• news
  • image

پُرامن انتخابات کیلئے دعا اور سید ابن عباس الوداع

انتخابات میں اب صرف 2 روز باقی رہ گئے ہیں یہی وہ دو اہم ترین دن ہیں جو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کرنے جا رہے ہیں۔ میری دانست میں انتخابات کے اس موقعہ کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بعض دشمن قوتوں نے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان میں دہشت گردی کا پھر سے جال پھیلانے کا آغاز کر دیا ہے تاکہ ملک میں بے یقینی ایسے حالات پیدا کر کے انتخابات کو سبوتاژ کیا سکے۔ ہر ”ووٹر“ کو ووٹ دینے سے قبل اپنے اردگرد کے حالات پر کڑی نظر رکھنا ہو گی۔ انتخابی عمل پر مامور اہلکاروں، سکیورٹی فورسز اور بالخصوص افواج پاکستان کے حفاظتی دستوں کے لئے خصوصی دعا بھی مانگنا ہو گی....دشمن قوتوں کی یہ بھرپور کوشش ہو گی کہ انتخابی عمل کو متاثر کیا جائے۔ اس لئے دشمن کی چال کو ناکام بنانے کے لئے پوری قوم کو اپنی سیکورٹی فورسز سے مکمل تعاون کرنا ہو گا۔
ماضی کے مقابلے میں اس مرتبہ انتخابات میں پائی گئی گہما گہمی چونکہ ایک نئے انداز سے دیکھی جا رہی ہے اس لئے وہ ”ووٹر“ جو ماضی میں اُمیدوار رکن اسمبلی کے محض سہانے وعدے پر اعتبار کر لیا کرتا تھا اس کی فکری اور نظریاتی سوچ میں آج واضح تبدیلی آ چکی ہے۔ ”ووٹر“ کا ”ووٹ“ ڈالنے سے قبل ”سیاسی چاکا“ ایسا کھلا ہے کہ سابق دور میں رکن اسمبلی، ایڈوائزر، یا وزیر اور مشیر کے مزے لوٹنے والے امیدوار سے اپنے علاقہ کے ترقیاتی منصوبوں اور شہری اور دیہی گرانٹ کے استعمال کی تفصیلات بغیر کسی جھجھک معلوم کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے جو اسکی سیاسی بیداری کاواضح ثبوت ہے۔ ”ووٹ“ کی سوچ آج اپنے علاقہ کی کچی گلی کو پکا کرنے....نالیوں کی صفائی، گندے پانی کا نکاس اور مقامی تھانےمیں بند کسی عزیز و اقارب کی رہائی کے لئے کونسلر یا رکن اسمبلی سے ”ترلے منتیں“ یا اپنے ووٹ حوالہ سے ہٹ کر اپنے اصل مسائل کی جانب مبذول ہو چکی ہے۔ ”ووٹر اپنا ووٹ اپنے علاقہ میں ٹاٹوں سے پاک سکول....کوالیفائیڈ ڈاکٹر ڈسپنسری، صاف پانی،بجلی گیس اور ٹیلی فون کنکشن دینے سے مشروط کر چکا ہے اور اسے ہی جمہوری حقوق کا نام دیا جاتا ہے۔ دوسری جانب 25 جولائی کو ہونے والے انتخابات میں اوورسیز پاکستانیوں کو ”ووٹ“ کے معاملے میں ایک بار پھر نظرانداز کر دیا گیا ہے بیروں ملک مقیم پاکستانی جو اپنے وطن کے معاشی استحکام کے لئے سالانہ کروڑوں اور اربوں کا زرمبادلہ بھجوا رہے ہیں۔ ووٹ کے حق سے محروم ہونگے۔ ایسا کیوں کیا جا رہا ہے....؟ یہ ایک علیحدہ بحث طلب سوال ہے دل کو تسلی دینے کے لئے یہی کہا جا سکتا ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کا On Line Vote کا کیس تادم تحریر سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ میری اپنے انتہائی قابلِ احترام چیف جسٹس جناب میاں ثاقب نثار صاحب سے یہ خصوصی استدعا ہو گی کہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دلوا کر کم ازکم غریب الوطن پاکستانیوں کیلئے وہ ”بابے رحمتے“ کا کردار ادا کریں تاکہ پاکستان کے معاشی اور اقتصادی حالات کو استحکام بخشنے والے ان پاکستانیوں کو بھی ملک کے حقیقی نمائندوں کے چناﺅ کے مواقع دستیاب ہو سکیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کے 5 برس تک رہنے والے وفاقی وزیر پیر راشدی اور ان سے پہلے ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار نے اوورسیز پاکستانیوں کی فلاح و بہبود، اور انہیں بذریعہ ووٹ حق رائے دہی دلوانے میں کیا رول ادا کیا....آج بھی ایک ادھورا سوال ہے جومحنت کش پاکستانی اکثر محفلوں میں ایک دوسرے سے پوچھتے نظر آتے ہیں۔
جہاں تک انتخابی مہم میں مسابقت کی دوڑ کا معاملہ ہے توایک تجزیاتی ادارے کی جانب سے کئے گئے انکشاف کے مطابق گزشتہ 3 ماہ کے دوران 246 رہنماﺅں نے اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کیں۔ ہو سکتا ہے آئندہ دو روز میں اس میں مزید اضافہ ہو جائے۔
