• news

ادارے نہیں چل رہے تو ملک کیسے چل رہا سمجھ سے بالا ہے، ’’چنے والا‘‘ بھی پیش ہو: چیف جسٹس

لاہور(وقائع نگار خصوصی) چیف جسٹس آف پاکستان نے ریلوے میں خسارے کے بارے میں فرانزک آڈٹ کی رپورٹ پر ریلوے حکام کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ اگر ادارے نہیں چل رہے تو سمجھ سے بالا ہے کہ ملک کیسے چل رہا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے ریلوے میں خسارے کے بارے میں ازخود نوٹس پر سماعت کی۔ عدالتی حکم پر خسارے کے بارے میں فرانزک آڈٹ کی رپورٹ پیش کی گئی اور بتایا گیاکہ ریلوے کا خسارہ 40 بلین ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیاکہ چنے والا کدھر ہے اگلی تاریخ پر چنے والا بھی پیش ہو۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے آڈٹ آفیسر کو مخاطب کیا اور کہاکہ رپورٹ ٹھوک کر اور کسی خوف کے بغیر دینی تھی۔ چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کیا ریلوے میں سب اچھا ہے؟ جس پر آڈٹ آفیسر نے جواب دیا کہ رپورٹ اچھی نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ گزشتہ پانچ برسوں میں سب سے زیادہ خرابی پیدا ہوئی؟ آڈٹ آفیسر کے مطابق خرابی 70 برسوں سے چل رہی ہے لیکن گزشتہ 5 برسوں میں دور کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ ریلوے کے 500 میں صرف 50 سٹیشنز کمپیوٹرازڈ ہیں۔آڈٹ آفیسر نے بتایا کہ خسارے کی بنیادی وجہ غیر ذمہ داری کا مظاہرہ اور منصوبوں کی تکمیل میں تاخیر ہے۔ ڈبل ٹریک منصوبہ 4 برسوں سے تاخیر کا شکار ہے۔ آڈٹ آفیسر نے انکشاف کیا کہ ریلوے کا 70 فیصد ریونیو پینشن کی مد میں جا رہا ہے. چیف جسٹس پاکستان نے حکم دیا کہ فرنزاک رپورٹ کی تجاویز کو شائع کیا جائے۔اور سماعت آئندہ تاریخ تک ملتوی کر دی۔ سپریم کورٹ نے پبلک سیکٹر کمپنیوں میں مبینہ کرپشن کے الزامات پر تفصیلی تحقیقاتی رپورٹ پیش نہ کرنے پرسخت اظہار برہمی کرتے ہوئے عدالتی تشویش سے چیئرمین نیب کو آگاہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔عدالت نے کمپنیوں سے بھاری تنخواہیں وصول کرنے والے تمام افسران کو 28 جولائی کو طلب کر لیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں فل بنچ نے صاف پانی سمیت دیگر کمپنیوں میں مبینہ کرپشن کے الزامات پر ازخود نوٹس پر سماعت کی۔ فل بنچ نے نیب کے تفصیلی انکوائری رپورٹ پیش نہ کرنے اورسیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کے نیب سے عدم تعاون پر برہمی کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس پاکستان نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ اس معاملے میں نیب کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے قرار دیا کہ عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنے کی صورت میں وفاقی سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہوں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کمپنیوں کے سی ای اوز اور افسران کے اثاثوں کی تحقیقات کا کیا بنا؟ جس پر نیب کی طرف سے بتایا گیا کہ چھ سی ای اوز کے اثاثوں سے متعلق انکوائری مکمل کر لی ہے۔ انہوں نے جواز پیش کیا کہ پنجاب کی جانب سے 22 جولائی کو افسروں کی فہرست موصول ہوئی جس کیوجہ انکوائری میں تاخیر ہوئی۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے شکایت کی کہ وفاقی سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے عدم تعاون کی وجہ سے دیگر افسران کی انکوائری نہیں کی جاسکی۔ چیف جسٹس نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو فوری طور پر چیف سیکرٹری پنجاب اور سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو عدالتی فیصلے سے آگاہ کرنے کی ہدایت کر دی اور واضح کیا کہ عدالتی فیصلے پر عمل نہ کرنے کی صورت چیف سیکرٹری پنجاب اور سیکرڑی اسٹیبلشمنٹ ذاتی حیثیت میں پیش ہوں ۔چیف جسٹس پاکستان نے صاف پانی کے سی ای او کیپٹن عثمان کو باور کرایا کہ پیسے ہر صورت واپس کرنا پڑیں گے ادھر ادھر سے سفارشیں کرانا بند کریں۔ میرے لئے سفارش کوئی معنی نہیں رکھتی۔ چیف جسٹس نے کمپنیوں کے افسران کو کہا کہ بھاری تنخواہوں کے وصول کردہ پیسے اکھٹے کرنا شروع کر دیں قوم کا پیسہ ڈیم بنانے کے کام آئے گا۔سپریم کورٹ نے کمپنیوں اور مختلف منصوبوں کے لیے ڈیپوٹیشن پر جانے والے افسران کی تمام تر تفصیلات نیب کو فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس پاکستان نے لاہور کے 22 مقامات پر قبضے کے خلاف ازخود نوٹس لیتے ہوئے ڈی جی ایل ڈی اے سے رپورٹ طلب کر لی۔ فاضل عدالت نے لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت توہین عدالت کی درخواستوں کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا۔ عدالت نے ایل ڈی اے کی اراضی پر 22 قابضین مالکان کو بھی پیش ہونے کا حکم دے دیا۔ ڈی جی ایل ڈی کے مطابق قانون کے تحت ایل ڈی اے کی اراضی صوابدیدی اختیار کے تحت نہیں دی جاسکتی۔ لبرٹی، فیصل ٹائون سمیت شہر کے مختلف مقامات پر زمین نیلامی کے بغیر لی گئی۔ قبضہ واگزار کرانے کے لئے آپریشن کیا تو قابضین نے لاہور ہائیکورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کر دی۔ پوش علاقوں میں ایل ڈی اے کی اراضی 15 ہزار سالانہ پر لی گئی۔ درخواستگزار کے مطابق مختلف جگہوں پر بغیر نیلامی کے قبضہ کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے پوسٹ انسٹیٹیوٹ آف نیورو سائنسز میں وائس چانسلر کی تعیناتی کے معاملہ پر وائس چانسلر کی تقرری کے لئے سرچ کمیٹی تشکیل دے دی۔سرچ کمیٹی کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے وائس چانسلر کی سربراہی میں تشکیل دی گئی ہے۔ سرچ کمیٹی میں پروفیسر انجم حمید، پروفیسر اشرف شاہین اور پروفیسر اطہر جاوید شامل ہیں۔ عدالت نے سیکرٹری صحت پنجاب ثاقب ظفر کو عدالتی احکامات پر عملدرآمد کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس پاکستان نے ہدایت کی کہ بہترین نیوروسرجن کو اس ادارے میں وائس چانسلر کے طور پر تعنیات کیا جائے۔ سپریم کورٹ نے یونیورسٹی آف سائوتھ ایشیا کے طالبعلموں کو ٹرانسکرپٹ جاری نہ کرنے پر یونیورسٹی کے رجسٹرار کو طلب کر لیا۔ طلباء نے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ امتحانات پاس کر چکے ہیں اور واجبات بھی ادا کر دئیے ہیں۔ یونیورسٹی کی جانب سے ٹرانسکرپٹ جاری نہیں کئے جا رہے۔ ٹرانسکرپٹ جاری نہ ہونے کے باعث مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے۔ عدالت یونیورسٹی کو ٹرانسکرپٹ جاری کرنے کے احکامات جاری کرے۔جس پر فاضل عدالت نے یونیورسٹی کے رجسٹرار کو طلبی کے نوٹس جاری کر دیئے۔ سپریم کورٹ نے گورنر سٹیٹ بنک طارق باجوہ کے تقرر کے خلاف دائر درخواست پر وفاقی حکومت سے جواب طلب کر لیا۔ فاضل عدالت نے گورنر سٹیٹ بنک کی تقرری سے متعلقہ ریکارڈ پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3رکنی فل بنچ نے درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار سینیٹر تاج حیدر کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ طارق باجوہ کا تقرر بغیر اشتہار اور قواعد و ضوابط کے برعکس کیاگیا۔ انہوں نے کہاکہ طارق باجوہ گورنر سٹیٹ بینک کیلئے مقررہ میرٹ پر پورا نہیں اترتے۔ انہوں نے کہا کہ اس لئے ان کا تقرر میرٹ کی نفی ہے۔ انہوں نے آگاہ کیا کہ کسی بھی ایسے شخص کو اتنے اہم عہدے پر فائز نہیں کیا جا سکتا جس کے تقرر کے وقت قانونی تقاضے پورے نہ کئے گئے بلکہ تقرر بھی میرٹ کے برعکس کیا گیاہو۔ پیپلزپارٹی کے رہنما کے وکیل نے استدعا کی کہ گورنر سٹیٹ بنک کے منصب پر طارق باجوہ کے تقرر کو کالعدم قرار دیا جائے۔ جس پر عدالت نے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب اور تفصیلی ریکارڈ طلب کر لیا۔ سپریم کورٹ نے یوایچ ایس اور نشتر میڈیکل کالج ملتان میں وی سی کی تقرریاں کرکے رپورٹ دینے کا حکم دیتے ہوئے سماعت28 جولائی تک ملتوی کردی۔ گزشتہ رروز چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں فل بنچ نے یونیورسٹیز میں مستقل وی سیز کی تقرریاں نہ کرنے کیخلاف ازخود نوٹس کی سماعت کی۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ 4 میڈیکل یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر لگا دیئے گئے ہیں۔ جن یونیورسٹیوں میں وی سیز تعینات کئے گئے ہیں ان میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج یونیورسٹی لاہور، فیصل آباد میڈیکل کالج یونیورسٹی، فاطمہ جناح میڈیکل کالج یونیورسٹی اورراولپنڈی میڈیکل یونیورسٹی شامل ہیں۔ سرکاری وکیل نے بتایا کہ یوایچ ایس، نشتر میڈیکل کالج ملتان میں وی سی کی تعیناتی نہیں ہوئی۔ عدالت نے دونوں میڈیکل کالجز میں وی سی کی تقرریاں کرکے رپورٹ دینے کاحکم دیتے ہوئے سماعت 28 جولائی تک ملتوی کردی۔ چیف جسٹس پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے گزشتہ روز ساڑھے آٹھ گھنٹے تک مختلف مقدمات اور ازخود نوٹسز کی سماعت کی۔آج عام انتخابات کے روز ملک بھر کی عدالتوں میں بھی تعطیل ہے تاہم چیف جسٹس آف پاکستان سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ہنگامی نوعیت کی درخواستوں پر سماعت کریں گے۔

ای پیپر-دی نیشن