انتخابات کے بعد معیشت‘ خارجہ امور اور دفاع سے متعلق ممکنہ پالیسیاں کیا ہونگی؟
اسلام آباد (سہیل عبدالناصر) سیاسی جماعتوں کی طویل انتخابی مہم کے باوجود سردست یہ واضح نہیں کہ آج کے عام انتخابات کے بعد معیشت، خارجہ امور، دفاع اور داخلی سلامتی کے بارے میں ملک کی ممکنہ پالیسیاں کیا ہوں گی۔ عام تاثر یہ ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے دفاع و سلامتی کے معاملات کلی طور پر خود سنبھال رکھے ہیں جبکہ خارجہ پالیسی کی تشکیل میں بھی اس کا کلیدی کردار ہے، البتہ معاشی بندوبست سویلین حکومت کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے نئی تشکیل پانے والی جمہوری حکومت کو دگرگوں معیشت کے علاوہ دیگر اہم مسائل کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں تاہم حتمی بوجھ سویلین حکومت کے کندھوں پر ہی آتا ہے ۔ نئی حکومت کو فوری طور پر تیزی سے روبہ زوال معیشت کو سنبھالنے کا چیلنج درپیش ہو گا جس کیلئے حکمرانوں کو روپے کی قدر میں بہتری کیلئے سرعت سے اقدامات، حقیقت پسندانہ معاشی تجزیئے، مضبوط اعصاب، سیاسی عزم اور دیرپا اقدامات کرنے کی ضرورت ہو گی۔ پاک چین معاشی راہداری کے منسوبوں پر حکومت کی تبدیلی کے سب کام کی سست روی کا تاثر بھی دور کرنا ہو گا۔ خارجہ پالیسی کے شعبہ میں امریکہ کے ساتھ کشیدہ تعلقات، امریکہ اور طالبان کے مجوزہ براہ راست مذاکرات میںپاکستان کی اہمیت و کردار کو بحال رکھنا اور افغانستان کے ساتھ دو طرفہ مذکارات کیلئے چند روز پہلے طے پانے والے ادارہ جاتی میکنزم کو کامیاب بنانا فوری نوعیت کے چیلنج ہوں گے۔ چین کے ساتھ تعلقات ، بہت اچھے بہت اچھے ہیں۔ دیرینہ دوستوں، سعودی عرب اور ترکی کے ساتھ تعلقات میں حکمراں سیاسی جماعت کا عنصر اہم ہو گا۔ ترکی کے شریف خاندان کے ساتھ قریبی دوستانہ تعلقات ہیں تاہم دونوںملکوں کے تعلقات اب، معیشت، دفاع، دفاعی پیداوار اور سلامتی سمیت متعدد شعبوں تک پھیل چکے ہیں ۔ خطہ میں ایران کی پوزیشن اور ایران بھارت تعلقات کی بدولت ایران کے ساتھ تعلقات میں اسٹیبلشمنٹ کی رائے کو ہی اہمیت حاصل رہے گی۔ نئی حکومت آنے کے بعد بھی پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی کوئی امید نہیں بلکہ ترقی معکوس کا زیادہ امکان ہے کیونکہ آج کے عام انتخابات کے بعد جب نئی پارلیمنٹ اور حکومت تشکیل کے مراحل سے گزر رہی ہوں گی تو اس وقت، بھارت میں نریندرا مودی کی حکومت اپنے عرصہ اقتدار کے آخری برس میں داخل ہو کر آئندہ انتخابات کی تیاری میںمشغول ہو چکی ہو گی چنانچہ بی جے پی کی قیادت میں بھارت کا حکمراں اتحاد، انتخابات سے پہلے نہ صرف یہ کہ پاکستان کے ساتھ کبھی تعلقات کو معمول پر لانے کی کسی کوشش کا حصہ نہیں بنے بلکہ انتخابی کامیابی کیلئے پاکستان کے ساتھ تعلقات مزید خراب لئے جانے اور پاک بھارت تعلقات کو انتخابی مہم کا حسب معمول حصہ بنانے کی مزید کوششیں کی جائیں گی اور سرجیکل سٹرائیک جیسے مزید ڈراموں کی توقع کی جا سکتی ہے۔پاکستانی سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم میں بھارت کے ساتھ تعلقات اورمقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی جیسے عوامل کو مکمل طریقے سے نظرانداز کیا گیا ہے جس کی وجہ سے بھارت کے طرزعمل پر پاکستان کی رائے عامہ کے اثر انداز ہو سکنے کے اس موقع کو ضائع کر دیا گیا ہے۔