• news

عالمی امدادی اداروں میں جنسی استحصال روکنا مشکل ہوگیا: برطانوی پارلیمانی کمیٹی

لندن(این این آئی)برطانوی پارلیمانی کمیٹی نے کہا ہے کہ انٹرنیشنل امدادی تنظیموں میں جنسی استحصال کے سلسلے کو روکنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ یہ ادارے اپنے مرد ملازمین کے ہاتھوں خواتین ورکروں کے استحصال میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق برطانوی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں کے ترقیاتی شعبے کا جائزہ لینے والی کمیٹی کے سربراہ اسٹیفن ٹوِگ نے کہاکہ بین الاقوامی امدادی اداروں میں جنسی استحصال ایک وباء کی صورت اختیار کر گئی ہے۔
انہوں نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ یہ ادارے ایسی صورت حال کا خاتمہ کرنے کے بجائے اپنے ملازمین کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس طرح کسی بھی استحصالی رویے کی انکوائری شفاف طریقے سے مکمل نہیں ہو پاتی۔کمیٹی نے انٹرنیشنل اداروں سے مطالبہ کیا کہ وہ اپنی تنظیم کے ملازمین کی مزید چھان بین کرے اور ایسے افراد کے نام سامنے لائیں جو خواتین کے جنسی استحصال میں ملوث پائے گئے ہوں تا کہ ان شکاریوں کو کوئی اور ادارہ نوکری دینے سے گریز کرے۔ برطانوی پارلیمانی کمیٹی کے مطابق ڈویلپمنٹ سیکٹر میں یہ مسئلہ انتہائی گھمبیر ہو چکا ہے۔یہ بھی واضح کیا گیا کہ بین الاقوامی امدادی اداروں میں ملازم خواتین کے جنسی استحصال کا سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ برطانوی دارالعوام کی خصوصی کمیٹی کی رپورٹ رواں برس کے اوائل میں برٹش کثیرالقومی امدادی ادارے اوکسفیم میں جنسی استحصال کے الزامات کے تناظر میں ہے، جب سات ملازمین نے نوکریوں سے استعفے دے دیئے تھے۔اوکسفیم کے حوالے سے ایسے انکشافات بھی سامنے آئے تھے کہ اس ادارے کے بعض ملازمین نے کیربیین ملک ہیٹی میں 2010 کے زلزلے کے بعد قائم ہونے والے مقامی دفتر میں خواتین عہدوں پر جسم فروش خواتین کو ملازمتیں تک دے رکھی تھیں۔دوسری جانب برطانیہ کی غیرسرکاری تنظیموں کے نگران ادارے انٹرنینشل ڈیویلپمنٹ نان گورنمنٹل آرگنائزیشن کی سربراہ جوڈتھ بروڈی کا کہنا تھا کہ مختلف ادارے جنسی استحصال کے عمل کا مکمل صفایا کرنے پر مجبور ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن