وقاص اکرم، رمیش لال، میربادشاہ قیصرانی کوالیکشن لڑنے کی اجازت ، رائے حسن نواز کی تاحیات نااہلی برقرار
اسلام آباد/ ساہیوال (صباح نیوز+ نامہ نگار) سپریم کورٹ نے شیخ وقاص اکرم کو این اے 115 جھنگ سے الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی۔ جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں دورکنی بنچ نے ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے مخالف امیدوار محمد عمران کی درخواست خارج کر دی۔ جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ شیخ وقاص اکرم کے کاغذات نامزدگی میں کوئی غلط بیانی نہیں انہوں نے بی اے تعلیمی قابلیت عدالتی کاروائی سے مشروط کی ہے جبکہ وقاص اکرم کی بی اے کی سند کیخلاف ایچ ای سی کا لیٹر لاہورہائیکورٹ نے معطل کر رکھا ہے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا وقاص اکرم کی تعلیمی سند جعلی ہونے کا کوئی عدالتی ڈیکلریشن نہیں۔ این اے 149 سے پی ٹی آئی کے امیدوار رائے حسن نواز کو تاحیات نااہل قرار دیدیا۔ عدالت نے کہاکہ رائے حسن نواز کے کیس میں تو پہلے ہی واضح تاحیات نااہلی کا فیصلہ دیا گیا ہے انکے خلاف تو پانچ رکنی بنچ نے صادق اور امین نہ ہونے کے حوالے سے پہلے ہی فیصلہ دیا ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے درخواست گزار کے وکیل سے کہاکہ آپ کے موکل پر واضح طور پر آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق ہوتا ہے، ہم فیصلے لکھ لکھ کر تھک جاتے ہیں اور وکلا فیصلے پڑھنے کی زحمت نہیں کرتے، ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ کوئی کہے میں نے اب توبہ کر لی، عدالت نے قراردیا کہ توبہ قبول کرنا ہمارا کام نہیں، توبہ تو صرف اللہ ہی قبول کرتا ہے۔ سپریم کورٹ نے اقلیتی رہنما ڈاکٹررمیش لال کوانتخابات کیلئے اہل قرار دیتے ہوئے ان کی نااہلی کے لیے دائر درخواست خارج کر دی۔ پی پی 275 مظفرگڑھ سے امیدوار شاہد عباس کی نااہلی کیخلاف دائر اپیل خارج کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ سزا معطلی سے امیدوار الیکشن کیلئے اہل نہیں ہو جاتا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا شاہد عباس قتل کیس میں عدالت سے سزا یافتہ ہیں۔ پی پی 111 فیصل آباد سے آزاد امیدوار خواجہ محمد اسلام، این اے 146 پاکپتن سے تحریک انصاف کے امیدوار امجد جوئیہ کو الیکشن لڑنے کی اجازت مل گئی تاہم کامیابی کی صورت میں امجد جوئیہ کا نوٹیفکیشن عدالتی فیصلے سے مشروط ہوگا۔ پی پی 285 تونسہ شریف آزاد امیدوار میر بادشاہ قیصرانی کو بھی الیکشن لڑنے کی اجازت مل گئی۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ کیس میں اہم قانونی نقاط اٹھائے گئے ہیں، عدالت کا کہنا تھا کہ کسی امیدوار کیخلاف یکطرفہ کارروائی کرنے کے حق میں نہیں، میر بادشاہ قیصرنی کی کامیابی کی صورت میں نوٹیفکیشن سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط ہو گا۔