• news
  • image

میرے گوجرانوالہ میں کیا ہو رہا ہے ؟

ہم گوجرانوالہ کے بندے بندے کو جانتے ہیں۔ ہمیں یہاں کسی گلی کوچہ بازار میں کوئی خلائی مخلوق دکھائی نہیں دی ۔ اگر کوئی بھولپن میں فوجی افسروں جیسے حاجی ٹیپو سلطان خان کو ہی خلائی مخلوق سمجھ بیٹھے تو الگ بات ہے ۔ گوجرانوالہ میں سبھی جماعتوں کے وہی جانے پہچانے امیدوار ہیں۔ یہاں پہلے بھی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی دو جماعتیں تھیں۔ پرو بھٹوووٹ تھے یا پھر اینٹی بھٹو ووٹ۔اب بھی مسلم لیگ ن ہے اور تحریک انصاف ہے ۔ وہی کشمیری ہیں ۔وہی ارائیں ہیں۔ ارائیوں کی قیادت اور سیادت حاجی امان اللہ ، چوہدری خالد ہمایوں کے گھر سے ہوتی ہوئی چوہدری صدیق مہر کے وسیع و عریض فارم ہاﺅس تک پہنچ چکی ہے ۔ یہاں کسی حکمران کے ہیلی کاپٹر اترنے کی سہولت موجود ہے اور پردے کا معقول انتظام بھی ۔ کشمیریوں کی چودھراہٹ کا ٹھکانہ نہیں بدلا۔ باپ کی پگ اس کی زندگی میں ہی بیٹے کے سر پر دھری دکھائی دے رہی ہے ۔ شہر گوجرانوالہ کی حد تک یہاں کی سیاست میں ایک مرتبہ ملا مولوی بھی آن گھسے تھے ۔ لیکن وہ اس صنعتی اور تجارتی شہر میں زیادہ دیر ٹھہر نہیں سکے ۔ اب پھر مسلم لیگ ن ہے اور تحریک انصاف ہے ۔ گوجرانوالہ میں پیپلز پارٹی کی جنم بھومی لالہ فاضل قصائی کا گھر تھا۔ لالہ جی بائیں بازو کے ایک نظریاتی کارکن تھے ۔ وہ چٹے ان پڑھ ضرور تھے لیکن فطری سوجھ بوجھ اور دانش سے بے بہرہ نہیں تھے ۔بھٹو کی محبت میں انہوں نے گھر بار بھی لٹایا اور لاہور کا شاہی قلعہ بھی بھگتا۔ ان دنوں ان کے” گدی نشین “لالہ اسد اللہ پاپا ہیں۔ وہی رنگ روپ ، وہی عوامی چھب ڈھب ، فرق صرف مال منال کا ہے ۔ ویسے بھی آجکل تجارت بذریعہ سیاست کا چلن ہے ۔ لالہ پاپا جدید سیاست کے انگ ڈھنگ سے بخوبی آگاہ ہیں۔ انہیں علی اشرف مغل” سہروں گانوں “کے ساتھ تحریک انصاف میں لائے ہیں۔ تحریک انصاف کے ساتھ بوقت نکاح سہرا انہیں چوہدری محمد علی کے چہرے سے نوچ کر باندھا گیا۔ کبھی کبھی ایک موت میں دوسری زندگی جنم لیتی ہے ۔یہ بھی ایک ایسا ہی واقعہ تھا۔ مغل برادری کے سربراہ گوجرانوالہ میں عزیز ذو الفقار تھے ۔ یہ امیر کبیر صنعتکار پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے غالباً پہلے صدر تھے ۔ لکھنے پڑھنے میں فراواں دلچسپی رکھتے تھے ۔ ان کی ایک کتاب ”چاچا گام “ کا نام مجھے یاد ہے ۔ یہ 1970ءمیں پیپلز پارٹی سے ہار کر گھر بیٹھ رہے ۔ ضیاءالحق کی مجلس شوریٰ میں نہ پہنچ سکنے کا انہیں بہت قلق رہا۔ اس سلسلہ میں وہ اپنے عمر بھر کے سیاسی ساتھی کوگلہ آمیز لہجے میں کہا کرتے رہے۔ ’بے وفا تجھے کہتی ہے دنیا اور شرماتا ہوں میں ‘ ۔ شاید یہ شریف آدمی نہیں جان سکے تھے کہ :
اے دوست محبت کے صدمے تنہا ہی اٹھانے پڑتے ہیں
رہبر تو فقط اس رستے میں دو گام سہارا دیتا ہے 
ان دنوں عبدالرﺅف مغل سے ہوتا ہوا مغل برادری کی قیادت کا بوجھ علی اشر ف مغل کے جوان کندھوں پرپہنچ چکا ہے ۔ یہ جوان جہان ، لگتا ہے سیاست کے میدان میں لمبی اننگ کھیلیں گے ۔ ان کا شہر گوجرانوالہ کے صاف شفاف سیاستدان بیرسٹرعثمان ابراہیم سے مقابلہ ہے ۔ لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ صاف شفاف جماعت کا ٹکٹ علی اشرف مغل کے پاس ہے ۔ اب دیکھئے پچیس جولائی کو کیا ہوتا ہے ؟ سیاست بھی میوزیکل چیئرز جیسا کھیل ہے ۔ ضلع گوجرانوالہ میں قومی اسمبلی کی سات نشستوں سے چھ رہ جانے کے باعث امتیاز صفدر وڑائچ میدان سے باہر ہو گئے ہیں۔ ہم اس مہذب انسان کیلئے دکھ کے اظہار کے سوا اور کیا کر سکتے ہیں۔ محمود بشیر ورک ایک خوش قسمت سیاستدان ہیں ۔ اب تک بلا کسی تردد کے اسمبلی کی ممبری پکے پھل کی طرح ان کی جھولی میں گرتی رہی ہے۔ ایک مرتبہ یوں بھی ہوا کہ وہ ایک الیکشن میں پولنگ والے دن شام کو ہی اپنی کوٹھی کا مین گیٹ بند کر کے سو رہے ۔ رات گئے لوگوں نے انہیں آن جگایا اور بتایا کہ وہ الیکشن جیت گئے ہیں۔ اس مرتبہ ان کا مقابلہ قاضی کوٹ کے ان انتھک گجروں سے ہے جو نہ ہی راتوں کو خود سوتے ہیں اور نہ ہی اپنے مخالفوں کو چین سے سونے دیتے ہیں۔ خوئے دلنوازی کے یہ پیکر اپنے ووٹروں کو اپنی سیاسی جماعت کا بتاتے نہیں ۔ کوئی ووٹر بھی ان سے یہ پوچھنے کا تکلف نہیں کرتا ۔ کامونکی سے رانا نذیر احمد خاں ایک شائستہ اور مہذب سیاستدان ہیں۔ زیرو سے ہیرو بننے والے یہ اچھے بخت لے کر آئے ہیں۔ نیب بھگت چکے ہیں۔ قسمت اچھی ہو تو نیب والے بھی بڑی عزت احترام سے رخصت کر دیتے ہیں۔ ابھی ابھی پتہ چلا ہے کہ نوشہرہ ورکاں میں چوہدری بلال اعجاز نے اپنی برادری کے دوسرے امیدوار ڈاکٹر عامر کو منا لیا ہے ۔ وہ الیکشن سے دستبردارہو گئے ہیں۔ میرے خیال میں اب اس حلقہ کے نتیجہ کیلئے پچیس جولائی کے انتظار کی ضرورت نہیں رہی۔ نتیجہ سامنے نظر آرہا ہے ۔ وزیر آباد اس لحاظ سے خوش قسمت واقع ہوا ہے کہ یہاں کے دونوں متحارب سیاسی گھرانے ایک دوسرے سے بڑھ کر پاکیزہ لوگ ہیں۔ چیمہ خاندان کے تینوں بھائی اک دوسرے سے بڑھ کر صاف شفاف ہیں۔ لیکن الیکشن وہ ن لیگ کے ٹکٹ پر لڑتے ہیں۔ دوسری طرف حامد ناصر چٹھہ کی مالی پاکیزگی بھی شک و شبہ سے بالا ہے ۔ جنرل کے ایم عارف نے لکھا ہے۔” ایک مرتبہ جنرل ضیاءالحق نے حامد ناصر چٹھہ کے بارے میں کہا تھا۔ وہ ایک ایسے لڑکے کی مانند ہیں جس کی جسمانی اور ذہنی نشوونما ایک جگہ آکر رک گئی ہو“۔ مجھے جنرل کے ایم عارف کی رائے سے اتفاق نہیں۔ وہ بلا شبہ ہمارے ضلع کے ذہین ترین بزرگ سیاستدان ہیں۔ اپنی عزت ، مقام ، مرتبہ کے بارے میں حساس بھی بہت ہیں۔ لیکن یہ کیا ہے ؟ کہ اتنا بڑا آدمی باقاعدہ تحریک انصاف میں شامل بھی نہیں لیکن انہیں تحریک انصاف کے کسی اسٹیج پرچڑھنے اترنے میں کوئی عاربھی نہیں۔ایک زمانہ میں معزز خواتین وحضرات نکاح کی افادیت خوب سمجھتے تھے۔گوجرانوالہ کا نواحی گاﺅں اروپ ایک صدی سے سیاست کا مرکز رہا ہے ۔ اس گاﺅں کا انجام بہت عبرتناک ہے ۔ اس مرتبہ اس تاریخی گاﺅں کے حصے میں ن لیگ ، تحریک انصاف سمیت کسی اہم سیاسی جماعت کا کوئی ٹکٹ نہیں آیا۔اروپ فیملی سے ولید شاہد بھنڈرایک وجیہہ نوجوان ہے۔اس کی سیاسی زندگی کا آغاز تحریک انصاف کی ضلعی صدارت سے ہواتھا۔ پھر یہ ”ناشکرا “تحریک انصاف چھوڑ کر ن لیگ میں چلا گیا۔ن لیگ سے اس کے حصے میں کچھ نہیں آیا۔اب وہ کسی صوبائی حلقہ سے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن میں حصہ لے رہا ہے ۔ 
اک قدم غلط پڑا تھا راہ شوق میں
منزل تمام عمر مجھے ڈھونڈتی رہی 
الیکشن میں وہی جانے پہچانے لوگ ہیں ۔ سبھی اہم لوگ پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں آئے ہیں۔ یہ سب آخر کریں بھی کیا؟ پیپلز پارٹی کے پلے کچھ نہیں رہا۔ سیاسی جماعت بدلنا اب ہمارے ہاں ایک عام بات ہے ۔ ن لیگ خلائی مخلوق کا سارا شور صرف اسلئے مچا رہی ہے کہ انہیں پہلی مرتبہ الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ ، بیورو کریسی اور پولیس کی وہ سپورٹ حاصل نہیں جس کی وہ عادی ہو چکی ہے ۔ 
 

epaper

ای پیپر-دی نیشن