سارا کشمیر ہمارا.... الحاق کشمیر کانفرنس
حصول وطن کی جدو جہد کا اولین مقصد مسلمانان برصغیر کو بنئے کے اقتصادی جبر اور مذہبی تنگ نظری سے نجات دلا کر اسلامی اقدار اور شعار کا احیاءتھا مگر قیام پاکستان کے فوری بعد انگریز کی تربیت یافتہ سول ملٹری نوکرشاہی کے متکبر رویوں نے قوم کو طبقاتی مسلکی نسلی اور علاقائی عصبیتوں میں تقسیم در تقسیم کر ڈالا جس کے نتیجے میں حصول وطن کے مقاصدتو درکنار بڑے قومی اہداف بھی فراموش کر دیے گئے ۔ قومی سطح پر شائستگی و بردباری کی جگہ ہنگامہ آرائی خفگی اور بے اعتمادی کی فضا عام دکھائی دیتی ہے ۔ حد تو یہ ہے کہ کشمیر جیسے حساس ترین قومی مسئلے پر بین الاقوامی سطح پربھی ہم اپنا موقف منوانے میں سات عشروں میں بھی کامیاب نہ ہو سکے دوسری جانب بھارت نہتے کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ بھی توڑ رہا ہے اور بین الاقوامی سطح پر دہشت گرد ثابت کرنے کے لئے آخری حدوں کو چھو رہا ہے ۔حقیقت تو یہ ہے کہ قیام پاکستان 14اگست 1947ءسے قبل ہی 19جولائی 1947ءکو سری نگر میں سردار ابراہیم کی رہائش گاہ پر اکثریتی کشمیری رہنماﺅں کے اجلاس میں الحاق پاکستان کا فیصلہ کر لیا گیا ۔ اس تاریخ ساز عہد کو اہل پاکستان ہر سال اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھازبر کرتے ہیں ۔نظریہ پاکستان ٹرسٹ قومی امنگوں تمناﺅں اور اہداف کے حصول کا قلعہ مانا جاتا ہے ۔ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی 19جولائی کو الحاق کشمیر کانفرنس کا پرتباک اہتمام کیا گیا جس میں صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی کے نامور افراد نے خطاب کیا ۔ کانفرنس کا ماحول نہایت پرجوش اور ملی جذبوں سے لبریزو سرشار تھا کیونکہ نقیب کانفرنس شاہد رشید تھے جنہوں نے آغاز میں ہی اپنے جوش خطابت سے ملی ولولوں اور جہاد کشمیر کے حوالے سے کانفرنس ہال میں ایک سما باندھ دیا ۔ تلاوت کلام اللہ اور نعت رسول اللہ ﷺ کے بعد جناب مرغوب ہمدانی نے کشمیر کے حوالے سے فی البدیں تین شعر ترنم میں پڑھے جس سے محفل میں کیفیت طاری ہوگئی۔:
پاکستانی اور کشمیری بھائیوں کا یہ نعرہ ہے
اے بھارت کشمیر ہمارا سارا کشمیر ہمارا ہے
ظالموں ظلم و ستم بند کردو تم نے لاکھوں شہید کئے ہیں
اک دن فتح کشمیر کریں گے ہم سب کا یہ نعرہ ہے
پاکستان کا مطلب کیا ہے لا الہ الا اللہ
قیامت تک قائم یہ رہے گا یہ ایمان ہمارا ہے
صدر آزا دکشمیر نے اپنے فصیح و بلیغ خطاب میں مسئلہ کشمیر کے جزئیات کو بڑی باریک بینی اور آسان الفاظ میں پیش کرکے اپنے وسیع سفارتی تجربے اور موقف پر مکمل گرفت کا ثبوت پیش کیا ۔ انہوں نے بتایا کہ حق خود ارادیت تمام حقوق کا منبع اور ماخذ ہے ۔ یہ تمام بین الاقوامی قوانین اور چارٹر کا حصہ ہیں۔دنیا کا کوئی قانون کشمیریوں کو اس حق سے محروم نہیں کر سکتا ۔ 1947میں پاکستان اور بھارت میں رہنے والوں کو تو یہ حق مل گیا تھا مگر اہل کشمیر اس سے محروم رہے ۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی تاریخی جغرافیائی غرض یہ ہے کہ ہر لحاظ سے کشمیر اورپاکستان کے عوام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ۔ دونوں ایسے اٹوٹ رشتے میں بندھے ہوئے ہیں جنہیں بھلایا نہیں جا سکتا ۔ کشمیری مظلوم محکوم ، محصور اور مجبور ہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ مظالم کشمیریوں پر ڈھائے جا رہے ہیں جبکہ تحریک کشمیر دنیا کی سب سے بڑی غیر مسلح جدوجد ہے جن کے اوپر سات لاکھ سے زیادہ جدید اسلحے سے لیس فوج مظالم ڈھا رہی ہے ۔ کشمیریوں کے گھروں کو مسمار ، نوجوانوں کو شہید اور خواتین کی آبرو ریزی ہو رہی ہے جبکہ اکثر اجتماعی قبروں کے انکشافات بھی ہوتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں بلکہ جنگی جرائم کی داستانیں ہیں ۔ اقوام متحدہ کے ہیومین رائٹ کمیشن کی رپورٹ چشم کشااہمیت رکھتی ہے ۔ ہم سب کو اس رپورٹ کا مطالعہ کرنا چاہیے ۔ صدر آزاد کشمیر نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے بھارتی پالیسی کی وضاحت کی کہ کشمیریوں کو اتنا مارو کہ وہ ڈر جائیں اور بھارت کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں ۔ بھارت حریت قیادت سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتا نہ ہی پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آتا ہے جبکہ پاکستان کی پالیسی ہے کہ مسئلہ کشمیر سیاسی سفارتی اور مذاکرات کے زریعے جمہوری طریقے سے ہی حل ہو سکتا ہے ۔یہ نوشتہ دیوار ہے کہ پاکستان ہر قیمت پر کشمیریوں کی حمایت جاری رکھے کیونکہ کشمیری سنگینوں کی چھاﺅں تلے بھی الحاق پاکستان کا پرچم بلند کئے ہوئے ہیں ۔ کشمیر کی فضاﺅں میں پاکستان کے ترانے گونج رہے ہیں ۔ ہر قصبہ ہر شہر میں نعرہ زن ہیں۔(ہم کیا چاہتے ہیں ۔ آزادی ۔آزادی کا مطلب کیا ؟ لا الہ الا اللہ ۔پاکستان سے رشتہ کیا لا الہ الا اللہ) سردار مسعود خان نے واضح کیا کہ آزاد کشمیر پاکستان کے لئے دفاعی لائن کی حیثیت رکھتا ہے ۔آزاد کشمیر نہ ہوتا تو بھارتی سات لاکھ فوج کو ہالہ پل پر دکھائی دیتی ۔ پاکستان کے ریاستی تشخص اور جغرافیہ اس وقت تک نا مکمل ہے جب تک پورا کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں بن جاتا ہے ۔ تقریب سے چیئر مین نظریہ پاکستان ٹرسٹ محمد رفیق تارڑ نے اپنے خصوصی پیغام میں کہا کہ بھارتی جبرو استبدار اور نہ ہی عالمی طاقتوں کی بے حسی کشمیریوں کے جذبہ حریت کو سرد کر سکی ہیں ۔ وہ پاکستان کے ساتھ مذہبی تہذیبی جغرافیائی اٹوٹ رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں ۔ کوئی طاقت ان مقدس رشتوں کو کمزور نہیں کر سکتی ۔ پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد نے بتایا کہ پاکستان کا لفظ " ک" سے مراد کشمیر ہے لہذاکشمیر کے بغیر پاکستان مکمل نہیں ہے ۔ ان کی لازوال قربانیاں رائگاںنہیں جائیں گی ۔ نامور صحافی دانشور مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پاکستان میں کبھی بھی جماعتی سیاست سے متاثر نہیں ہوا ۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ عمران خان، شہباز شریف ،بلاول بھٹو کشمیریوں کے حق میں مشترکہ لائحہ عمل کا اعلان کریں اور حکومت پاکستان کشمیر کے لئے خصوصی نمائندہ مقرر کرے جو پوری دنیا کو اس مسئلے سے آگاہ کرے ۔ ایک ایسی کمیٹی قائم ہو جس میں پاکستان اور آزاد کشمیر کے صدور ، وزراءاعظم کے علاوہ قائد حزب اختلاف بھی شامل ہو ۔کانفرنس سے معروف کشمیری رہنماءمولانا محمد شفیع جوش ، افتخار ملک ، جسٹس خلیل الرحمن نے بھی خطاب کیا ۔ پروگرام کے دوران سمر سکول کی طالبات نے معروف کشمیری نغمہ (میرے وطن تیری جنت میں آئیں گے اک دن) پیش کیا ۔