بلاول نے ناراض جیالوں کو گھروں سے نکال لیا‘ فوکس پارٹی منشور پر
لاہور (سید شعیب الدین سے) انتخابات میں جہاں تحریک انصاف کے عمران خان اور مسلم لیگ(ن) کے شہبازشریف جیسے پہاڑ ٹکرائیں گے۔ وہاں پیپلزپارٹی کے نوجوان لیڈر بلاول بھٹو زرداری نے بھی نہ صرف اپنی جگہ بنائی ہے بلکہ ناراض جیالوں کو گھروں سے نکلنے پر مجبور کر دیا ہے اور جس کارواں کو لیکر وہ مالاکنڈ سے چلے تھے ہر نئے پڑاﺅ پر انکے قافلے کا قد بڑھتا گیا اور سب سے بڑھ کر جو لب ولہجہ اور شائستہ زبان انہوں نے استعمال کی وہ موجودہ سیاسی فضا میں قابل رشک ہے۔ جہاں عمران خان تلخ زبان اور ناشائستہ الفاظ کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں اور شہبازشریف بھی اسٹیبلشمنٹ کا نام لیکر فوج پر گند اچھالنے‘ مخالفین پر تنقید میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں مگر بلاول نے اپنی تقریروں کا فوکس پیپلزپارٹی کے منشور پر رکھا ہے جسے بڑے پیمانے پر پذیرائی مل رہی ہے۔ بلاول کو ملنے والی اس پذیرائی کی بنیادی وجہ ان کی پشت پر انکے والد اور پھوپھی فریال تالپور کا کھڑا نہ ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسی وقت اپنے فیصلے خود کر رہے ہیں اور یہ فیصلے ان کی سیاسی بصیرت کا ثبوت ہیں۔ ایسا ہی ایک فیصلہ انہوں نے مستونگ خودکش دھماکے کے بعد مالاکنڈ میں موجود ہوتے ہوئے اپنا جلسہ نہ صرف منسوخ کیا بلکہ اپنی الیکشن مہم کو ایک ایسے وقت میں 2دن کیلئے روک دیا۔ یہ فیصلہ اگر آصف زرداری جیسا ”سمجھدار“ رہنما بلاول کے ساتھ ہوتا تو ایسا ہونا ناممکن تھا۔ بلاول بھٹو نے یہ فیصلہ کرکے پاکستان کے بہت سینئر تجزیہ کاروں کو تعریف پر مجبور کردیا کیونکہ عمران خان اور شہبازشریف جیسے تجربہ کار رہنما مستونگ دھماکے کے بعد اپنی مہم روکنے کا حوصلہ نہ کرسکتے۔ بلاول بھٹو نے اپنے اس انتخابی سفر سے اپنی پارٹی کی قیادت کو ایک صفحہ پر لانے کی جو کوشش کی ہے وہ بھی بڑی حد تک کامیاب رہی ہے اور اب انہی کی آواز ان کے لیڈروں کی زبان سے سنائی دے رہی ہے۔ 2018ءکے مشکل حالات میں بلاول نے پارٹی کو جن بنیادوں پر استوار کرنا شروع کیا ہے۔ اس کا پھل انہیں آئندہ 5سال شاید اس طرح نہ مل سکے جس طرح کے دعوے ان کے والد زرداری گزشتہ برس سے کر رہے تھے مگر بلاول 2023ءمیں ایک قدآور لیڈر بن کر سامنے آنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو کریڈٹ دیں یا ان کے والد کو بہرحال انہوں نے پاکستان بھر میں اپنے امیدوار کھڑے کرکے کم ازکم ”فیس سیونگ“ ضرور کرلی ہے مگر بدقسمتی سے ”فیس سیونگ“ کیلئے ایسے امیدوار بھی کھڑے کر دیئے گئے ہیں، جو کونسلر کا الیکشن جیتنے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال صوبائی دارالحکومت لاہور ہے جہاں 14 نشستوں پر ایسے امیدوار کھڑے ہیں جو 2013ءمیں بھی صرف 2 سے 5ہزار ووٹ لے سکتے تھے۔ یہ امیدوار اس دفعہ پھر کھڑے کر دیئے گئے ہیں جو ”سمجھدار“ تھے۔ وہ اپنے پچھلے تجربے کو نظرانداز نہیں کرسکے اور راستے سے ہٹ کر انہوں نے ایسے لوگوں کو راستہ دے دیا جو ان سے بھی گئے گزرے ہیں۔ آصفہ بھٹو سندھ میں اپنے بھائی کا ہاتھ بٹانے کیلئے میدان میں موجود ہیں۔ بلاول بھٹو اور ان کی دونوں بہنیں بختاور اور آصفہ ہی اب پیپلزپارٹی کا مستقبل ہیں۔ آصف زرداری نے اپنی اولاد کو ”میدان“ سونپ کر یقیناً درست فیصلہ کیا ہے۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کو اس الیکشن میں مشکل کا سامنا ہے مگر بلاول نے 2023ءکے اپنے اصل سیاسی کیریئر کی ایک اچھی بنیاد رکھ دی ہے۔