جنرل (ر) راحیل ‘ شجاع پاشا نے بیرون ملک ملازمت کیسے کر لی‘ جائزہ لیں گے : چیف جسٹس
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت +نوائے وقت نیوز+ بی بی سی) سپریم کورٹ نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف، سابق ڈی جی آئی ایس آئی شجاع پاشا کو بیرون ملک ملازمت کی اجازت دینے اور پاک فوج کے تمام کمشنڈ افسران اور ان کی بیویوں کی شہریت کی تفصیلات طلب کرلیں۔ سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے ججز اور سرکاری افسران کی دوہری شہریت سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی۔ اس موقع پر سیکرٹری دفاع عدالت میں پیش ہوئے۔ سپریم کورٹ نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف، سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا کو بیرون ملک ملازمت کی اجازت دینے کی تفصیلات طلب کر لیں۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ جنرل شجاع پاشا ریٹائرمنٹ کے چند دن بعد ہی بیرون ملک ملازمت کے لئے چلے گئے تھے۔ اتنے بڑے اور اہم ادارے کے سربراہ یوں باہرچلے جاتے ہیں کیا قانون میں اس کی کوئی ممانعت نہیں؟ راحیل شریف بھی اسی طرح ریٹائرمنٹ کے فوراًبعد بیرون ملک ملازمت کے لئے چلے گئے جبکہ قانون کے مطابق ریٹائرمنٹ کے بعد 2 سال تک کوئی سرکاری افسر ملازمت نہیں کر سکتا۔ دونوں نے بیرون ملک ملازمت کیسے کر لی، جائزہ لیں گے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ قانون کے مطابق وفاقی حکومت سول سرونٹ ملازمین کو بیرون ملک ملازمت کی خصوصی اجازت دے سکتی ہے۔ ملازمت ختم ہونے کے دو سال بعد کوئی بھی سرکاری ملازم بیرون ملک جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس قانون کے ہونے کے باوجود سرکاری ملازمین کو ملازمت کے فوری بعد باہر جانے کی اجازت ہو سکتی ہے؟ کیا ریٹائرمنٹ کے بعد کسی دوسری ملازمت پر 2 سال کی پابندی کے قانون کا اطلاق مسلح افواج پر نہیں ہوتا؟ میرا نہیں خیال کہ وفاقی کابینہ نے کوئی ایسی خصوصی اجازت دی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ایجنسیوں کے لوگوں کی بہت قدر کرتے ہیں، ان لوگوں کو تو کئی کئی سال تحفظ ملنا چاہئے، ان کے پاس بڑی حساس معلومات ہوتی ہیں۔ سیکرٹری دفاع نے جواب جمع کرایا کہ فوج میں کوئی اہلکار یا افسر دوہری شہریت کا حامل نہیں اور دوہری شہریت رکھنے کی اجازت بھی نہیں۔ بھرتی کے اشتہار میں واضح لکھا جاتا ہے کہ دوہری شہریت کے حامل افراد اہل نہیں۔ بھرتی کے لئے غیر ملکی شہریت چھوڑنی پڑتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ممکن ہے کسی افسر یا اہلکار نے غلط بیانی کی ہو، تمام اہلکاروں اور افسران کی شہریت کی تصدیق کروائیں گے۔ عدالت نے افسران کی شہریت کی جانچ پڑتال کا حکم دیتے ہوئے 27 غیر ملکی سول افسران کو نوٹس جاری کردیئے اور ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔ کیس کی سماعت 7 اگست تک ملتوی کر دی گئی۔ بی بی سی کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت عظمیٰ سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کو بیرون ملک ملازمت کے لیے جاری کیے گئے این او سی کا جائزہ لے گی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ مدت ملازمت پوری ہونے کے فوری بعد بیرون ملک کسی دوسری نوکری کے لیے این او سی کیسے جاری کیا جا سکتا ہے۔ جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف نے بطور آرمی چیف مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد سعودی عرب میں مسلم اتحادی افواج کی سربراہی سنبھال لی ہے اور انہیں سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے اس ضمن میں این او سی جاری کیا تھا۔ نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق عدالت نے فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کی سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ شجاع پاشا کے بیرون ملک ملازمت پر بھی حیرانگی کا اظہار کیا اور کہا کہ شجاع پاشا اتنے حساس ادارے میں کام کرنے کے بعد دبئی میں کسی دوسرے ادارے میں کیسے کام کر رہے ہیں۔ بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اہم عہدوں پر فائز افراد کو تو بیرون ملک جانا ہی نہیں چاہیے بلکہ ایسے افراد کی سکیورٹی کو مزید بڑھا دینا چاہئے۔ بینچ کے سربراہ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا قانون میں گنجائش موجود ہے کہ اگر کسی سرکاری ملازم کو ریٹائر ہوئے دو سال کی مدت مکمل نہ ہوئی ہو تو اسے بیرون ملک نوکری کے لیے این او سی جاری کر دیا جائے۔ اٹارنی جنرل نے بینچ کو بتایا کہ قانون میں یہ گنجائش موجود ہے کہ وفاقی حکومت کسی بھی شخص کو این او سی جاری کرسکتی ہے جس پر بینچ کے سربراہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت اس معاملے کو دیکھے گی کہ وفاقی حکومت سے مراد صرف وزیر اعظم نہیں بلکہ پوری وفاقی کابینہ ہے۔ کیس کی مزید سماعت 7 اگست تک ملتوی کر دی گئی۔
سپریم کورٹ‘ جواب طلب
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ آف پاکستان نے پانی کے استعمال کے طریقہ کار کے لئے تجاویز طلب کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ عدالت تجاویز بنا کر لا اینڈ جسٹس کمشن کی سفارشات کی شکل میں حکومت کو بھیج دے گی اس بارے قانون بنانا حکومت کا کام ہے۔کٹاس راج مندر میں پانی کا تالاب خشک ہونے کے بارے ازخود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے پانی کی قلت کے بارے معاملہ سیمنٹ فیکٹریوں سے الگ کر دیا جبکہ کمشنر واٹر کمیشن کو نوٹس جاری کرتے ہوئے مخدوم علی خان اور سلمان بٹ کو معاون مقرر کر دیا اورانہیں پانی کے استعمال کا طریقہ کار واضع کرنے کے لئے تجاویز پیش کرنے کی ہدایت کی۔ چیف جسٹس نے کہا ہم نے ڈیمز بنانے ہیں، ڈیمز ہماری ہدایت پر بن رہے ہیں لیکن بنانے کی ذمہ داری حکومت کی ہے ہم فنڈز کا غلط استعمال نہیں ہونے دیں گے، ایک ایک پیسہ کی نگرانی کریں گے اور فنڈز کے استعمال کا ضابطہ کار جاری کریں گے۔ عدالت نے ڈی جی خان اور بیسٹ وے سیمنٹ فیکٹری کو پانی ذخیرہ کرنے کے لئے تالاب بنانے کی اجازت دینے سے متعلق درخواست پر کارروائی نہ کرنے پر پنجاب انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی سے جواب طلب کرتے ہوئے سماعت دس دن کے لئے ملتوی کردی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ پانی سے متعلق حکومت نے قانون بنانا ہے یا نہیں لیکن ہم نے تجاویز بنا کر حکومت کو دینی ہیں، دستیاب پانی کو زیر استعمال نہ لانے کے ہم خود ذمہ دار ہیں، دریائے جہلم کے پانی کے استعمال کے لئے اقدامات نہ کرنے کی زیادتی ہم نے خود کی ہے،کوئی نہ کوئی تو اس کا ذمہ دار ہوگا، ذمہ داروں کا احتساب