بعض سروے رپورٹس میں اب تک کے حقائق کی روشنی میں مسلم لیگ (نون) کی بدستور کی پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں جبکہ زمینی حقائق کو دیکھیں تو تحریک انصاف کا پلڑہ بھاری نظر آ رہا ہے۔ اصل حالات کیا ہونگے۔ دو روز بعد معلوم ہو جائے گا۔ مگر اس بات کو بھی ہرگز نظرانداز نہیں کرنا چاہئے کہ برادریوں کی اکثریت سے آزادانہ حیثیت میں کامیاب ہو کر آنے والے اراکین کی فکری سوچ کا پیمانہ اس بار یقیناً مختلف ہو گا۔ فرض کر لیتے ہیں کہ HUNG PARLIMENT کی صورت میں آزاد حیثیت سے کامیاب ہوکر اسمبلی میں آنے والے امیدوار کا اس وقت نقطہ¿ نظر اگر اپنے منشور سے مختلف ہو جاتا ہے تو پھر نئے پاکستان کے خواب کو کیسے پورا کیا جائے گا۔ محض ووٹ سے تبدیلی کا فائدہ نہیں ، اصل ضرورت نظام بدلنے کی ہے۔اس میں قطعی شک و شبہ نہیں کہ عمران کی سوچ اور ویژن ایک پروگریسو پاکستان کا قیام ہے جہاں معاشی اور معاشرتی مساوات قائم ہو....مگر نظام کو بدلنے کے لئے ضروری نہیں کہ عمران خان اپنی پہلی سیاسی اننگز میں ہی کامیاب ہوجائیں۔ بہاولنگر سے اعجاز الحق، گوجر خان سے چودھری ریاض کی پیشگی کامیابی کی اطلاعات بھی پہنچ رہی ہیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ ”ووٹر“ اس مرتبہ اپنے قیمتی ووٹ کو کس سیاسی زاویے تک لے جانے میں کامیاب ہوتا ہے؟ اب اسے بھی اتفاق ہی کہیے کہ قومی انتخابات سے دو روز قبل برطانیہ میں ہمارے پاکستانی ہائی کمشنر سید ابن عباس اپنی ذمہ داریوں کا دورانیہ مکمل کرنے کے بعد مورخہ23 جولائی 2018ءکو وہ پاکستان روانہ ہو گئے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ سفارت کاروں کو ایک مخصوص مدت کے لئے بیروں ملک آنا اور پھر مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد واپس جانا ہی ہوتا ہے سید ابن عباس کی کمی کو برطانوی پاکستانی شدت سے محسوس کر رہے ہیں۔ لندن میں اپنے پاکستانی ہائی کمشن میں تعینات کئی کئی ”سفیروں“ اور ہائی کمشنروں“ کو قریب سے دیکھا مگر علی ارشد مرحوم اور محترمہ ملیحہ لودھی کے بعد سید ابن عباس واحد ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے ”سرکاری اور غیر سرکاری سفیر“ کا فرق مٹا دیا۔
3 برس قبل ان کی برطانیہ تعیناتی پر پہلی ملاقات میں جو میرا ان سے سوال تھا وہ ہائی کمشن لندن کے ”ٹائلٹوں“ کی ناگفتہ بہ حالت پر تھا۔ ابھی نئے نئے وہ آئے تھے مگر میری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ انہوں نے 3 ماہ میں BASEMENT TOILETS کی حالت تبدیل کرکے مجھے ٹیلی فون پر وزٹ کرنے کی دعوت بھی دے ڈالی۔ سید ابن عباس کی کمیونٹی میں ہردلعزیزی کی بنیادی وجہ لوگوں میں گُھل مل جانا....عاجزی و انکساری اور COMMITMENT رہی حالانکہ ہائی کمشن کے شعبہ پاسپورٹ، ویزہ ، شناختی کارڈ اور ATTESTATION دستاویزات سیکشن کا میں آج بھی بہت بڑا نقاد ہوں۔ سید ابن عباس نے اپنی مدت ملازمت کے دوران پاک برطانیہ تعلقات کو مستحکم ہی نہیں کیا دوطرفہ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو بھی وسعت دی۔ دو سالہ دورمیں پاکستانی برآمدات کو انہوں نے 2 ارب پونڈ سالانہ تک پہنچا دیا۔ اپنے TENURE کے دوران انہوں نے برمنگھم اور بریڈ فورڈ کے قونصل خانوں کوجدید سہولتوں سےمتعارف کروایا۔ آن لائن بکنگ ” سسٹم اور نادرا“ اپائنٹمنٹ وقت کو مزید مختصر کیا۔ ان کی بھرپور کوشش رہی کہ وہ برطانیہ میں آباد ایک عشاریہ 2 ملین پاکستانیوں سے رابطے میں رہتے ہوئے انکے مسائل حل کریں۔ کمیونٹی کو قریب تر لانے کیلئے انہوں نے کونسلر کنونشن ، اپنی سرکاری رہائش گاہ میں ہر عید پر پاکستانیوں سے ملاقات ، لندن میں تاریخی 70 ویں یوم آزادی، لنکنزن اِن “ میں قائد اعظم کے مجسمے کی تنصیب اور پاکستانیوں کے لئے کئی ثقافتی اور ادبی پروگرام ترتیب دئیے۔ نئے ہائی کمشنر کو بلاشبہ کمیونٹی خوش آمدید کہتی ہے مگرسید ابن عباس کی یادیں کمیونٹی شائد اتنی جلدی نہ بھلا پائے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن