• news
  • image

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادت مل بیٹھنے کوتیار

نواز رضا
بالآخر25جولائی2018ء کو قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات پُر امن طور منعقد ہو ہی گئے لیکن عام انتخابات میں چیدہ چیدہ انتخابی حلقوں میں ووٹوں کی گنتی کے وقت ہونے والے ’’دھاندلی‘‘ نے پورے انتخابی عمل کو ’’مشکوک‘‘ بنا دیا گیااگر کسی حلقے میں ’’ دھاندلی‘‘ نہیں بھی ہوئی لیکن ان کی شفافیت ، ملک میں ہونے والی’’ دھاندلیوں‘‘ کی گرد میں دب کر رہ گئی ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے سوا کم وبیش تمام سیاسی جماعتوں نے انتخابی نتائج کو مسترد کر دیا ہے متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمنٰ جو اپنی20سالہ پارلیمانی سیاست میں ناقابل شکست تصور کئے جاتے ہیں کو اس نشست سے بھی تحریک انصاف کے ہاتھوں ہروا دیا گیا جہاں سے1970ء کے انتخابات میں ان کے والد مفتی محمود کے ہاتھوں ذوالفقار علی بھٹو شکست کھا چکے ہیں ۔ اگرچہ عام انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں پر کم و بیش تمام جماعتوں نے اپنے’’ شدید تحفظات ‘‘ کااظہار کیا ہے لیکن اس فریق کا نام لینے سے گریز کیا ہے جس سے اس کو شکایت ہے۔ تاہم ایک بات پر سب کا اتفاق رائے ہے کہ الیکشن کمیش ’’شفاف‘‘ انتخابات کرانے میں ناکام رہا ہے۔ دن بھر پر امن طور پر ہونے والے انتخابات میں دئیے گئے’’ عوامی مینڈیٹ‘‘ کو رات کے پچھلے پہر ’’چرا‘‘ لیا گیا ، تین روز تک انتخابی نتائج میں رددوبدل ہوتا رہا ۔غالباً مولانا فضل الرحمنٰ پا کستان کے واحد سیاست دان ہیں جنہوں نے کھل کر انتخابی دھاندلیوں میں ملوث ’’ عناصر‘‘ کی نشاندہی کی ہے ان کے لب و لہجہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ عمران خان کی سربراہی میں بننے والی حکومت کو ایک روز بھی نہیں چلنے دیں گے ۔ یہی وجہ ہے انہوں نے عام انتخابات کی شب ہی اسلام آباد میں آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان کر دیا جب ان کاپاکستان مسلم لیگ(ن) کے سربراہ میاں نواز شریف سے ٹیلی فون پر رابطہ ہوا تو انہوں نے بھی اے پی سی کی میزبانی کی خواہش کا اظہار کر دیا ۔پاکستان مسلم لیگ(ن) اور متحدہ مجلس عمل کی میزبانی میں آل پارٹیز کانفرنس انعقاد پذیر ہوئی جس میں پیپلز پارٹی کے سوا کم و بیش ملک تمام چیدہ چیدہ جماعتوں نے شرکت کی جب کہ فاروق ستار کی شرکت سے ایم کیو ایم کی ’’جزوی‘‘ شرکت ہو گئی۔ مولانا فضل الرحمن انتخابات میں ہونے والی ’’بے ضابطگیوں ‘‘اور’’ دھاندلیوں ‘‘ کے خلاف اس حد تک سیخ پا تھے کہ ملک گیرتحریک چلانے کا اعلان کر دیا لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) واحد جماعت تھی جس نے اے پی سی کے دیگر فیصلوں کی تو تائید کی تاہم اسمبلیوں کا حلف نہ اٹھانے کے فیصلے کی تائید کو پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی منظوری سے مشروط کر دیا ۔ سب سے پہلے پیپلز پارٹی نے اسمبلیوں کا حلف اٹھانے کا اعلان کیا ، بلاول بھٹو زرداری نے مولانا فضل الرحمن کو بھی پارلیمنٹ کے اندر رہ کر احتجاجی تحریک چلانے پر آمادہ کرنے کا عندیہ دیا مسلم لیگ (ن)نے بھی ان ہی’’ خطوط‘‘ پر فیصلہ کیا جن پر پیپلز پارٹی نے کیا۔جس کے بعد مسلم لیگ(ن) کی اعلیٰ قیادت کا پہلی بار پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنمائوں سے رابطہ ہوا اگلے ہی روزپیپلز پارٹی کے وفد کی سید یوسف رضا گیلانی کی قیادت میں سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی رہائش گاہ ’’سپیکر ہائوس‘‘ میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں سے ملاقات ہو گئی۔ عام انتخابات کے بعد دونوں پارٹیوں کا یہ پہلا باضابطہ رابطہ تھا جس میں مستقبل کی ’’پارلیمانی سیاست‘‘ کے بارے میں اہم فیصلے کئے گئے۔ ملاقات میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے اسمبلیوں میں حلف اٹھانے پر اتفاق رائے کیا تاہم متحدہ مجلس عمل کے سربراہ مولانا فضل الرحمنٰ کو ایم ایم اے کے قومی اسمبلی کے ارکان کے حلف اٹھانے پر آمادہ کرنے کے لئے وفد بھیجا جس پر مولانا فضل الرحمنٰ نے کہا ہے کہ اسمبلیوں میں جانے نہ جانے کا حتمی فیصلہ آل پارٹیز کانفرنس میں کیا جائے گا اس کے لئے دوبارہ اے پی سی کا اجلاس بلایا جائے گا۔ تاہم پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا مضبوط اور متحرک کردار ادا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ دونوں جماعتوں کے رہنمائوں نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ الیکشن کمیشن قبل از اور بعدازاں دھاندلی کو روکنے میں ناکام رہا۔انہوں نے چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے ارکان سے فی الفور مستعفی ہونے کا مطالبہ کردیا ۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان مرکزاور صوبوں میں تعاون پر اتفاق ہوگیا ہے ۔اس بات پر بھی اتفاق ہوا ہے کہ مرکز میں مضبوط حزب اختلاف کا کردار پوری فعالیت سے ادا کیا جائے گا اور پارلیمنٹ میں ان کو قوتوں کو بے نقاب کریں گے جنہوںنے انتخابات کو’’ چرایا‘‘ ہے ۔ پارلیمنٹ کو جو قوتیں ’’عضو معطل‘‘ بنانا چاہتی ہیں ان کے عزائم کو ناکام بنایا جائے گا ۔پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں سے ملاقاتیں کرنے کے لئے اسلام آباد پہنچ گئے ۔ اپوزیشن جماعتوں کے اجلاس میں مولانا فضل الرحمٰن ایم ایم اے کے پارلیمنٹ میں جانے پر مشروط طور پر رضا مند ہو گئے انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملہ کو ایم ایم اے اور اے پی سی کے سامنے دوبارہ رکھیں گے مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ مجلس عمل کے اجلاس میں اہم پیش رفت یہ ہوئی کہ چارجماعتوں نے قومی اسمبلی میں’’ گرینڈ اپوزیشن الائنس ‘‘ قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے ’’گرینڈ اپوزیشن الائنس‘‘میں ایم کیو ایم اور بلوچستان کی جماعتوں کی شمولیت رابطہ قائم کیا جائے گا اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات میں دھاندلی کے بارے میں مشترکہ وائٹ پیپر شائع کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے جب کہ حکومت سازی کیلئے’’ نمبر گیم ‘‘ پوری کرنے کی کوشیں جاری رکھیں جائیں گی۔ چارجماعتوں کے مشترکہ اجلاس میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اندر اور باہر سخت احتجاج کرنے پر اتفاق ہوا اپوزیشن کا مشترکہ امیدوار برائے وزارت عظمی ،سپیکر وڈپٹی سپیکر لایا جائے گا اور حلف کے روز پارلیمنٹ کے اندر اور باہربھرپور احتجاج کیا جائے گا متحدہ مجلس عمل کے اجلاس سے قبل جماعت اسلامی پاکستان کی مجلس شوریٰ نے اسمبلیوں کا حلف اٹھانے کے حق میں رائے دے دی یہ بات قابل ذکر ہے کہ متحدہ مجلس عمل نے بھی قومی وصوبائی اسمبلیوں میں حلف اٹھانے سے متعلق جماعت اسلامی پاکستان کی تجویز کی توثیق کردی ہے جب کہ عام انتخابات میں خیبرپختونخواہ میں جماعت اسلامی کی سب سے زیادہ ’’ٹارگٹ کلنگ ‘‘ ہوئی ہے متحدہ مجلس عمل نے اپنی سطح پر احتجاجی مظاہروں کی کال دے دی ہے ملک بھر میں کارکنوں انتخابی دھاندلی کے خلاف ضلعی سطح پر اپنا احتجاج جاری رکھنے کی ہدایت کی جبکہ کل جماعتی کانفرنس میں احتجاجی مظاہروں کا شیڈول طے کیا جائے گااور عوام کو ملک گیر احتجاج کی کال دی جائے گی مولانا فضل الرحمنٰ نے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے انتخابات میں’’ دشمن ‘‘کو شکست ملنے کے بیان کی وضاحت مانگ لی ہے ۔ انہوں نے کہا ہے کہ امریکہ نے بھی بیان دیا ہے کہ پاکستان میں عام انتخابات کے نتیجے میں مذہبی انتہاء پسندوں کو شکست ہوئی ہے ۔ اس امریکی بیان کے بعد آرمی چیف کے بیان کی وضاحت اور بھی ضروری ہوگئی ہے ۔اپوزیشن جماعتوں کے باہمی رابطوں کے نتیجے میں جہاں ’’ گرینڈ اپوزیشن الائنس‘‘ قائم کرنے کا فیصلہ ہو گیا ہے وہاں مولانا فضل الرحمنٰ کو بھی پارلیمنٹ کے اندر ’’سیاسی کھیل ‘‘ کھیلنے پر آمادہ کر لیا گیا ہے سب سے بڑی کامیابی یہ ہوئی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت جس کے درمیان ماضی میں بڑے فاصلے پیدا ہو گئے تھے مل بیٹھنے کے لئے تیا رہو گئی ہے پارلیمنٹ میں گرینڈ اپوزیشن قائم ہو جائے گی جو ایوان زیریں میں عمران خان کو چین سے حکومت نہیں کرنے دے گی جب کہ ایوان بالا میں اس کا پلڑہ بھاری رہے گا نئی حکومت کو پارلیمنٹ میں قانون سازی میں بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن