پاکستان کو کمزور کرنے کیلئے پانی کی کمی عالمی سازش‘ دور نہ کرنے والوں نے مجرمانہ غفلت کی : چیف جسٹس
لاہور (وقائع نگار خصوصی) چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے ملک میں پانی کی قلت ایک بین لاقوامی سازش ہے جبکہ پانی کی قلت کا تدارک نہ کرنے والے ارباب اختیار مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوئے۔ کوشش کے باوجود اپنا گھر ٹھیک نہیں کر سکا ہم عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق قوانین میں ترمیم نہیں کر سکے ۔ میں خودکو آج بھی قانون کا طالبعلم سمجھتا ہوں۔کسی جج کو اپنی غلطی کا احساس ہو جائے تو وہ اگلے دن اس کا مداوا کرے۔ بدقسمتی سے آج بھی عدالتی نظام میں برسوں پرانے طریقے رائج ہیں۔پٹواری کی محتاجی برقرار ہے۔ ڈیم بنانا ہمارے لئے ناگزیر ہے۔ پاکستان کے بغیر ہم کچھ نہیں۔یہ ہمیں کسی نے تحفہ نہیں دیا ۔ ہمیں اپنی آنیوالی نسلوں کےلئے قربانیاں دینا ہوگی ۔ ہمیں ڈیم بنانے کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالنا ہو گا۔ ضابطہ دیوانی رولز میں ترامیم کے حوالے سے جوڈیشل اکیڈمی میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا عدالتی نظام میں بہت سی اصلاحات کرنا ضروری ہیں ۔ بعض اوقات قوانین میں تبدیلی کے باوجود بہت سے نتائج حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی ایک پٹواری کی محتاجی برقرار ہے۔ عدالتی نظام میں تبدیلی بتدریج آتی ہے۔ ججز کو بھی فوری انصاف فراہم کرنا ہوگا۔ جب تک قانون پر عمل داری کا جذبہ نہیں ہوگا بہتری نہیں لائی جا سکے گی۔ ہم عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق قوانین میں ترمیم نہیں کر سکے۔ مزید براں سپریم کورٹ میں پنجاب کی چھپن سرکاری کمپنیوں میں مبینہ کرپشن پر ازخود کیس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کمپنیوں اور اتھارٹیز میں ڈیپوٹیشن پر جانے اور تین لاکھ سے زائد تنخواہ لینے والے افسران کی تفصیلات پیش کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے تمام کمپنیز کے سی ای اوز کو آج طلب کرلیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے تمام افسران سے اضافی پیسے واپس لیکر ڈیمز کے فنڈ میں جمع کرائیں گے۔ چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت چیف سیکرٹری پنجاب نے بتایا کمپنیوں اوراتھارٹیز میں جانے والے 346 افسران کی فہرست نیب کو فراہم کر دی ہے۔انہوں نے کہا نیب نے عدالتی احکامات کے برعکس اضافی معلومات بھی مانگی ہیں۔جس پر چیف جسٹس نے ڈی جی نیب سے استفسار کیا پرفارما اتنا پیچیدہ کیوں رکھا گیا ہے۔سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے وفاق اور پنجاب سے کمپنیوں میں جانے والے افسران کی فہرست عدالت میں پیش کی گئی جس پر عدالت نے استفسار کیا دیگر تین صوبوں کی تفصیلات کیوں فراہم نہیں کی گئیں۔عدالت نے دیگر تین صوبوں کے افسران کی تفصیلات بھی پیش کرنے کا حکم دے دیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹوز سپریم کورٹ پیش ہوں اگر کوئی اپنا موقف دینا چاہتا ہے تو آج تک دے دیں۔ہم افسران کو دیئے جانے والے سارے پیسے واپس لیں گے اور ڈیم فنڈ کے لیے جمع کرائیں گے۔یہ عوام کے پیسے ہیں بندر بانٹ کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ چیف جسٹس نے کہا ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے دوائیاں نہیں ہیں افسران عیاشیاں کر رہے ہیں۔ عدالتی حکم پر قائم کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کی وائس چانسلر کی تقرری کو میرٹ کے برعکس قرار دیتے ہوئے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی۔فاضل عدالت نے لاہور کالج فار وویمن یونیورسٹی کی وائس چانسلر عظمیٰ قریشی کو اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لئے طلب کر لیا۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ عدالتی حکم پر قائم کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب کی جانب سے سیل بند رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی گئی۔ چیف جسٹس پاکستان نے بلند آواز میں رپورٹ پڑھی اور کہا رپورٹ میں تو واضح لکھا ہے ڈاکٹر عظمیٰ کی تقرری میرٹ کے برعکس ہوئی۔چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق 15 بین الاقوامی پبلیکیشن میں سے عظمیٰ قریشی کی صرف سات تھیں۔ چیف جسٹس نے عظمی قریشی کو اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لئے آج عدالت میں طلب کر لیا۔ میڈیکل یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کی تعیناتیاں مکمل ہونے کی بناءپر عدالت نے ازخود کیس نمٹا دیا۔سیکرٹری صحت پنجاب نے عدالت کو آگاہ کیا کہ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں ڈاکٹر جاوید اکرم جبکہ نشتر میڈیکل یونیورسٹی میں ڈاکٹرمصطفی کمال کو وائس چانسلر تعینات کر دیا گیا ہے۔انہوں نے بتایا پنجاب کی تمام میڈیکل یونیورسٹیز میں سرچ کمیٹیوں کے ذریعے وائس چانسلرز کی تقرریوں کا عمل مکمل کر لیا گیا ہے۔جس پرچیف جسٹس نے سیکرٹری صحت کے بیان کی روشنی میں ازخود نوٹس نمٹا دیا۔فاضل عدالت نے ساہیوال یونیورسٹی میں سرچ کمیٹی کی جانب سے فائنل کئے گئے ناموں میں سے میرٹ پر پہلے نمبر والے امیدوار کو وائس چانسلر تعینات کرنے کی ہدایت کر دی۔ چیف جسٹس نے کہا تعینات نہ ہونے والے امیدواروں کی عدم تعیناتی کی وجوہات بھی بیان کی جائیں۔ اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں، بطور ادارہ غلطیوں کو تسلیم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان کو کمزور کرنے کیلئے جب کچھ نہ بن پایا تو پانی کی سازش کی گئی، یہ غیرملکی سازش ہے۔ چیف جسٹس نے عامر چشتی ہسپتال کے شیخوپورہ اور فیصل آباد میں واقع علاج گاہوں کو سیل کرنے کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا آئی جی پنجاب اور ہیلتھ کئیر کمشن پنجاب بھر میں ایسے مراکز کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کریں جہاں نشے کے عادی افراد پر علاج گاہوں میں علاج کے نام پر تشدد کیا جاتا ہے۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شان گل نے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرا دی جس میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ مذکورہ ہسپتال میں نشے کے عادی افراد پر علاج کے نام پر تشدد کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب اور ہیلتھ کیئر کمشن کو پنجاب بھر میں ایسے مراکز کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کا حکم دے دیا ۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی فل بنچ نے علاج گاہوں میں نشے کی لت میں مبتلا افراد پر تشدد کے خلاف کیس کی سماعت کی۔ عدالتی حکم پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل شان گل نے عامر چشتی ہسپتال سے بازیاب کرائے گئے افراد سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی۔ فاضل عدالت کو بتایا گیا کہ علاج گاہ سے 215 افراد کو بازیاب کرایا گیا۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے انکشاف کیا چشتی ہسپتال میں علاج کے لیے لائے گئے افراد پر بیلچوں کے ذریعے تشدد کیا جاتا تھا اور تشدد کے دوران کہا جاتا تھا یہ چشتی جھٹکے ہیں۔ ایڈیشنل ایڈدوکیٹ جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا ہسپتال کے مالک کے خلاف مقدمہ درج کر کے گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ شریک ملزم کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ بنچ کے رکن جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے یہ علاج گاہیں نہیں بلکہ نجی حراستی مراکز ہیں جس پر چیف جسٹس نے قرار دیا ضرورت پڑی تو اس کیس کی سماعت کے لیے اسلام آباد سے فوری لاہور پہنچیں گے۔ مزید براں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا انہوں نے کہا آج کا دن انتہائی اہم دن ہے۔ میں نے مختلف شعبہ جات کو بہتر کرنے کےلئے ازخود نوٹس لئے ہیں۔ جوڈیشل سسٹم کا ہسپتال اور پانی سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ جوڈیشل سسٹم ایک الگ تھلگ ہے۔ عدالتی نظام میں بہت سی اصلاحات موجود ہیں۔ عدالتی نظام میں تبدیلی بتدریج آتی ہے۔ میرا 38 سال کا جج ہونے کا تجربہ ہے۔ یہ ہماری نوکری نہیں عبادت کا حصہ ہے۔ کسی بھی نظام میں تبدیلی لانے کےلئے کشٹ کاٹنا پڑتا ہے جس کو انصاف نہیں ملا میرے پاس بلاجھجک آسکتا ہے۔کسی جج کو اپنی غلطی کا احساس ہو جائے تو وہ اگلے دن اس کا مداوا کرے۔ ڈیم کو بنانا ہمارے لئے ناگزیر ہے، ہمیں ایک جگہ جم کر نہیں کھڑے رہنا آگے بڑھنا ہے، پانی کا مسئلہ حل نہ کرنا مجرمانہ غفلت ہے۔ آنے والے دنوں میں پانی کی انتہائی شدید قلت پیدا ہونے والی ہے۔ ہمیں بطور ادارہ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا چاہئے۔ پاکستان کے بغیر ہم کچھ نہیں ہیں ۔ یہ ہمیں کسی نے تحفہ نہیں دیا۔ ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کیا کر رہے ہیں ہم نے آنے والی نسلوں کےلئے کیا کیا ہے۔ لوگ اپنے پیٹ کےلئے پتھر باندھ لیتے ہیں ۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں اپنی آنیوالی نسلوں کےلئے قربانیاں دینا ہوگی۔ انہوں نے کہا ازخود نوٹس لینے پرتنقید کی جاتی ہے کہ میں اپنے گھر کی بہتری کے لئے کچھ نہیں کر سکا۔گھر ٹھیک نہیں کر سکا یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا۔ قوانین میں ٹکراﺅ سے متعلق ایک بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں میں پانی کے معاملے پر جذبے سے کام کر رہا ہوں پاکستان میں پانی کا معاملہ بین الاقومی سازش ہے ڈیم کی تعمیر کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ ڈالیںآپ کے بچوں کا آپ پرقرض ہے پانی کے معاملے پر غفلت کا مظاہرہ کرنے والوں نے فوجداری جرم کیا میرے بزرگوں نے ہمارے لئے یہ ملک دیا مگر ہم آنے والے بچوں کے لئے کیا دے کے جا رہے ہیں۔ ہم نے اپنی ماں کی کیا خدمت کی ہے، کرپشن اوربددیانتی کے علاوہ کیا کیا ۔تاریخ آپ اور میرے بارے میں کیا لکھے گی ہمیں آنے والے بچوں کے لئے قربانیاں دینی ہوں گی پاکستانی بن کر سوچیں یہ سارے مسلے حل ہوجائیں گے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس یاور علی نے کہا لاہور ہائیکورٹ عدالتی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے۔ قوانین کے نفاذ کے طریقہ کار میں تبدیلی وقت کا تقاضا تھا۔ نئے رولز میں تبدیلی سے فوری انصاف کی فراہمی کے راستے کی رکاوٹ ختم ہوئی۔ رولزمیں تبدیلی سے سائلین کے لئے آسانیاں پیدا ہو گی۔ تقریب سے جسٹس شاہد کریم نے خطاب کرتے ہوئے کہا نئے رولز میں ترامیم کے لئے بڑی محنت کی گئی۔ نئے رولز کے نفاذ سے عدالتی نظام میں مثبت تبدیلی آئے گی۔ لاہور ہائیکورٹ کی رولز کمیٹی کے ممبرمیاں ظفر اقبال کلانوری نے کہا آج تک ضابطہ دیوانی میں تبدیلی نہیں کی گئی۔ چیف جسٹس پاکستان کی ہدائت پر پہلی مرتبہ پرانے رولز کو موجودہ تقاضوں کے مطابق ڈھالا گیا۔ رولز میں تبدیلی کا مقصد انصاف کی فوری فراہمی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان از خود نوٹس لے کر شہریوں کوفوری انصاف فراہم کر رہے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں عدلیہ میں حقیقی اصلاحات کا آغاز کر دیا گیا۔ نئے رولز کے تحت ایشو فریم ہونے تک کسی بھی مقدمے کو دوسرے جج کے پاس ٹرانسفر نہیں کیا جاسکے گا۔ ایشو فریم ہونے کے بعد کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کی جائے گی۔ مقدمے کی باضابطہ سماعت کے موقع پر دونوں فریقین کو مصالحت کا ایک موقع دیا جائے گا۔ فوجداری نوعیت کے تصفیہ طلب مقدمات کو ترمیمی رولز میں شامل رکھا گیا ہے۔ تقریب میں اعلیٰ و ضلعی عدلیہ کے ججز اور وکلاءنے بھی شرکت کی۔چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں قائم تین رکنی بنچ نے پنجاب ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹری میں ادویات کی بروقت ٹیسٹنگ نہ ہونے پر لئے گئے ازخود نوٹس میں لیبارٹری کی کارکردگی رپورٹ ہر 3ماہ بعد جمع کرانے کا حکم دے دیا۔ دوران سماعت سرکاری وکیل نے بتایا ادویات کے سیمپل چیک کرنے کے لئے بیرون ملک سے مشینری منگوانا ہے۔ اس کے لئے مہلت دی جائے۔ فاضل عدالت نے ٹیسٹنگ مکمل نہ ہونے والی ادویات کو 6ہفتوں میں مکمل کرنے کی ہدایت کر دی۔ عدالت نے ہر نئی آنے والی میڈیسن کی 30یوم میں ٹیسٹنگ مکمل کرکے ہسپتالوں کو فراہم کرنے کا حکم دیا۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس نے کہا لوگوں سے کہا جاتا ہے پنشن عدالت سے لے لو لوگ مجھے بابا رحمتا کہتے ہیں جو سہولت پیدا کرتا ہے لوگوں کو سہولت فراہم کریں گے۔
چیف جسٹس