• news
  • image

ایک موقع دینا چاہئے

سوچا تھا انتخابات کی گہما گہمی ختم ہو گی تو کچھ آثار بدلیں گے، فضا میں سکون کی لہر محسوس ہو گی مگر انتخابات کا دن گزرتے ہی عجیب طرح کی دھینگا مشتی شروع ہو گئی۔ کوئی بھی کسی کو ماننے کو تیار نہیں۔ بار بار حلقے کھل رہے ہیں، گنتی ہو رہی ہے پھر بھی نہ جیتنے والا خوش ہے نہ ہارنے والا مطمئن۔ دونوں کو کچھ نہ کچھ شکوک و شبہات ضرور ہیں۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن کی سنیں تو وہ اس بات کے دعوے دار ہیں کہ ہم نے پوری دیانت داری سے الیکشن کا انعقاد کیا اور کسی بھی حوالے سے ہونے والی دھاندلی کو روکنے کی حتیٰ الامکان کوشش کی تاہم یہ تو ترقی یافتہ ممالک میں بھی ہوتا رہتا ہے۔ وہاں بھی لوگ ایک دوسرے پر اس طرح کے الزامات لگاتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں الیکشن اسی دن شفاف گنے جائیں گے جب بائیو میٹرک نظام متعارف کرایا جائے گا۔ الیکشن بھلے سو فیصد درست ہوں پھر بھی نہ ماننے والوں نے کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کر لینا ہوتا ہے۔ بہرحال اب زیادہ شوروغل ہو رہا ہے ۔ ہر کوئی دوسرے کی ماضی کی خامیاں، خطائیں نکال نکال کے شیئر کر رہا ہے جب کہ الیکٹرانک میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے جہاں اتحاد بنانے والے جماعتوں کے ممبران کو بٹھا کر ان کے سربراہوں کے ایک دوسرے کے خلاف ماضی میں دیئے گئے سخت بیانات کی ویڈیو چلائی جاتی ہے۔ کوئی بھی بندہ کبھی بھی ایک حالت میں نہیں رہتا۔ اس کے خیالات حالات کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ پارٹیوں اور اشخاص کی خامیاں، خوبیاں ظاہر ہونے سے تاثرات بھی بدلتے رہتے ہیں۔ اگر انسان کی سابقہ گفتگو کو معیار بنا لیا جائے تو پھر کبھی کوئی کسی کو دوست نہ بنا سکے اس لئے ضروری ہے کہ میڈیا جنگ کے ماحول سے نکل کر امن کی طرف قوم کو لے جانے کی کوشش کرے۔ اس وقت اتحاد اور یکجہتی کی اشد ضرورت ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سی پیک میں ایک دو سال باقی ہیں۔ اس کے بعد پاکستان کے اچھے دن آنے والے ہیں۔ ہماری دشمن قوتیں ان ایک دو سالوں میں ہمارا کباڑہ کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ اس سلسلے میں وہ مختلف چالیں چلتی رہتی ہیں۔ کبھی فوج کے خلاف نعرہ بازی کروائی جاتی ہے اور کبھی عدلیہ پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہیں کچھ کوتاہی ہوئی ہو مگر اسے دنیا بھر کے سامنے لانا اور اچھالنا ہمارے اپنے قومی مورال کے خلاف ہے۔ وہ فوج جو ہمارے تحفظ کی امین ہے، جو ہماری یکجہتی کی علامت ہے، جو ہمارے وقار کی ضامن ہے اگر ہم اس کے بارے میں نفرت زدہ نعرے لگانے لگیں گے تو نئی نسل کیا امیج لے کر جوان ہو گی؟ اس پر سوچنے کی اشد ضرورت ہے۔ بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک میں ملکی سلامتی کے حوالے سے بات کرنے کو ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے اور اس کی باقاعدہ سزا دی جاتی ہے۔ کئی ایسے معاملات عوام کی نظروں سے چھپا لئے جاتے ہیں جن سے قومی وقار کو ٹھیس پہنچے۔ صرف پاکستان ایسا ملک ہے جہاں سب کو گالی دینا بہت آسان ہے۔
آج کی بات کریں، ایک نئی حکومت وجود میں آ چکی ہے۔ تحریکِ انصاف نے بھلے مرکز اور پنجاب میں کم سیٹیں لی ہیں مگر وہ اتحاد سے حکومت بنانے کے قابل ہو چکی ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن نے پچھلے دس سال پنجاب پر حکومت کی اور اس حوالے سے قابلِ قدر کام بھی کیا۔ اس وقت ان پر اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ وہ بڑے دل کا مظاہرہ کریں اور مرکز اور پنجاب میں اعتماد کا ووٹ دے کر ایک خوش آئند روایت قائم کریں۔ اس سے خرید و فروخت اور فارورڈ بلاک میں جانے والوں کی حوصلہ شکنی ہو گی نیز ایک قومی وحدت کا احساس ہو گا۔ اگر مسلم لیگ ن پیش رفت کرے گی تو تحریکِ انصاف بھی اخلاقی طور پر ان کی مشکور رہے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ عمران خان کو ایک موقع ضرور دینا چاہئے، کم از کم انہیں ایک سال دینا چاہئے جس میں وہ اپنی صلاحیتیں اور حکمتِ عملی کو آزماتے ہوئے ترقی کے وعدے پورے کر سکیں۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ پاکستان کی کامیابی ہے کیوں کہ یہ بات سب پر عیاں ہے کہ معاشی حوالے سے پاکستان اس وقت شدید کرائسس میں ہے اس لئے حکومت کی توجہ جوڑ توڑ سے ہٹا کر اسے سنجیدہ معاملات کو حل کرنے کی طرف گامزن کرنے کا موقع دینا چاہئے۔ تحریکِ انصاف کی کامیابی مسلم لیگ ن کی ناکامیوں کی وجہ سے نہیں ہے۔ یہ صرف لوگوں کا نظام میں تبدیلی کے نعرے کا جواب ہے۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس جماعت سے انہیں کیا ریلیف ملتا ہے؟ مسلم لیگ ن کو اس عرصے میں آرام کے ساتھ ساتھ ان لوگوں سے رابطے کرنا چاہئیں جن سے وہ شدید مصروفیت کی وجہ سے کٹے رہے۔ قوم اس وقت کسی بڑے بحران کی متحمل نہیں ہو سکتی اس لئے نئی حکومت کو ایک موقع دیں اور تعمیری اپوزیشن کے ذریعے ملک کے حالات کو بہتری کی طرف لے کر آئیں۔ اسی میں ہم سب کا مفاد ہے۔ اگر پاکستان خوشحال ہے تو ہم سب خوشحال ہیں۔ اگر ملک قرضوں تلے دبا رہے گا تو ہمارا کل اور ہمارے بچوں کا مستقبل داﺅ پر لگ جائے گا۔ تاہم اگر تحریکِ انصاف کو موقع نہ دیا گیا اور اس کی بے جا مخالفت کی جاتی رہی تو وہ تعمیری کاموں پر توجہ نہیں دے سکے گی۔ کئی بار قدرت کی طرف سے کسی انسان کے ذریعے قوموں کی قسمت بدل جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے کچھ بہتر ہو جائے، خدا کچھ ایسے وسیلے بنا دے جو ہمارے مسائل کو کم کر دیں اور ہمارے لوگوں کی زندگیاں سہل ہوں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن