پنجاب میں حکومت سازی جمہوری روایات کی پاسداری کی جائے۔
پنجاب میں حکومت بنانے کیلئے مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف نے جوڑ توڑ شروع کر دیا ہے۔ دونوں جماعتوں کی جانب سے جیتنے والے آزاد اُمیدواروں سے رابطے کئے گئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے حمزہ شہباز شریف کی سربراہی میں کمیٹی جبکہ تحریک انصاف کی جانب سے جہانگیر ترین، علیم خاں اور چودھری سرور نے آزاد ارکان سے رابطے کئے ہیں۔ دونوں طرف سے حکومت بنانے کے دعوے کئے جا رہے ہیں۔
پنجاب اسمبلی میں 297 نشستوں پر براہ راست انتخاب ہوئے خواتین کیلئے 66 اور اقلیتوں کیلئے 8 نشستیں مخصوص ہیں۔ یوں ایوان کے ارکان کی مجموعی تعداد 371 ہو گی۔ البتہ اس وقت حکومت بنانے کیلئے کسی بھی جماعت کو 149 نشستیں درکار ہیں۔ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ نتائج کے مطابق مسلم لیگ کو 129 اور تحریک انصاف کو 123 نشستیں حاصل ہیں۔ آزاد ارکان کی تعداد 29، ق لیگ کے 7 اور پیپلز پارٹی کے 6 ارکان یعنی عددی اعتبار سے مسلم لیگ (ن) کو ایوان میں سنگل لارجسٹ پارٹی کی حیثیت حاصل ہے۔ 2013ءکے انتخابات میں خیبر پختون خوا اسمبلی میں تحریک انصاف کو تقریباً یہی حیثیت حاصل تھی جو اس وقت پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کو حاصل ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے اُس وقت کے مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف کو پیش کش کی کہ اگر اُنکی جماعت ساتھ دے، تو ہم کے پی کے میں بڑی آسانی سے حکومت بنا سکتے ہیں لیکن میاں صاحب نے اس بناءپر انکار کر دیا کہ جمہوری روح کے مطابق حکومت سازی سنگل لارجسٹ پارٹی کا حق ہے۔ میاں صاحب کے اس فیصلے پر ہر جانب سے اُنکی جمہوریت پسندی کی تحسین ہوئی۔ تازہ انتخابات میں توقع تھی کہ گزشتہ انتخابات والی روائت کو آگے بڑھایا جائیگا لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ اگر اب تک متعدد انتخابات ہونے کے باوجود پاکستان میں جمہوری روایات جڑ نہیں پکڑ سکیں تو اسکی بڑی وجہ آزاد ارکان ہیں۔ ترقی یافتہ جمہوریتوں میں آزاد ارکان کی کوئی گنجائش نہیں۔ بہتر ہوگا کہ پی ٹی آئی مسلم لیگ (ن) کے بارے میں بھی اُسی جذبے کا مظاہرہ کرے، جس کا اُس کے ساتھ کیا گیا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کا مینڈیٹ تسلیم کر کے اسے حکومت بنانے کا موقع دے۔ آزاد ارکان کو ساتھ ملانے کےلئے پی ٹی آئی کو بہت کچھ دینا پڑےگا بلکہ اصولوں تک کی قربانی دینا پڑ سکتی ہے، انکے ہاتھوں بلیک میل ہو گی۔ یوں سیاسی کلچر میں اسکے تبدیلی کے دعوے محض دعوے ہی ثابت ہونگے۔ اگر دونوں بڑی جماعتیں بلند نظری کا ثبوت دیں اور آزاد ارکان کی بلیک میلنگ میں نہ آئیں تو مفاہمتوں کی سیاست سے ہمیشہ کیلئے نجات مل سکتی ہے۔ اگر ایسا ہو جائے، تو ملک میں مثالی جمہوریت قائم، لوٹا کریسی کا ہمیشہ کیلئے خاتمہ ہو سکتا ہے۔