عمران کی 22سالہ جدوجہد
یہ بیتے چند برسوں کی بات ہے۔ کرکٹ تبصرہ نگار چودھری محمد صدیق کے صاحبزادے کے نکاح کی تقریب تھی۔ عمران خان اپنے دیرینہ دوست ذاکر خان کے ہمراہ وہاں پہنچے۔"سکپر" کے پہنچنے کی دیر تھی دولہا سمیت تمام مہمان انکے گرد جمع ہو گئے۔ عمران خان اپنے روایتی انداز میں ہاتھ باندھے کھڑے ہو گئے نکاح کی تقریب میں شامل مہمان عمران خان کو مسٹر پرائم منسٹر کہہ کر مخاطب کر رہے تھے۔ ہر کوئی یہ کہہ رہا تھا کہ آپ نے ملک کو ٹھیک کرنا ہے آپ نے ملک کو ٹھیک کرنا ہے۔ عمران مسکراتے جاتے اور کہتے کہ اللہ ٹھیک کرے گا۔ کروڑوں پاکستانیوں کی دعاوں اور ووٹوں کی بدولت آج وہ دن آن پہنچا ہے جب عمران خان ملک کے حکمران بننے جا رہے ہیں۔
عمران خان کھیل کے میدان سے پارلیمنٹ ہاوس اور پارلیمنٹ سے اقتدار کے ایوان اور پھر ملک کے سب سے بڑے وزیر یعنی وزیر اعظم کے منصب تک پہنچنے والے شعبہ کھیل سے تعلق رکھنے والے پہلے سیاستدان ہیں۔ قسمت کے دھنی، محنتی، جوش و جذبے سے بھرپور، سپورٹس مین سپرٹ رکھنے والے اور ہار نہ ماننے کا جذبہ عمران خان کو ساتھی کھلاڑیوں اور ہمعصر سیاستدانوں میں ممتاز بناتی ہے۔
پچیس مارچ انیس سو بانوے کو عمران خان نے کرکٹ ورلڈکپ جیتا تو پچیس جولائی دوہزار اٹھارہ کو انہوں نے ملک میں ہونیوالے عام انتخابات جیت کر سیاسی میدان میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ 1992 میں کرکٹ کا عالمی کپ جیتنے کے بعد وہ فلاحی کاموں میں مصروف ہو گئے پھر تحریک انصاف کی بنیاد رکھی سماجی و سیاسی شعبوں میں محنت کرتے کرتے وہ دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں اتنی نشستیں جیت چکے ہیں کہ مرکز میں حکومت بنانے کے ساتھ ساتھ صوبوں میں بھی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں۔ کرکٹ ورلڈکپ جیتنے کے بعد انہوں نے صحت اور تعلیم کے میدان میں عوامی فلاح کے منصوبوں پر کام کیا۔ شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کے ذریعے بھی عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی۔ سیاست کے میدان میں دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں تحریک انصاف پہلی مرتبہ ایک بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آئی۔ انہوں نے پہلے دھاندلی اور پھر حکمران طبقے کی کرپشن کو بنیاد بنا کر بھرپور احتجاجی سیاست کی اور اس احتجاجی سیاست کے نتیجے میں تین مرتبہ کے وزیراعظم میاں نواز شریف، انکی صاحبزادی اور داماد کو جیل جانا پڑا اس حوالے سے مزید کیس ابھی زیر سماعت ہیں۔ احتجاجی سیاست کرنے پر انہیں تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ وہ ڈٹے رہے، اڑے رہے، موقف پر قائم رہے، لڑتے رہے اپنا موقف عوام اور میڈیا کے ساتھ تسلسل اور شدت کے ساتھ پیش کرتے رہے اس دوران انکے پرانے دوستوں جو کہ انکے سیاسی حریف ہیں ان سے تعلقات کشیدہ بھی ہوئے لیکن عمران خان اپنے موقف پر قائم رہے ملک سے کرپشن کے خاتمے کے بیانیے کو انہوں نے اس شدت کے ساتھ پیش کیا کہ آج ایک بڑا طبقہ عمران کے خیالات کا حامی ہے۔ آج وہ تبدیلی کا نشان سمجھے جاتے ہیں۔آج عمران خان ہر عمر کے شہریوں میں یکساں مقبول ہیں۔ انہیں نجات دہندہ سمجھا جاتا ہے۔ عوام کو ان سے بہت امیدیں ہیں بالخصوص نوجوان طبقے کو ملک کے ممکنہ وزیراعظم سے بہت امیدیں ہیں۔
عام انتخابات میں کامیابی کے بعد عمران خان کو پاکستان کے تمام کرکٹرز نے دل کھول کر مبارکباد دی ہے انہیں خوش آمدید کہا ہے۔ بیرونی دنیا سے بھی عمران خان کو مبارکبادیں مل رہی ہیں۔ ان کے سامنے بڑی مشکلات ہیں انہیں بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ اندرونی طور پر غربت، مہنگائی، بیروزگاری، توانائی کے مسائل، قومی اداروں کی ساکھ، کرپشن کا خاتمہ، میرٹ کی بالا دستی کو یقینی بنانے کا مشکل ہدف انکے سامنے ہے۔ گرتی ہوئی معیشت، ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت، سی پیک، خطے کی صورتحال، بیرونی دشمنوں کا مقابلہ، بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو کیسے بہتر بنانا ہے وہ ان تمام بڑے اور مشکل اہداف کو حاصل کرتے ہیں یا نہیں اسکا فیصلہ تو وقت کرے گا تاہم اپنی پہلی تقریر سے انہوں نے اپنے واضح عزم کا اظہار کر دیا ہے۔
عمران خان اللہ آپکو طاقت و قوت دے، آپکو ہمت دے، آپکو شعور دے، آپکو وعدے نبھانے کی توفیق دے، حقیقی معنوں میں ملک کی خدمت کی صلاحیت دے اور آپکو سیدھے راستے پر چلائے۔ آمین
پاکستان زندہ باد