سیاست میں سول اور خاکی بیوروکریسی کاکردار
فرخ سعید خواجہ
پاکستان کی سیاست میں سول اور خاکی بیورو کریسی کا عمل دخل قائداعظمؒ کی رحلت کے بعد قوم کے سامنے آ یا۔ ان مہربانوںکے ’’دائو پیچ‘‘ کا نتیجہ تھا کہ پاکستان کو اپنا پہلا آئین 9 سال بعد 1956ء میں نصیب ہوا۔ اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ اس کے بعد بھی نہ رکا، قوم کو 1962ء کا آئین اور دس سالہ ایوبی آمریت برداشت کرنا پڑی۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد بچے کھچے پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو برسراقتدار آئے، ان کو اقتدار میں لانے میں جن ’’جنرلوں‘‘ نے کردار ادا کیا تھا انہیں بھٹو صاحب نے جلد ہی گھر بھجوا دیا۔ اب ذوالفقار علی بھٹو کا طوطی بول رہا تھا البتہ ان سے ایک سیاسی بھول ہوئی کہ انہوں نے پاکستان کے مایہ ناز ادارے انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) میں سیاسی ونگ قائم کردیا۔ بھٹو دور ایک متنازع دور حکومت ہے جس میںان کی جانب سے متعدد غیر جمہوری حرکتیں سرذد ہوئیں تاہم انہوں نے کئی کارہائے نمایاں بھی سرانجام دیئے جن میں 1973ء کا آئین دینا، پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنا اور اسلامی ممالک کی کانفرنس منعقد کرنا نمایاں ہیں۔ بھٹو کو اپنیـ ــ"ـ بھول‘‘ کا خمیازہ 1977 میں بھگتنا پڑا جبکہ۔۔۔۔۔ قوم اس غلط فیصلے کے نتائج آج تک بھگت رہی ہے۔ پاکستان میں عام انتخابات پر اسٹیبلشمٹ کا اثر انداز ہونا اس وقت تک ختم نہیں کیا جا سکتا جب تک ’’سیاسی ونگ‘‘ کو ختم نہ کر دیا جائے۔
الیکشن 2018ء اسٹیبلشمنٹ کے حامی اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاسی قوتوںکے درمیان تھا۔ یہ مقابلہ کتنا سخت تھا اس کا اندازہ پولنگ والے دن آرمی چف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ووٹ ڈالنے کے بعد میڈیا سے گفتگو سے لگایا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ دشمن قوتوں سے مقابلہ ہے اور انہیں ووٹ کے ذریعے ہرانا ہے۔ یہ وہ بیانیہ تھا جو نواز شریف کے ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے کے جواب میں تھا۔ سو آرمی چیف کا بیانیہ جیت گیا، لیکن یہ اس حالت میں ہوا کہ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز پہلے لندن اور پھر جیل میں تھے جبکہ مسلم لیگ (ن) کی کمان میاں شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے میاں حمزہ شہباز کے ہاتھ میں تھی۔ اعتدال پسند باپ بیٹے نے خوب انتخابی مہم چلائی لیکن وہ مولوی مدن کی سی بات کہاں۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ نواز شریف، مریم نواز کی گرفتاری کے لئے وطن واپسی پر ان کے استقبال کے لئے نکالے گئے جلوس کو میاں شہباز شریف ائر پورٹ لے جاتے تو مسلم لیگ (ن) الیکشن جیت سکتی تھی۔ راقم الحروف کو اس رائے سے اتفاق نہیں کیونکہ ایسا کہنے والے بھول جاتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) عسکری تنظیم نہیں سیاسی جماعت ہے۔ وہ سیاسی جدوجہد، جلسہ جلوس کر سکتے ہیں لیکن کس مسلح طاقت کے ساتھ نہیں لڑ سکتے۔ لوہاری دروازہ سے نکلنے والے پرامن جلوس میں شامل افراد اور پارٹی قائدین کے خلاف دہشت گردی کی مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج کر دیئے گئے حالانکہ ایک گملا بھی نہیں ٹوٹا تھا۔ اور اگر جلوس ائرپورٹ جاتا اور راستہ روکنے پرپولیس، رینجرز اور فوج سے ٹکرائو کی صورت میں کتنی جانیں جاتیں اور کتنی گرفتاریاں ہوتیں اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ ائر پورٹ کے علاقے میں پولیس پیچھے ہٹ چکی تھی۔ سامنے رینجرز تھی اور پیچھے فوجی جوان، میاں شہباز شریف نے نہ صرف مائوں کے بچوں کو لہو میںنہانے سے بچا لیا بلکہ ہزاروں افراد کو گرفتاریوں سے بچا کر انہیں انتخابی مہم میں جھونکے رکھا۔ یہ اس کا نتیجہ ہے کہ آج قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی 64 اور پنجاب اسمبلی میں 129 نشستیں آئی ہیں اور مسلم لیگ (ن) کو ایک کروڑ سے زیادہ ووٹ پڑے ہیں جو نواز شریف کے بیانیے کی کامیابی پر مہر تصدیق ثبت کر رہے ہیں۔ ہماری رائے میں شہباز شریف کی سیاسی دانش مندی نے مسلم لیگ (ن) کو تباہی سے بچا لیا ہے۔اللہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو زندگی اور صحت دے۔ ان کی شیردل صاحبزادی مریم نواز، کیپٹن صفدر اور ان کے جیل کے ساتھیوں کو سلامت رکھے وہ جیل کے اندر سے بھی مسلم لیگ (ن) کے لئے سیاسی قوت ہیں اور جیل سے باہر آکر بھی مستند قومی لیڈر ہوں گے۔ جہاں تک شہباز شریف کے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کی حثیت سے نئے سیاسی کردار کا تعلق ہے اس بارے میں لوگ لاکھ چہ میگوئیاں کریں لیکن دنیا دیکھے گی کہ شہباز شریف ایک اعتدال پسند لیکن دبنگ لیڈر کے طور پر قوم کے سامنے آئیں گے۔ 1993ء میں جب میاں نواز شریف قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بنے تو نواز شریف کے ماضی میں حکمران رہنے کی وجہ سے بڑے بڑے جغادری سیاستدانوں اور صحافیوں نے کہا کہ نواز شریف صنعتکار گھرانے کا بندہ ہے یہ ایک انکم ٹیکس افسر کی مار ثابت ہو گا۔ جبکہ ہماراخیال تھا کہ نواز شریف مرد میدان ثابت ہو گا اور ایسا ہی ہوا اور اب ہماری رائے ہے کہ میاں شہباز شریف سیاسی میدان میںاسی طرح اپنا لوہا منوا لیں گے جس طرح وزیراعلی پنجاب کی حیثیت سے دن رات کام کرکے انہوں نے چینی اکابرین سے شہباز سپیڈ‘‘ کا خطاب پایا اور اپنی انتظامی صلاحیتوں کا لوہا منوایا لگتا ہے کہ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے قائد حزب اختلاف ہوں گے جہاں قائدانہ صلاحیتوں کا اظہار سامنے آئے گا بلکہ مسلم لیگ (ن) کے صدر کی حیثیت سے وہ مسلم لیگ (ن) کو سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور پنجاب میں منظم کرتے دیکھے جا سکیں گے۔
اب ہم آتے ہیں الیکشن 2018ء میں کامیابی حاصل کرنے والے چیئرمین عمران خان اور ان کی جماعت پی ٹی آئی کی طرف ۔شاندار کامیابی انہیں مبارک ہو، عمران خان نے مستقل مزاجی اور استقلال کے ساتھ اپوزیشن میں اپنا کردار ادا کیا۔ انہوں نے اپنا کہا سچ کر دکھایا کہ کرکٹ میں آنے پر لوگ کہتے تھے کہ یہ کرکٹر نہیں بن سکتا اور میں نے بن کر دکھایا۔ لہذا اب جو مجھے سیاستدان نہیں مانتے میں انہیں کامیاب سیاستدان بن کر دکھائوں گا اور واقعی وہ کامیاب ہوئے۔ مجھے انہیں اس لئے زیادہ مبارکباد پیش کرنا ہے کہ میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جن کی رائے تھی کہ عمران خان سیاستدان نہیں بن سکتے۔ عمران خان کی کامیابی دیگر بہت سے سیاستدانوں اور پوری قوم کے لئے کے لئیایک مثال ہے کہ کمنٹمنٹ سچی ہو۔ جذبے صادق ہوں تو مشکلات راہ میں حائل نہیں ہو سکتیں۔ بالآخر کامیابی آپ کے قدم چومتی ہے۔ اب عمران خان کا یہ امتحان ہوگا کہ انہیں نواز شریف شہباز شریف کے طرز حکمرانی کی جو خرابیاں نظر آتی تھیں خود انہیں اپنانے سے بچیں جبکہ ان کے اچھے کاموں کو نہ صرف اپنائیں بلکہ ادھورے کاموں کو مکمل کروائیں۔ قوم 70 سال سے خوشحالی کی منزل تک پہنچنے کی آرزو مند ہے سو مشترکہ قومی ایشوز طے کر لیں اور اپوزیشن کی مد دسے ان کو کامیابی سے حل کریں۔ ا