ہونا چاہئے، لوگوں نے تو اپنے مجرموں کو قبروں سے نکال کر ان کا ٹرائل کیا،کون ہیں وہ لوگ جنہوں نے ڈیمز نہیں بننے دیئے،ماضی میں جاکر دیکھنا پڑے گا ڈیمز کے بننے میں رکاوٹ کون لوگ بنے زیر زمین پانی بھی سرکار کا ہوتا ہے ہم بے دریغ پانی کا ضائع کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پانی قوم کے لیے بے انتہا قیمتی ہے، اربوں روپیے کا پانی ہم نے ضائع کر دیا، بھارت کا موقف ہے ہمیں پانی کی ضرورت نہیں،بھارت کے موقف کی وجہ ہمارے پانی کا ضیاع ہے، چکوال اور لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح نیچے گر گئی، کوئٹہ میں زیر زمین پانی خطرناک حد تک نیچے چلا گیا، چکوال میں سمینٹ فیکٹریوں نے اربوں روپیہ کا زیر زمین پانی مفت استعمال کیا، کراچی میں بھی پانی کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔چیف جسٹس نے کہا توانائی تو متبادل ذرائع سے حاصل ہوجائے گی لیکن سمجھ نہیں آتی کل ہمیں پینے کے لئے پانی کہاں سے ملے گا پانی ایک رحمت ہے اس کی قدر کرنے کی ضرورت ہے۔ اس دوران سیمنٹ فیکٹریوں کے وکیل مخدوم علی خان نے کہاکہ عالمی ثالثی ٹربیونل نے دریائے جہلم سے متعلق پاکستان کے موقف سے اتفاق نہیں کیا ہے لیکن بھارت دریائے جہلم کے استعمال کا پانی روک نہیں سکتا۔انھوں نے کہا کہ بگلہار اور کشن گنگا ڈیم کا معاملہ عالمی ثالثی ٹربیونل میں لے جانے میں تاخیر ہوئی ،بگلیہار ڈیم کا معاملہ اس وقت لے گئے جب ڈیم بن گیا تھا جس پر ٹربیونل قرار دیا کہ اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کو مسمار نہیں کیا جاسکتا،یہی معاملہ کشن گنگا میں ہوا۔ وکیل اکرام چوہدری نے کہا کہ جماعت علی شاہ بھاگ کر کینیڈا میں بیٹھ گیا ہے، تاخیر کے لئے وہ ذمہ دار ہے انھیں لایا جائے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس پر غور ہوسکتا ہے لیکن سردست پانی کے استعمال کے لئے طریقہ کار وضع کرناہے، سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ جس کی زمین زیر زمین پانی اس کا لیکن اس فیصلے پر نظرثانی ہوچکی ہے اب قانون یہ ہے کہ بیشک زمین انفرادی ملکیت میں ہو لیکن زیر زمین پانی ریاست کی ملکیت ہوگی، ہم نے پانی کی صنعتی، زرعی اور گھریلو استعمال کی راشننگ کرنی ہے۔ مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ پانی کے معاملے پر قومی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے، آسٹریلیا کی ریاست وکٹوریہ میں جب پانی کی قلت ہوئی تو نہانے کے لئے پانی کے استعمال کو بھی ریگولرائز کیا گیا،کوئی شخص تین منٹ سے زیادہ شاور نہیں لے سکتا۔ چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ کیا عدالت کوئی پالیسی بنا سکتی ہے؟ معاملہ پارلیمنٹ کو جائے گا یا حکومت خود پالیسی بنائے گی۔ پنجاب حکومت کے وکیل کا کہنا تھا کہ سیمنٹ فیکٹریوں پر واٹر میٹر لگائے جائیں گے ، مخدوم علی خان نے کہاکہ صرف سیمنٹ فیکٹریوں کیساتھ زیادتی کیوں ہو رہی ہے ٹیکسٹائل اور دیگر صنعتوں پر بھی میٹر لگائے جائیں۔ مخدوم علی خان نے کہاکہ ہر شہری سے پانی کی فیس نہیں لی جاسکتی ،غریب عوام کو پانی مفت میں دینا پڑے گا۔عدالت نے مخدوم علی خان سے پانی کی قلت اور ضیاع روکنے سے متعلق تحریری تجاویز طلب کرتے ہوئے کمشنر سندھ طاس اتھارٹی کو بھی نوٹس جاری کردیا اور کیس کی سماعت دس دن کے لئے ملتوی کردی۔
چیف جسٹس/ پانی