بختاور کی سیاسی دلچسپی اور انمول گوہر
صدر زرداری کی بڑی بیٹی بختاور نے شاید اب سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اب چوتھے بڑے لیڈر بن کے سامنے آئے ہیں۔ چودھری پرویز الٰہی کا ذکر ابھی اس طرح نہیں کیا جا رہا جبکہ وہ بھی بڑے سیاستدان ہیں ۔ وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بھی رہے۔ وفاق میں انکی حیثیت بھی ہے کہ وہ نائب وزیراعظم بھی رہے ہیں ۔ نواز شریف نے پہلے پہل چودھری صاحبان کی مدد سے سیاست میں فاتحانہ انٹری دی ، پھرو ہ خفا ہوگئے ۔ چودھری صاحب مدد اور مرضی کے بغیر کیوں وزیراعلیٰ پنجاب ہوگئے ہیں۔
مگر میں بیٹی بختاور کے حوالے سے بات کرنے لگا ہوں ۔ بختاور نے پی ٹی آئی کے خلاف بات کی ہے۔ یہ آصفہ بھٹو زرداری بھی ایک دوبار کر چکی ہے مگر یہ کام ابھی اپنے بھائی بلاول بھٹو زرداری کے لئے چھوڑ دیا جائے ۔ پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ دونوں اپنا مقابلہ پی ٹی آئی سے کر رہی ہیں ۔ بختاور کہتی ہیں کہ عمران خان کے جلسے ناکام ہو رہے ہیں ۔ الیکشن سے پہلے ہی پی ٹی آئی کا حشر نشر ہوگیا ہے۔ وہ گرمی یا برسات کو قصوروار سمجھتے ہیں جبکہ پیپلزپارٹی کے جیالے اپنے چیئرمین بلاول کا رات تین بجے تک انتظار کرتے ہیں ۔ نواز شریف اور (ن) لیگیوں کے لئے نواز شریف کے بعد جو مریم نواز کا مقام ہے، وہی زرداری صاحب کے ہوتے ہوئے بختاور کا بھی ہونا چاہیے ۔
مریم نواز نے اپنی کارکردگی سے نام کمایاتو بختاور اور آصفہ کو بھی میدان میں آنا چاہیے۔ ہمارے ملک میں موروثی سیاست کا دور دورہ رہا ہے۔
مولانا فضل الرحمن مفتی محمود کے بیٹے ہیں ۔ اسفندیارولی عبدالولی کے بیٹے اور عبدالغفار سرحدی گاندھی کے پوتے ہیں۔ اعجاز الحق صدر جنرل ضیاء الحق کے بیٹے ہیں ۔ میں نے ابھی بڑے لوگوں کا ذکر کیا ہے ۔ میرے خیال میں تمام ممبران اسمبلی کسی نہ کسی ممبر اسمبلی کے رشتہ دار ہیں اور ہم ممبران اسمبلی کو ہی سیاستدان سمجھتے ہیں ۔ وہ بھی اپنی حیثیت اس وقت تک مکمل نہیں سمجھتے جب تک ممبر اسمبلی نہ بن جائیں ۔ ہمارے ضلع میانوالی کے ڈاکٹر شیر افگن کے بعد ان کا بیٹا امجد خان بھی ممبر اسمبلی ہے۔ عمران خان نے ٹکٹ اپنے کزن انعام اللہ خان کی بجائے امجد خان کو دیدیا اور وہ جیت بھی گیا ۔ روکھڑی خاندان بھی میانوالی میں سیاست و حکومت کے مزے اڑاتے رہے۔ یہ اس چیز کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں ۔ میں نے جب سے پڑھنا لکھنا شروع کیا ہے تو یہی لوگ اسمبلیوں میں ہوتے ہیں ۔ ہر ضلع کا حال یہی ہے۔ پاکستان کے لوگ بدحال ہیں اوربے حال بھی ہیں ۔ایک گھرانے یا خاندان والے ہی اسمبلیوں میں اور حکومت میں ہوتے ہیں ۔ میں شرط لگا کے کہہ سکتا ہوں کہ ہماری اسمبلیوں میں اکثر ممبر ایسے ہونگے جنہوں نے پوری ایک کتاب نہیں پڑھی ہوگی۔ کالم نگار اور شاعرہ سعدیہ قریشی نے کہا کہ افسروں کے دفتر میں بیٹھے ہوئے بھی اخبار نہیں پڑھتے۔
بختاورکے لئے آخری بات۔ بختاور نے یہ نعرہ لگایا’’اگلی باری پھر زرداری۔‘‘ اس نے کہا کہ زرداری صاحب نے بڑے کام کئے مگر ابھی بڑے کام پڑے ہیں۔ چینی سفیر نے سی پیک کے حوالے سے کہا کہ زرداری صاحب کا کردار بنیادی اور نمایاں ہے جس کے لئے پاکستانی قوم ایک بہت بڑی معرکہ آرائی کر رہی ہے مگر اپنے ہم وطنوں نے زرداری صاحب کو اس کریڈٹ سے محروم کرنے کی سازش کی ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ کے لئے بھی انہوں نے بہت کچھ کیا۔
اب بیٹیاں اور بیویاں انتخابی مہم میں باقاعدہ حصہ لے رہی ہیں۔ سب کا ذکر بھی کروں گا مگر برادرم عبدالعلیم خان کی انتخابی مہم میں ان کی اہلیہ‘ بھابھی کرن علیم خان بھی اپنے شوہر کے ساتھ ساتھ انتخابی مہم میں حصہ لے رہی ہیں۔
٭٭٭٭٭
حنیف عباسی کی گرفتاری اور اڈیالہ جیل میں منتقلی کا سن کر حیران رہ گیا۔ عباسی صاحب سے ملاقات ہے۔ اس حلقے میں شیخ رشید بھی ہیں۔ وہ میرے ساتھ گارڈن کالج میں تھے۔ تب بھی بہادر آدمی تھے انہیں وزیر بنایا گیا تو وہ اس کے مستحق تھے۔ ان کے لئے مجید نظامی نے نواز شریف سے کہا تھا ۔وہ عباسی صاحب کے خلاف الیکشن لڑ رہے ہیں۔ اب آسانی اُن کے لئے ہو گی۔ یوں بھی وہ مشکل اور آسان میں خاص فرق نہیں کرتے۔ مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہوئے سیاست اور حکومت میں ان کا کردار دلیرانہ رہا ہے۔ وہ تقریر بڑی مہارت ا ور جرأت کے ساتھ کرتے ہیں۔ انہوں نے عباسی صاحب کے لئے کوئی منفی بات نہ کی۔ یہ بات تو کوئی بھی آدمی کر سکتا ہے۔ شیخ صاحب نے کہا کہ حنیف عباسی کے کرتوت ہی ایسے تھے۔ یہ تو ہونا تھا اور ہونی ہو کے رہتی ہے۔
اس واقعے کے بعد ہماری عدالتوں کے لئے محبت اور اعتماد زیادہ ہو گیا ہے۔ اب امیر اور غریب میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ ورنہ پہلے کچھ لوگ قانون سے ماروا سمجھے جاتے تھے۔ مجھے امید ہے کہ ہماری عدالتیں آئندہ بھی ایسے ہی فیصلے کریں گے۔ ہمیں پاکستانی ہونے پر فخر ہو گا۔
٭٭٭٭٭
انمول گوہر ملتان سے ہیں مگر آجکل لاہور میں قیام ہے۔ پچھلے دنوں ملتان والوں کی طرف سے اس کو ایوارڈ کا مستحق سمجھا گیا۔ تقریب ’’پیلاک‘‘ لاہور میں ہوئی۔ ’’سویر‘‘ آرگنائزیشن کی طرف سے دیا گیا۔اس تقریب میں بہت اچھی باتیں انمول گوہر کے لئے کی گئیں۔ شاعری کے لئے گولڈ میڈل اور فاطمہ جناح ایوارڈ رپورٹرز کو دیا گیا۔ اب ناروے میں دریچہ نام کی ادبی تنظیم کے سرپرست ادریس لاہوری کے لئے 28 جولائی کی تقریب منعقد کی جا رہی ہے۔ انمول گوہر کے کچھ اشعار اپنے قارئین کے لئے لکھے جا رہے ہیں۔ میرے کالم میں سیاسی موضوعات کے علاوہ علمی اور ادبی دلچسپی بھی قائم رکھی جاتی ہے۔ جسے دوست بہت پسند کرتے ہیں۔
تیری دنیا میں عمر بھر تنہا
کس نے کاٹا ہے یوں سفر تنہا
تجھ سے اپنا موازنہ کر کے
خوب روئے ہیں بیٹھ کر تنہا
یہ تو اپنا تھاحوصلہ ورنہ
کون آتا تھا دار پر تنہا
دل میں یادوں کا ایک میلہ ہے
پھر بھی رہتے ہیں ہم مگر تنہا
اجنبیت ہے چارسُو کتنی
لوگ پھرتے ہیں دربدر تنہا
مجھ سے بچھڑا تو ہو گیا گوہر
وہ زمانے میں کس قدر تنہا