• news
  • image

تعلیم میں عدم مساوات

ایک انگریز نیا نیا پاکستان آیا۔ بازار میں ٹہل رہا تھا کہ اس کی نظر ایک پھل والے کی ریڑھی پرپڑی۔ پاس جاکر اس نے پھل والے سے پوچھا۔ ویل۔۔ یہ کیا ہے؟ پھل والا بولا، جناب یہ آڑو ہے۔ انگریز نے کہا، ہمارے ملک میں اس سے بہت بڑے آڑو ہوتے ہیں۔ یہ تو بہت چھوٹے ہیں، پھر خربوزے کو اشارہ کرکے انگریز نے پوچھا، یہ کیا ہے؟ پھل والا بولا، یہ ہمارے ملک کی خوبانی ہے۔ کچھ ایسے ہی حالات اور مسائل کا سامنا ہمیں بھی کرنا پڑتا ہے۔ جب تک ملک کے ذمہ دار دوسرے لوگ ہوں ہم کہتے ہیں یہ کام نہیں ہوا یہ کام اس طرح نہیں ہونا چاہئے تھا۔ایسے بہت سے تنقیدی جملے مخالفین کی طرف سے آتے رہتے ہیں کام کرنے والوں کو خربوزے ،خربوزوں کی طرح ہی نظر آتے ہیں جب کہ دور بیٹھ کرمفت کی تنقید کرنے والوں یہ خربوزے خوبانی بنا کر پیش کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔ بڑے مسائل بات چیت اور بحث مباحثے میں آسان اور چھوٹے ہی معلوم ہوتے ہیں لیکن جب ان کی ذمہ داری خود اپنے کندھوں پر آن پڑے تو آٹے دال کا بھاو¿ معلوم ہوجاتا ہے۔ سیاست کے کھیل کھیل میں ہم دوسرے بہت سے اہم مسائل کو فراموش کر بیٹھتے ہیں جیسا کہ تعلیم کے کچھ مسائل ایسے ہیں جن پر بار ہا منصوبہ جات تیار کرنے کے باوجود ان کے مکمل حل کی کوئی تدبیر کارگر ثابت نہیں ہوسکی۔ ملک میں خواندگی کی شرح کو اب بھی تسلی بخش تو ہر گز نہیں کہا جاسکتا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار صاحب نے ایک مقدمے کی سماعت کے دوران اہم آبزرویشن دی کہ آئین کے آرٹیکل25-A جو لازمی اور مفت تعلیم کی ضمانت دیتا ہے کیا وہ صرف نمائش کیلئے ہے؟ تعلیم جس کو دنیا بھر میں تبدیلی کا استعارہ سمجھا جاتا ہے، ابھی تک ہمارے ہاں اس کو بہتر نہیں بنایا جاسکا۔ تبدیلی کا عمل شروع ہونے کی توقعات اس کے بغیر کیسے رکھی جاسکتی ہیں۔ بات بنیادی تعلیم تک کی نہیں ہے۔ بنیادی طور پر اگر تعلیم کا حصول کسی قدر آسان بنا دیا گیا ہے تو اعلیٰ تعلیم میں ایسی کوئی حکومتی کارکردگی نظر نہیں آتی کہ امیر وغریب ایک سطح کی متوازن تعلیم برابری کی بنیاد پر حاصل کرسکیں۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے کافی مالی وسائل کا ہونا ضروری ہے اور بدقسمتی سے ہمارے بہت اعلیٰ اور ذہن بچے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مالی وسائل نہ ہونے کے سبب یہ ٹیلنٹ ضائع ہوجاتا ہے۔ وزارت تعلیم کی ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں پچاس لاکھ سے زیادہ بچے جو اپنے بنیادی حق لازمی اور مفت تعلیم سے یکسر محروم ہیں۔ وہ بچے جنہیں سکول تک رسائل مل جاتی ہے۔ ان میں سے تنتیس فیصد پانچویں جماعت تک سکول چھوڑ جاتے ہیں۔ اس ڈراپ آو¿ٹ کی بڑی وجہ بھی مالی وسائل کی کمی ہے غریب والدین بچوں کو اپنے ساتھ کام کاج اور مشقت پر لگانے کے لئے مجبورہوتے ہیں۔ یہی وہ بچے ہیں جو کبھی آپ کو سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں تو کبھی ورکشاپس اور ہوٹلوں پر کام کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اس دوران یہ بچے جسمانی تشدد کا شکار بھی ہوتے ہیں اور اکثر بڑے ہوکر جرائم کی راہ اختیار کرلیتے ہیں۔ مالی وسائل رکھنے والے والدین کے بچے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوجاتے ہیں اور یوں یہ تفریق در تفریق مساوی حقوق کو غصب کرتی چلی جاتی ہے۔ فرانسیسی ماہر عمرانیات Burdriveمعاشرے میں طاقت کے تصور کو مختلف سرمایوں سے واضح کرتا ہے۔ ان سرمایوں میں معاشی سرمایہEconomic Capital، سماجی سرمایہSocial Capital اور ثقافتی سرمایہCultural Capital شامل ہیں۔ بورڈیو کے مطابق یہ تینوں سرمائے ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثلامعاشی سرمائے کے حامل افراد کے بچے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد بہت سے معاشی، معاشرتی اور ثقافتی فائدے حاصل کرتے ہیں۔ یوں معاشرے کی ایلیٹ کلاس کو دوسرے بچوں پر واضح برتری حاصل ہوجاتی ہے۔آج تک پاکستان میں جتنی بھی تعلیمی پالیسیاں ترتیب دی گئیں یا ا±ن پر عمل درآمد کیا گیا۔ بدقسمتی سے کسی تعلیمی پالیسی میں عدم مساوات پر نہ تو زیادہ بحث مباحثہ ہوا اور نہ ہی عملی طور پر اس کے تدارک کیلئے کوئی واضح لائحہ عمل تشکیل پاسکا۔ اب فرق صرف تعلیمی اداروں کے اخراجات کا ہی نہیں بلکہ عام اور خاص اداروں کے نصاب میں بھی ہے۔ امتیازات اداروں کے ناموں میں ہی نہیں بلکہ نصاب، درسی کتب ، عمارت، ماحول اور اساتذہ سب میں ہے۔ عالمی بنک کی2006ء میں شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ”افراد کو اپنی منتخب کردہ زندگی کے حصول کیلئے مساوی مواقع ملنے چاہئیں اور نتائج کے حصول سے انہیں محروم نہیں کرنا چاہئے۔ اگرچہ ملک میں پرائمری اور میٹرک کی سطح تک فری تعلیم کا انتظام موجود ہے۔ لیکن ابھی نئی عمارتوں اور نئے مزید اساتذہ کی اشد ضرورت ہے اور ان کاموں کیلئے مزید فنڈز بھی درکار ہیں۔2009 کی تعلیمی پالیسی میں اگرچہ یہ کہا گیا تھا کہ 2015ءتک فنڈز کی فراہمی جی ڈی پی کا7% ہوجائے گا۔ لیکن ابھی تک جی ڈی پی کا4% بھی تعلیم پر صرف نہیں ہورہا ہے۔ اس وقت پاکستان شرح خواندگی میں بھارت، سری لنکا، نیپال، بھوٹان اور مالدیپ سے بھی پیچھے ہے۔ اس وقت آرٹیکل25-A پر عمل درآمد کی اشد ضرورت ہے ورنہ یہ ٹمٹماتے دیے آہستہ آہستہ بجھنے لگیں گے۔ ویسے بھی نئے پاکستان کیلئے نئی پارٹی کی نہیں نئے اور مضبوط سسٹم کی ضرورت ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن