• news
  • image

حلف کے دعوتی کارڈ اور ہزاروں والٹن مٹی!!

امریکی ادیب جیمز تھر پر نے ایک رومانی کردار تخلیق کیا اس کردار کا نام والٹر مٹی walter Mittyتھا۔ یہ کردار خوابوںخیالوں کی دنیا میں رہنے ولا کردار تھا۔ مثلاً ایک دن وہ بیوی کے ساتھ خریداری مکمل کر رہا ہوتا ہے اور جتنی دیر میں اس کی بیوی خریداری مکمل کرتی ہے اتنی دیر میں وہ اس کے پہلو میں کھڑا کئی رونگٹے کھڑے کر دینے والے کارنامے سرانجام دے چکا ہوتا ہے۔ مثلاً ایک ہوائی جہاز کا انجن سردی میں کام نہیں کر رہا ہوتا اور فضا میں دور تک کچھ نظر نہیں آ رہا ہوتا اور ایسے میں پیشہ ور پائلٹ طیارہ اڑانے سے انکار کر چکے ہوتے ہیں لیکن والٹر مٹی یکا یک ٹھنڈا انجن چالو کرکے جہاز کو درختوں کی چوٹیوں پر اتارنے میں کامیاب ہو جاتا ہے حالانکہ وہ بیوی کے پہلو میں ایک بازار میں کھڑا ہوتا ہے۔ ایسے بہت سارے واقعات اس کردار کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ آجکل ہم بازار میں بھی کھڑے ہو کر رونگٹے کھڑے کردینے والے واقعات میں رہ کر سنسنی پھیلانے والے واقعات کا شکار رہتے ہیں اور اس رویئے کا المیہ یہ ہے کہ عوام بھی اب پرسکون ہو کر بات سننے کی اور سمجھنے کی عادی نہیں رہی۔ الیکشن سے پہلے ہم نے دیکھا کہ کئی حلقوں کے نتائج وقت سے پہلے جیت یا ہار کی شکل میں بیان کرکے ان نتائج کو چیونگم کی طرح چبایا گیا اور عوام کبھی کسی کی جیت کی خوشی منا ہی رہے ہوتے تھے کہ غم کا منظر دیکھنا پڑ جاتا تھا یہ نتائج مستند اطلاع کے بعد دیئے جا سکتے ہیں مگر انسانی جذبات سے کھیلنے کا یہ عمل الیکشن کے دنوں میں جاری و ساری رہا۔ اب الیکشن کے بعد کی صورتحال ہمارے سامنے ہے۔ عمران خان کی جماعت نے اکثریت حاصل کی۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کا نمبر دوسرا اور تیسرا ہے مذہبی جماعتوں کے رہنما اپنی ناقص کارکردگی کی وجہ سے آﺅٹ ہو چکے اور طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے والے سابق وزیراعظم نوازشریف ، مریم صفدر ان کے شوہر صفدر جیل میں ہیں اور ان سارے معاملات پر تجزیے اور تبصرے جاری و ساری ہیں۔ نوازشریف کیلئے نئے این آر او کی بات کی جا رہی ہے جبکہ عمران خان نے وزیراعظم کا حلف ابھی اٹھانا ہے مگر ان کی حکومت کس طرح کی ہوگی؟ وہ کیا کارکردگی دکھائے گی اور پہلے 100 دن کیسے ہونگے؟ یا پھر چھ ماہ بعد تک یہ حکومت چلے گی یا نہیں اور ایسی ایک ہزار باتیں ہواﺅں میں چلتی چلی جا رہی ہیں۔ یعنی جہازوں کی درختوں پر اتارا جا رہا ہے اور جہازوں کے درختوں پر اترنے سے پہلے کی اور بعد کی مشکلات بیان کی جا رہی ہیں۔ دراصل پاکستان میں بھی یہ ایسا انقلاب آیا ہے جو خون کا خراج لئے بغیر نمودار ہوا ہے۔ فرانس کے انقلاب کی ایک خوبی یہ تھی کہ اس انقلاب نے نوجوانوں کیلئے تصوراتی دنیا کے دروازے کھول دیئے تھے ہمارے پاکستان میں آنے والی تبدیلیوں نے بھی نوجوانوں کیلئے تصورات کے دروازے کھول دیئے ہیں اور ان تصورات کا تعلق ”والٹرمٹی “ کے تصورات جیسا نہیں ہے لہٰذا ان کو پورا کرنا پی ٹی آئی کی حکومت کی ذمہ داری ہوگی.... لیکن اگر انقلاب کے بعد کا چین دیکھیں تو فرسودہ نظام کی پرانی جڑوں میں سے انقلاب کے بعد دس سال میں بہت سے سماجی و معاشی منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچ سکے تھے اور تمام شہریوں کیلئے روزگار کا حصول ممکن بنایا جا سکا تھا جاگیرداری نظام کا خاتمہ کیا گیا تھا اور چھوٹے کسانوں کی خوشحالی کے دور کا آغاز ہوا تھا مگر کسی بھی تبدیلی اور انقلاب کے بعد یہ نہیں ہوتا کہ اگلے دن میں سارا منظر تبدیل ہو جائے اور پھر اس وقت پی ٹی آئی کی حکومت آنے کو اپوزیشن خوشدلی کے ساتھ قبول نہیں کر رہی ہے لہٰذاوہ اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کو اتنے جذباتی انداز میں لیتے ہیں کہ جیسے دھمکی دے رہے ہوں اور پھر کرپشن کیخلاف ہونے والی کارروائیوں پر بظاہر صبر تو کر لیا گیا ہے مگر اسے اس انداز میں نہیں دیکھا جا رہا ہے جیسے کرپشن کا خاتمہ ضروری تھا۔حالانکہ نوزشریف کے پہلے دور حکومت 1990-93ءمیں بھی انہیں تجویز دی گئی تھی اور ایک مستقل احتساب کمیشن قائم کیا جائے جو صدر اور وزیراعظم کی اجازت کے بغیر پبلک عہدیداروں کی بدعنوانی، کرپشن، بداعمالی اور اختیار کے ناجائز استعمال کے الزامات کا از خود نوٹس لینے کا مجاز ہو۔ اس تجویز پر نواز شریف نے کوئی کارروائی نہ کی۔1996ءمیں نوازشریف حزب اختلاف ہیں ۔ تب انہیں احساس ہوا تھا کہ احتساب ہونا چاہئے اور انہوں نے فاروق لغاری کو خط لکھا پھر نہ نوازشریف نے اپنے اگلے دور حکومت میں کچھ کیا اور نہ فاروق لغاری نے کچھ کیا کیونکہ یہ سب جانتے تھے کہ اس حمام میں سارے لوگ ننگے ہیں۔ ان دنوں کچھ لوگوں نے سوال بھی اٹھائے تھے کہ پاکستان میں کب امریکی ججوں جیسا کوئی جج پیدا ہوگا جو کسی طاقتور سیاسی عہدیدار کی عہد شکنی کی علامت کرے گا اور اسے جیل بھیجے گا اور اب پاکستان میں ایسی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں کہ محض غریب عوام ہی نہیں بلکہ بڑوں بڑوں کو حساب دینا پڑ جائے گا لیکن نوازشریف اپنے دور حکومت میں ان معاملات کو سنجیدگی سے دیکھتے تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی مگر اب ملک میں آنے والی انقلابی تبدیلیوں کو بردبار قوم کے افراد کی طرح دیکھنا ہوگا۔ورنہ یہ ہوگا کہ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی بھی منہ دیکھتی رہ جائیں گی اور ملک میں حالات کی خرابی کی انتہا پر مارشل لاءتو نہیں آئے گا مگر ٹیکنوکریٹ حکومت قائم ہو گئی تو آج کے 70‘ 70 سال کے سارے بابے اگلے جہاں جا چکے ہونگے‘ لیکن اقتدار کے ایوانوں میں ان کا آنا ناممکن ہو جائے گا اور ٹیکنوکریٹس اگلے دس سال تک حکومت چلاتے رہیں گے۔ عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد حکومت سازی کی مشکلات پر بات ہو رہی ہے اور اپوزیشن جماعتیں بھی جوڑتوڑ میں مصروف ہیں‘ لیکن عمران خان کے وزیراعظم بننے کے دعوتی کارڈ بانٹنے والے اور سوشل میڈیا پر شیئر کرنےوالے بھی بڑے ستم ظریف ہیں۔ اسی طرح تقریب میں آنےوالے مہمانوں میں جمائما سمیت کئی بھارتی ادکار بھی شامل کر دیئے گئے ہیں اور یہ ساری باتیں حکومت سازی کے پہلے 100 دن یا چھ ماہ کی حکومت کے بعد کیا ہوگا۔ وغیرہ وغیرہ۔ جیسی تمام باتوں سے بڑھ کر خطرناک ہیں کیونکہ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ بازار میں ایکدوسرے کے پہلوﺅں میں کھڑے ہزاروں Walten Milty (والٹن مٹی) خیالوں خوابوں میںرونگٹے کھڑے کر دینے والے کارنامے سرانجا دے رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں نے آپس میں مل کر کوئی اس قسم کے کارنامے مزید سرانجام دیئے تو مولانا حضرات سمیت سارے کے سارے اقتدار سے تو کیا اپوزیشن سے بھی محروم ہو جائیں گے۔ خدا تعالیٰ اس ملک پر اپنا رحم کرے۔ (آمین)

epaper

ای پیپر-دی نیشن