ڈیم بنانا عدالت کا کام نہیں : جسٹس عمر عطا‘ حکومت چاہے تو فنڈ کو ٹیک اوور کر لے : چیف جسٹس
اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت)سپریم کورٹ آف پاکستان نے ڈیمزکی تعمیر سے متعلق کیس نئی حکومت کے آنے تک موخر کر دیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے یہ یقینی بنانا ہے ڈیمز بنیں گے، ڈیمز کے پیسے کو غلط استعمال نہیں ہونے دینگے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمرعطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے دیامر بھاشا اورمہمند ڈیم کی تعمیر سے متعلق کیس کی سماعت کی۔دوران سماعت چیف جسٹس نے اعتزاز احسن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کیاعدالت کا ڈیمز کیلئے فنڈز بنانے کا فیصلہ درست ہے ۔اعتزاز احسن نے جواب دیا ڈیمز کیلئے فنڈز جمع کرنے کا فیصلہ درست اور اچھا ہے متنازعہ نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے جو ڈیمز متنازعہ نہیں ابھی اسی پر فوکس ہے کالا باغ پر جب کبھی اتفاق ہو گا وہ بھی بن جائے گا۔چیف جسٹس نے کہالوگ چاہتے ہیں ڈیمز فنڈ کی نگرانی عدالت کرے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ڈیمز کا ڈیزائن کیا ہوگا ٹھیکہ کس کو دینا ہے یہ ہمارا کام نہےں۔ چیف جسٹس نے کہا ریاست کے کام میں مداخلت نہیں کریں گے، الیکشن کی وجہ سے فنڈز میں پیسے نہیں آسکے، حکومت فنڈز اکٹھے کر سکتی ہے تو کرے،حکومت چاہے تو قائم فنڈز کو ٹیک اور کر لے۔چیف جسٹس نے کہا عدالت کے ججز کا کام نہیں فنڈز اکٹھے کریں، لوگ ڈیمز کی تعمیر کے لیے فنڈز دینا چاہتے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ڈیمز بنانا عدالت کا کام نہیں، عدالت حکومت کی مدد کر رہی ہے ۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا زلزلہ متاثرین کے فنڈز دوسرے منصوبوں میں استعمال ہو ئے ہےں۔ دوارن سماعت چیف جسٹس نے بجلی کے بلوں پر ہوشربا ٹیکسز پر نوٹس لینے کا عندیہ دے دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس د یے بجلی کے بل میں ہوشربا ٹیکسز ہوتے ہیں،ایک چھوٹے سے گھر میں رہنے والے شخص کا بجلی کا بل 23 ہزار آیا ہے جس میں 8 ہزار ٹیکسز لگائے گئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہابجلی کے بلو پر ہوشربا ٹیکسز پر بھی نوٹس لیں گے، لوگوں کے پاس کھانے کے پیسے نہیں ٹیکسز کی کولیکشن کا میکانزم بنانا پڑے گا۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا عدالت نئی حکومت کو ڈیمز کامعاملہ دیکھنے دے، فاضل عدالت چاہے تو معاملے کی نگرانی اپنے پاس رکھ لے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے جلدی میں کسی کام میں خرابی پیدا نہیں کرنا چاہتے نئی حکومت کے آنے تک مقدمے کو موخر کرتے ہیں،یہ یقینی بنانا ہے ڈیمز بنیں گے، ڈیمز کے پیسے کو غلط استعمال نہیں ہونے دینگے۔ چیف جسٹس نے کیاجائز استعمال یا ضرورت کیلئے ڈیمز کیلئے پیسے جاری کیے جائینگے،ڈیمز فنڈ میں کرپشن یاکمیش نہیں بنانے دینگے،میری خواہش ہے ڈیمز بن جائیں تو افتتاح ایسا شخص کرے جس نے ساری زندگی ڈیمز کیلئے جدوجہد کی ہو۔ عدالت نے سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔سپریم کورٹ آف پاکستان میںایئر بلیو انتظامیہ نے متاثرین کی رقوم جمع کرا دیں ہیں، چیف جسٹس نے کہا رقم عدالت میں پڑی ہے جو آئے گا ادائیگی کرد ینگے۔سوموار کے روز چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمرعطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے ایئر بلیو ا اور بھوجا ایئر حادثہ متاثرین کو معاوضوں کی ادائیگی سے متعلق کیس کی سماعت کی اور عدالت نے کیس نمٹا دیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے آبادی کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے تجاویز طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ نہ کرے ملک کا حال یہ ہو جائے کھانے کے لیے روٹی نہ ہو‘ پانی اور آبادی کے معاملے کو سنجیدہ نہ لیا تو ملک کے لیے مشکل حالات پیدا ہوسکتے ہیں۔دوران سماعت وزیر اعظم کے سابق سیکرٹری فواد حسن فواد پیش ہوئے اور آبادی کو کنٹرول کرنے کے حوالے سے قائم کمیٹی کی رپورٹ پیش کی۔فواد حسن نے فواد نے آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے بنگلہ دیش ماڈل سے استفادہ حاصل کرنے کی تجویز دی اور کہا اس ضمن میں تعلیم اور آگاہی سے ہی مثبت نتائج بر آمد ہوں گے جبکہ چیف جسٹس نے ان سے کہا آپ اس وقت جن حالات سے دو چار ہیں اس میں آپ کے لئے کام کرنا ممکن نہیں رہے گا آپ اپنی تجاویز عدالت کو بھجوا دیں۔سوموار کے روز چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہاکہ آبادی بڑھنے سے وسائل اور رہنے کی جگہ کم ہو رہی ہے، آبادی میں تیزی سے اضافہ دراصل بم دھماکہ ہے ،آبادی کنٹرول کرنے کے لیے آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے، آبادی کنٹرول کرنے کے لیے قانون سازی بھی درکار ہو گی۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ نیشنل پالیسی پر ایک صوبے کو اعتراض ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ عدالت صوبوں کے درمیان تنازعہ حل کرا سکتی ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ آبادی میں کنٹرول کے لیے لوگوں کو سمجھانا ضروری ہے، یہ نہیں ہوگا پمفلٹ بنا کر تقسیم کر دیں ایشو پر لوگوں کو راضی کرنے کے ساتھ ساتھ کوئی فائدہ بھی دینا ہوگا۔
چیف جسٹس