فیصل آباد سے آزاد ارکان کس قیمت پر بنی گالا پہنچے
احمد کمال نظامی
الیکشن 2018ء کے نتائج کے مطابق تخت لاہور اور تخت اسلام آباد کے لئے پاکستان تحریک انصاف کی جدوجہد اس حد تک جاری ہے کہ جہانگیر ترین کا جہاز شہر شہر پرواز کرتا نظر آتا ہے اور بیشتر حلقوں کے مطابق مبینہ طور پر پنجاب اسمبلی کے بعض آزاد ارکان کو دو کروڑ روپے سے چار کروڑ تک میں خرید لیا گیا ہے اور بعض ارکان کو صوبائی کابینہ میں نمائندگی کا وعدہ کیا گیا ہے۔ پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان جاوید میانداد نے بھی سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں آنسو بہاتے ہوئے قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کی خریدوفروخت پر اپنے دکھ اور کرب کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ لوگ دو وقت کی روٹی کے لئے تڑپ رہے ہیں مگر ہمارے بہت سے ارکان اپنی کروڑوں روپے کی بولیاں لگوا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ملک قوم جمہوریت اور عوام کی خدمت نہیں ہے۔ انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اس سلسلے میں فوری طور پر سوموٹو لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ فیصل آباد کے دونوں آزاد ارکان صوبائی اسمبلی پی پی 97 سے مسلم لیگ(ن) کے آزاد علی تبسم اور پی ٹی آئی کے علی افضل ساہی کو شکست دینے والے چوہدری محمد اجمل چیمہ اور پی پی 106 سے تحریک انصاف کے دلنواز چیمہ اور مسلم لیگ(ن) کے پرویز گل کو شکست دینے والے ملک عمر فاروق تحریک انصاف میں شامل ہو چکے ہیں۔ ان دونوں کی کامیابی میں این اے 101 اور این اے 105 سے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے والے قومی اسمبلی کے تین مرتبہ این اے 77 سے رکن منتخب ہونے والے چوہدری عاصم نذیر اور ان کے حقیقی بھتیجے مسعود زاہد نذیر کے ووٹ بینک کی بہت زیادہ امداد حاصل ہے۔ چوہدری عاصم نذیر کا قومی اسمبلی کا سابقہ حلقہ این اے 77 نئی حلقہ بندی میں این اے 101، این اے 102، این اے 103 اور این اے 105 میں شامل ہو گیا تھا۔ سب سے زیادہ این اے 102 میں شامل ہوا جبکہ ایک تہائی حصہ این اے 103 میں اور ایک چوتھائی حصہ این اے 101 اور این اے 105 میں شامل ہوا۔ چوہدری عاصم نذیر کے بڑے بھائی چوہدری زاہد نذیر مسلم لیگ(ن) کی طرف سے چیئرمین ضلع کونسل ہیں اور ضلع کونسل کے لئے ان کی نامزدگی کو روکنے کے لئے ایک طرف چک جھمرہ کے ساہی خاندان اور دوسری طرف سابق رکن قومی اسمبلی میاں محمد فاروق اور ان کے بیٹے مسلم لیگ(ن) کے ضلعی صدر قاسم فاروق نے بہت نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ سابق وزیرمملکت طلال چوہدری نے بھی چوہدری زاہد نذیر کو چیئرمین ضلع کونسل بنانے کی مخالفت کی تھی لیکن سابق صوبائی وزیر رانا ثناء اللہ خاں کی حمایت سے چوہدری زاہد نذیر چیئرمین ضلع کونسل منتخب ہو گئے۔ حالانکہ نوازشریف بھی زاہد نذیر کے سخت خلاف تھے۔ نوازشریف نے صاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ زاہد نذیر مسلم لیگ(ق) دور میں بھی ضلعی ناظم رہ چکے ہیں۔ یہ خاندان ہر آنے والی حکومت میں شامل ہو جاتا ہے۔ اسے مسلم لیگ(ن) کا ٹکٹ نہیں دیا لیکن بعدازاں زاہد نذیر کو مسلم لیگ(ن) کو ٹکٹ دیا گیا اور میاں محمد فاروق نے نوائے وقت کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ضلع ناظم الیکشن میں لاہور جیت گیا اسلام آباد ہار گیا۔زاہد نذیر 1990ء کے عشرے میں دو مرتبہ چیئرمین ضلع کونسل اور 2001ء کے بلدیاتی انتخابات میں ضلع ناظم فیصل آباد رہ چکے ہیں۔ ان کے نائب ضلع ناظم چوہدری محمد افضل ساہی تھے جو الیکشن 2002ء میں پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہو کر پنجاب اسمبلی کے سپیکر منتخب ہو گئے تھے جبکہ ان کے بھائی کرنل(ر) غلام رسول ساہی مسلم لیگ(ق) کے ٹکٹ پر اس حلقہ سے رکن قومی اسمبلی بن گئے تھے اور ساہی برادران نے الیکشن 2008ء پیپلزپارٹی کے امیدواروں کے مقابلے میں ہار دیا اور بعد میں الیکشن 2013ء سے پہلے مسلم لیگ(ن) میں شامل ہو گئے تھے اور الیکشن 2018ء سے ہفتہ عشرہ پہلے ساہی خاندان نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی اور عمران خان خصوصی طور پر ان کی دعوت پر فیصل آباد آئے اور چک جھمرہ تحصیل کی قومی اسمبلی کی نشست این اے 101 پر کرنل(ر) غلام رسول ساہی کے بیٹے ظفر ذوالقرنین ساہی، پنجاب اسمبلی کے ضلع فیصل آباد کے پہلے حلقے پی پی 97 سے افضل ساہی کے بیٹے علی افضل ساہی اور پی پی 98 سے خود افضل ساہی کو پارٹی ٹکٹ دے کر انہوں نے اس تحصیل میں گزشتہ کئی برسوں سے تحریک انصاف کے لئے کام کرنے والے کارکنوں، 2013ء کے قومی اسمبلی کے ٹکٹ ہولڈر فواد چیمہ اور تحریک انصاف ضلع فیصل آباد کے ضلعی سیکرٹری جنرل محمد اجمل چیمہ کو نظرانداز کر کے تحصیل چک جھمرہ ساہی خاندان کے سپرد کر دی تو اس حلقہ میں تحریک انصاف کے ووٹ بینک نے ساہی برادران کو قبول نہ کرنے کا فیصلہ کر کے چوہدری زاہد نذیر چیئرمین ضلع کونسل کو دعوت دی کہ وہ این اے 101 سے اپنے بیٹے مسعود نذیر یا اپنے بھائی عاصم نذیر کو امیدوار بنا دے۔ مسعود نذیر کو این اے 105 اور عاصم نذیر کو این اے 101 سے آزاد امیدوار نامزد کر دیا گیا۔ عاصم نذیر آزاد حیثیت سے قومی اسمبلی کے رکن اور محمد اجمل چیمہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔ مسعود نذیر تحریک انصاف کے امیدوار رضا نصراللہ گھمن سے دو ہزار ووٹوں سے ہار گئے۔ فیصل آباد سے آزاد رکن پنجاب اسمبلی نے سینیٹر محمد سرور چوہدری کو وزیراعلیٰ بننے کے لئے اپنی نشست خالی کرنے کا بھی عندیہ دے دیا تھا اور جواباً انہیں یقین دلایا گیا ہے کہ وہ صوبائی کابینہ کا حصہ ہوں گے۔ فیصل آباد کے دوسرے آزاد رکن پنجاب اسمبلی ملک عمر فاروق نے جہانگیر ترین سے تحریک انصاف میں شامل ہونے سے معذرت کر لی تھی البتہ سینیٹر چوہدری محمد سرور سے انہوں نے اپنے قصبہ ڈجکوٹ کو تحصیل کا درجہ دلوانے کا مطالبہ کیا ہے اور وہ بھی اب تحریک انصاف کا حصہ ہے۔ عمران خان ہمیشہ ایک بال سے دو وکٹیں گرانے کی بات کرتے رہے ہیں۔ ان کا دو وکٹیں گرانے کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ وہ ملک کو میثاق جمہوریت کرنے والوں سے نجات دلائیں گے لیکن تحریک انصاف نے الیکشن 2018ء میں خصوصی طور پر صوبہ کے پی کے کی تمام بڑی وکٹیں گرا دی ہیں۔ قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے مولانا فضل الرحمن، ایک حلقہ سے سراج الحق، ایک حلقہ سے سابق وزیراعلیٰ اکرم درانی، اسفندیارولی، غلام احمد بلور، امیر مقام اور بلاول بھٹو زرداری کو شکست سے دوچار کیا اور کراچی سے ڈاکٹر فاروق ستار سمیت ایم کیو ایم کی قیادت کو الیکشن سے بہت حد تک آؤٹ کر دیا جبکہ مصطفیٰ کمال کی پاک سرزمین پارٹی کا کوئی ایک رکن قومی یا صوبائی اسمبلی کامیاب نہیں ہو سکا۔ فیصل آباد میں چار سابق وزراء مملکت رانا محمد افضل خاں، عابد شیرعلی، حاجی محمد اکرم انصاری اور طلال چوہدری کے علاوہ شہر کی سیاست میں سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ خاں اور ساہی خاندان کا اقتدار ختم ہو گیا۔ پنجاب اسمبلی کی دوسری نشست پی پی 98 مسلم لیگ(ن) کے شعیب ادریس کے حصے آ گئی ہے۔ اگر مسلم لیگ(ن) پنجاب میں حکومت بنانے میں اپنی نمبرگیم بڑھانے میں کامیاب ہو گئی تو مرکز میں مسلم لیگ(ن) کے اپوزیشن میں ہونے کے باوجود مسلم لیگ(ن) میں رہیں گے کیونکہ ضلع کونسل کے چیئرمین کو ترقیاتی فنڈز صوبائی حکومت سے ملیں گے۔ تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری نے کہا ہے کہ تحریک انصاف نے مرکز اور صوبہ پنجاب میں حکومت بنانے کے لئے نمبر مکمل کر لئے ہیں اور دعویٰ کیا ہے کہ صوبہ بھر سے 21آزاد ارکان پنجاب اسمبلی نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ تحریک انصاف کی پنجاب اسمبلی میں اپنی نشستیں 123 تھیں۔ دعویٰ کیا گیا ہے کہ مسلم لیگ(ق) کے ساتھ بھی ان کا معاملہ طے ہو گیا ہے اور اس طرح تحریک انصاف کو 8 نشستیں اپنی اس اتحادی جماعت سے بھی ملیں گی۔ پرویزالٰہی کو پنجاب میں سپیکر کی ذمہ داری دینے کی بات بھی ہو رہی ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے چوہدری شجاعت حسین کو گورنر پنجاب بنایا جا رہا ہے۔ یہ چوہدری برادران وہی ہیں جو جنرل مشرف کے اقتدار کے دوران ان کے دست بازو تھے اور طالع آزما فوجی ڈکٹیٹر جنرل مشرف کو یہ کہتے رہے کہ اگر دس بار بھی انہیں وردی میں صدر منتخب کروانا پڑا تو وہ ایسا کر گزریں گے۔ اگر چوہدری پرویزالٰہی سپیکر پنجاب اسمبلی بنے تو لاہور سے ڈاکٹر یاسمین راشد کو خواتین کی نشست پر کامیاب کرانے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب اسمبلی بنایا جا سکتا ہے جبکہ مسلم لیگ(ن) نے یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ انہیں اپنے 129ارکان اسمبلی کے علاوہ آزاد ارکان کی حمایت بھی حاصل ہے اور وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے۔ مسلم لیگی حلقوں کا کہنا ہے کہ وہ تحریک انصاف کی طرح شور نہیں مچا رہے بلکہ خاموشی سے حکومت بنانے کے لئے اپنا کام جاری کئے ہوئے ہیں۔ تحریک انصاف کو مرکز میں اپنی نمبر گیم مکمل کرنے میں ابھی دشواری پیش آ رہی ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت سردست ایم کیو ایم کی طرف پرامید نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ ایم کیو ایم سے جہانگیر ترین نے وفد کے ہمراہ مذاکرات کئے مگر ذرائع بتا رہے ہیں کہ ایم کیو ایم نے ایسے مسائل پیش کر دیئے جس سے تحریک انصاف مشکل میں کھڑی ہو گئی ہے۔ ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ کراچی میں ان کے خلاف آپریشن بند کرنے کے علاوہ ایم کیو ایم کے تمام بند کئے گئے دفاتر کھولے جائیں اور اس طرح انہوں نے 12مطالبات پیش کئے۔ یعنی ایم کیو ایم نے ابھی تحریک انصاف کے حامی نہیں بنی جبکہ دوسری طرف متحدہ اپوزیشن نے مولانا فضل الرحمن کو بھی اسمبلیوں کا حلف اٹھانے کے لئے راضی کر لیا ہے۔ حالانکہ مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی، مجلس عمل سمیت تمام اپوزیشن جماعتیں الیکشن 2018ء انتخابات کے نتائج کو مسترد کر چکی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعتیں نمبر گیم پر کام کر رہی ہیں اور حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے۔ وزیراعظم کے امیدوار سے لے کر سپیکر تک میدان کھلا نہیں چھوڑا جائے گا۔ تحریک انصاف گو دعویٰ کر رہی ہے کہ وفاق میں اسے 168ارکان کی حمایت حاصل ہے لیکن سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ عمران خان پانچ نشستوں پر منتخب ہونے کے بعد چار اور اسی طرح چوہدری پرویزالٰہی، چوہدری محمد سرور سمیت وہ ارکان جو دو نشستوں پر منتخب ہوئے خالی کر دیں گے تو اس طرح تحریک انصاف کی قومی اسمبلی میں 115 سے آٹھ نشستیں کم ہو جائیں گی اور عمران خان کو سادہ اکثریت سے وزیراعظم بننے کے لئے 175ارکان کی ضرورت ہے ایسے میں اگر وہ ایم کیو ایم کو بھی ساتھ ملا لیتے ہیں تو پھر بھی یوں محسوس ہو رہا ہے کہ سادہ اکثریت حاصل کرنا تحریک انصاف کے لئے فی الحال ناممکن نظر آ رہا ہے کیونکہ آزاد ارکان کی زیادہ تر تعداد ابھی تک آزاد ہے اور وہ حالات کا رخ دیکھ رہے ہیں۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا کے مصداق تماشا لگا ہوا ہے۔ آج الیکشن کے بعد کا سیاسی منظرنامہ نوشتہ دیوار تھا۔ رانا ثناء اللہ خاں مسلم لیگ(ن) کے وزراء مملکت کے ساتھ جو سلوک کرتے رہے۔ ان کی شکست کی اندرونی کہانی یہی ہے جس کی تفصیل خاصی طویل اور دس سالوں پر محیط ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود بھی رانا صاحب پی پی 70 موجودہ پی پی 113 سے ہار گئے مسلم لیگ(ن) آج الیکشن کے بعد جس مقام پر کھڑی ہے اس بارے میں شہبازشریف کو غوروخوض کرنا ہو گا۔ اپوزیشن کا بھرپور کردار ادا کر کے آئندہ انتخابات میں ازسرنو کامیابی حاصل کرنی ہے تو اپنی صفوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ عمران خان ماضی کی سیاسی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے پنجاب حکومت بنانے اور کرنے پر بھرپور توجہ دیں گے۔ اس کا سدباب کیسے کرنا ہے، فیصلہ کرنا ہو گا؟ سب کو ساتھ ملا کر تخت لاہور ہاتھ میں رکھا جا سکتا ہے ۔