• news

سابق قومی امپائر اسد رئوف نے احمد شہزاد اور عمر اکمل کو ذہنی مریض قرار دیدیا

لاہور(حافظ محمد عمران)انٹر نیشنل کرکٹ کونسل کے ایلیٹ پینل میں شامل سابق پاکستانی امپائر اسد روف نے ٹیسٹ کرکٹرز احمد شہزاد اور عمر اکمل کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں ذہنی مریض قرار دیا ہے۔ نوائے وقت کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ احمد شہزاد اور عمر اکمل منفی کردار ہیں انکی موجودگی میں دیگر کرکٹرز بھی متاثر ہوتے ہیں۔ ان دونوں کو ہیڈ لائنز رہنے کا شوق ہے یہ وہاں شوق سے رہیں لیکن قومی ٹیم سے دور ہی رہیں تو بہتر ہے جو کھلاڑی اپنے روئیے کو بہتر نہ بنائے پرفارم بھی نہ کرے اسے قومی ٹیم میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔عمر اکمل نے گھر بیٹھے میچ فکسنگ کا ایشو بنا دیا ایسی حرکتوں کے بعد کون انہیں سنجیدہ لے گا۔ یہ دونوں کرکٹرز کھیل میں زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ لگ بھگ دس سال گزرنے کے باوجود ابھی تک یہ دونوں اپنی صلاحیتوں کے مطابق پرفارم کر سکے ہیں نہ ہی ٹیم میں مستقل جگہ بنا سکے ہیں۔ انہیں اصلاح کے کئی مواقع فراہم کیے گئے لیکن دونوں کے روئیے میں کوئی تبدیلی نہیں۔ یہ دونوں نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔ کھیل پر توجہ نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے اپنا نقصان کیا ہے۔ انکی توجہ کیرئیر کے بڑے حصے میں کھیل کے علاوہ دیگر سرگرمیوں پر رہی۔ میڈیا میں رہنے جنون ہے یہ نہیں سمجھتے کہ حقیقی طور پر مقبول وہی ہوتا ہے جو کھیل کے میدان میں کارکردگی دکھاتا ہے۔واضح رہے کہ احمد شہزاد ڈوپ ٹیسٹ مثبت آنے کی وجہ سے ٹیم سے باہر ہیں اس سے پہلے بھی غیر معیاری کارکردگی کیوجہ سے وہ ان آوٹ کا شکار تھے جبکہ عمر اکمل کو گزشتہ برس ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے مطلوبہ فٹنس معیار حاصل نہ کرنے پر قومی ٹیم سے علیحدہ کر دیا تھا اسکے بعد عمر اکمل اور مکی آرتھر کے مابین سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ عمر اکمل نے کوچ کے روئیے کیخلاف پریس کانفرنس بھی کی۔ اسد رؤف کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں محمد حفیظ کے لیے قومی ٹیم میں جگہ بنانا مشکل ہے۔نوجوان کرکٹرز کو مواقع دینا خوش آئند ہے، مستقبل نوجوانوں کا ہے۔چیمپئنز ٹرافی سے اب تک نوجوان پلئیرز نے اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا ہے۔قومی ٹیم اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہے کہ چیمپئنز ٹرافی کے بعد مشکل کرکٹ کھیلنے کو نہیں ملی۔زمبابوے کے خلاف کامیابی نتائج اور اعداد و شمار میں بہتری کے لیے اچھی ہے لیکن یہ آسان کرکٹ تھی۔زمبابوے جیسی کمزور ٹیم کے خلاف پلئیرز کی صلاحیتوں کے بارے اندازہ لگانا مشکل ہے۔ٹاپ ٹیموں اور مضبوط باؤلنگ کے خلاف رنز کرنے سے ہی بلے بازوں کی اہمیت میں اضافہ ہوتا ہے۔متحدہ عرب امارات میں کرکٹ کھیلنے سے ریکارڈز بنے لیکن کرکٹ کا معیار نیچے آیا ہے۔ ہمیں تعلیمی اداروں میں اپنی کرکٹ کو ازسرنو منظم کرنا ہو گا تعلیمی اداروں میں منظم اور معیاری کرکٹ سے کئی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن