ریڈیو پاکستان سے نشر ہوتے اور بہت مقبول تھے۔
مہدی ظہیر اردو، فارسی کے ساتھ عربی پر بھرپور عبور رکھتے تھے جِس کی بہترین مثال قصیدہ بردہ شریف ہے۔اس کی طرز، الفاظ کی ادائیگی اور تلفظ آج بھی سننے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔یہ مہدی ظہیر کا لازوال شاہکار ہے۔
پاکستان آنے سے قبل اُنہوں نے روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ بھات کنڈہ میوزک یونیورسٹی لکھنﺅ سے موسیقی کی بھی تعلیم حاصل کی۔ فارسی اور عربی زباندانی اور ایرانی و عربی موسیقی کا ذوق و شوق آگے چل کر بہت کام آیا۔ اس نے مہدی ظہیر کی طرزوں کو ایک اپنا منفرد اور جداگانہ انداز بخشا۔
موصوف طرزپر بول لکھنے یا بولوں کی کیفیت کو سامنے رکھتے ہوئے ایک عجیب سحر انگیز دھن بنانے میں اپنی مثال آپ تھے ۔
ریڈیو پاکستان سے جب اقبال کا فارسی کلام نشر ہوتا ہے تو آج بھی ان کی طرز او ر آواز سننے کو ملتی ہے۔ اُنہوں نے ریڈیو پاکستان کراچی کی ملازمت کے دوران ان گنت حمد و نعت ،نظموں اور گیتوںکی طرزیں ترتیب دیں ۔ بعض خود اپنی او رکچھ دوسرے فنکاروں کی آواز میں ریکارڈ کروائیں۔
اب کُچھ اقبال بانو کی آواز میں فیض احمد فیض کی مشہورِ زمانہ نظم” دشتِ تنہائی میں اے جانِ جہاں لرزاں ہیں.... “کا ذکر ہو جائے۔ اِس نظم کی صدابندی سے متعلق مہدی ظہیر صاحب نے ایک دلچسپ انہونی سنائی۔وہ یہ کہ نظم کے بولوں اور طرز کی مناسبت سے ایک ساز ’ وائبروفون ‘ بکثرت استعمال کیا جانا تھا مگر کسی وجہہ سے اس کی موٹر خراب ہو گئی جس سے ’ گونج ‘ جاتی رہی۔دلبرداشتہ ہو کر ساز کی موٹر ٹھیک ہونے کے انتظار میں بیٹھے رہنے کے بجائے اُنہوں نے جہاں اورجیسے کی بنیادپر ایک نئے انداز سے اس کو استعمال کر کے تاریخ رقم کر لی۔ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگ اس بات کی اہمیت کو نظر انداز کر دیں مگر ایسے ہی موقع پر انسان کے فنکارانہ جوہر پہچانے جاتے ہیں۔ واجبی موسیقی او ر کانوں کو اچھی لگنے والی موسیقی میں فرق کرنے والے افرادکو اگر وائبروفون گونج کے ساتھ اور بغیر گونج کی حالت میں الگ الگ سنایا جائے تو زمین آسمان کا فرق محسوس ہو گا۔اب اس کو ایسے استعمال کرنا کہ ساز کا بھر پور تاثر، تنہائی کی اداسی کا ماحول قائم کر دے، یہ مہدی ظہیر صاحب کا خاصا تھا۔
” دشتِ تنہائی “سے متعلق ایک مقبولِ عام خیال ہے کہ ا قبال بانو کی ادائیگی اور آواز نے اس نظم کو دوام بخشا ۔ یہ صحیح ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ مذکورہ بالا دوام مہدی ظہیر کا مرہونِ منت ہے۔جی ہاں!! اس نظم کی طرز ان ہی کی بنائی ہوئی ہے۔
1974میں دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس ( پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس 25ستمبر 1969 کو رباط، مراکش میں ہوئی تھی جس میں 24 مسلمان ممالک کے سربراہان شریک ہوئے تھے) کے موقع پرایک خصوصی ترانہ جمیل الدین عالی سے لکھوایا گیا،جس کی دھن ملک کے نامور موسیقار سہیل رعنا نے بنائی :
ہم تا بہ ابد سعی و تغیر کے و لی ہیں
ہم مصطفوی مصطفوی مصطفوی ہیں
مذکورہ ترانے میں نمایاں آواز مہدی ظہیر کی تھی۔حقیقت یہ ہے کہ مہدی ظہیر نے اس کو ایک زبردست ولولے اور جوش و جذبہ کے ساتھ پیش کیا ۔ ترانے کو بنے ہوئے 44 برس ہونے کو آئے لیکن یہ اب بھی پہلے کی طرح ترو تازہ ہے۔جب ہی تو یہ ملی ترانوں کا تاج کہلاتا ہے۔
پاکستانی فلمی صنعت میں احمد رُشدی (1938-1983) کا ایک بہت بڑا نام ہے۔ 50 کی دہائی میں فلمی دنیا میں ان کی آمد ریڈےو پاکستان کے راستے ہوئی۔ اس کاذریعہ بچوں کے لئے یہ گیت:
بندر روڈ سے کیماڑی
میری چلی رے گھوڑا گاڑی
بابو ہو جانا فٹ پاتھ پر
یہ گیت آج بھی دلچسپی سے سنا جاتا ہے ۔احمد رشدی کی اس کامیابی کا سہرا بھی مہدی ظہیر کے سر ہے جو اس گیت کے خالق ہیں۔یعنی شاعر اور موسیقار ۔
نظیر اکبر آبادی کا مشہور ’آدمی نامہ‘ مہدی ظہیر کی آواز میں ریڈیو پاکستان سے ریکارڈ ہوا تھا جو انٹرنیٹ پر سنا جا سکتا ہے اسی طرح نظیر اکبر آبادی کا ’بنجارہ نامہ‘ بھی انٹرنیٹ پر سنا جا سکتا ہے جس کی آڈیو معیاری ہے۔اس میں جلترنگ بھی بہت واضح سنائی دیتا ہے جو کہ اب ہمارے ملک سے غائب ہو چکا:اس گیت میںآٹھ دس وائلن بھی استعمال کےے گئے ہیں۔یہ ریڈیو پاکستان کی اصل ریکارڈنگ ہے۔5 اپریل 1988کو اپنی ذات میں ایک ادارہ، نامور موسیقار، شاعر، اپنے لحن کی نوعیت کے یکتا گلوکار اور ریڈیو پاکستان کراچی مرکز کے سینئر پروڈیوسر مہدی ظہیر انتقال کر گئے۔