• news
  • image

شاعر کے تین ستون۔رومانس،انقلاب اور آزادی

جوش ملیح آبادی کی شاعری میں جوش بھی ہے اور خروش بھی ۔شاید اسی نسبت سے ان کے نور نظر جناب سجاد نے بھی اپنا تخلص خروش رکھا تھا۔وہ میرے دوست تھے۔میں جب بھی اسلام آباد میں حضرت نش سے ملنے جاتا تو ان سے گپ شپ رہتی۔وہ اکثر عالم سرمستی میں رہتے۔جوش کا شغل مے ومینا کے لئے شام کا وقت مخصوص تھا۔وہ مے نوشی کے بعد بہکتے نہیں تھے۔کیونکہ وہ عمر خیام کے اس مشورے پر عمل پیرا تھے کہ”کم کم بخور“تھوڑی تھوڑی پیو اور وقفے وقفے سے پیو۔ جبکہ مجاز ،عدم اور اختر شیرانی رندان بلا نوش اور شاعران مدہوش تھے۔مجھے فیض احمد فیض اور احمد فراز کی بھی صحبت نصیب رہی ہے۔ہر دو ر رندان بلاکش تھے مگر شائستگی کا دامن کبھی بھی ہاتھ سے نہ چھوٹا۔علم و دانش کے دلدادہ تھے۔وہ مے سے غرض نشاط نہیں بلکہ یک گونہ بے خودی¿ شب و روز چاہتے تھے جو انہیں عمر بھر میسر رہی۔وظیفہ سے کچھ رقم ملی تو شراب کی بوتلیں اٹھا لائے۔بیوی ناراض ہوئیں،کہا،بدبخت گھر میں کھانے کے لئے کچھ بھی نہیں اور تو شراب کی بوتلیں خرید کر لے آیا ہے۔میرزا غالب نے بڑی سادگی و برجستگی سے جواب دیا۔”بیگم رزق کا وعدہ خدا نے کیا ہے وہ دے گا شراب خود خریدنا پڑتی ہے“۔بات غالب و جوش کی بابت ہے تو یہ اہل نقد و نظر جانتے ہیں کہ غالب فارسی زبان کے بہت بڑے شاعر تھے۔انہیں اپنی فارسی دانی پر رشک تھا،تاجکستان اور ایران میں امیر خسرو،بیدل دہلوی اور علامہ اقبال؛ کا خواص و عوام میں ادبی تعارف ہے لیکن غالب کو ادبی حلقوں میں ابھی تک وہ پذیرائی نہیں ملی جو اس کا حق ہے۔میں نے اس مرتبہ تہران ٹی وی اور کچھ دیگر الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کو تہران اور شیراز میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ غالب کا تعلق چونکہ سبک ہندی سے ہے اور وہ رقیق و ادق افکار کا حامل ہے اس لئے اہل ایران کے متصوفانہ اور جمالیاتی ذوق سے لگا نہیں کھاتا۔میر تقی میر،غالب، سودا، ذوق، انیس، دبیر،اقبال،جوش اور فیض کی شاعری پر فارسیت کے گہرے اثرات ہیں لیکن زبان و بیان میں شیرینی اور چاشنی ہے۔ لغت کی زبان شاعری کی زبان نہیں ہے،ادبیات جدید میں عبدالعزیز خالد کا نام بھی ہے۔ان کے کلام میں عربی و فارسی کی بھرمار ہے۔حدیث خواب،سراب ساحل اور زر داغ دل ان کے شعری مجموعے ہیں۔نوے فی صد کلام بے روح ہے ،لغت کے بکھیروں میں الجھا ہواکہیں رنگ تغزل ہے لغتی شعر سینئے ....
طمع و خوف و لجاجت سے پکارو لیکن
کار طاعت کو بہ اغراض معلل
اب ایک تغزلی شعر ملاحظہ فرمایئے ....
دیکھ کر ہر روئے زیبا کو مچل جاتا ہے دل
موم کی مانند سینے میں پگھل جاتا ہے دل
تلخیاںمیری پسندیدہ کتاب ہے۔ساحر لدھیانوی کا یہ شعری مجموعہ مجھے اس لئے عزیز جاں ہے کیونکہ یہ حزر جاں ہے ۔یہ محبت کی زباں،درد نہاں اور نصاب انساں ہے۔امن و انسانیت کی داستاں اور عدل انصاف کا بیان ہے۔جنگ کے خلاف تیغ ب نیام ہے۔امن کے لئے صدائے عام ہے۔”جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے“شاعر کا پیغام ہے۔خون انسان کی عظمت اس لئے بھی ہے کہ خون آب ارزاں نہیں بلکہ متاع گراں ہے۔”خون پھر خون ہے بہتا ہے تو جم جاتا ہے“۔کسی نے واٹس اپ پرویڈیو بھیجی جس میں چند امریکی سابقہ فوجی اپنے میڈلز نفرت سے زمین پر پھینک کر امریکہ کی عراق سے جارحیت کے خلاف اعلان نفرت کررہے تھے۔ایک سپاہی اپنے کئے ہوئے مظالم اور حال بیان کرکے آبدیدہ تھا اور سامعین اس کی باتیں سن کر شرمسار اور جنگ سے بیزار دکھائی دے رہے تھے۔اس نے امریکی صدر جارج بش کی عراق کے خلاف کیمیکل ہتھیاروں کے بہانے جارحیت کو بے نقاب کیا۔اس نے بتایا کہ کس طرح اس نے ایک بے گناہ سائیکل سوار عراقی نوجوان کو گولی مار کر قتل کیا۔اسی طرح کے کئی قتل و غارت کے واقعات اس نے بیان کئے اور اعلانیہ اپنے جرائم کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ جنگ ایک قابل نفرین اور انسانیت دشمن کا رروائی ہے جس میں مخالف کے قتل کو جائیز قرار دے کر توہین و تذلیل انسانیت کی جاتی ہے۔ ”قتل انساں“پرانعام اور تمغے دیئے جاتے ہیں۔اس امریکی زندہ ضمیر فوجی کے میڈلیز سے ستبردار ہونے پر مجھے (Olive Tree)کے مصنف ممتاز ادیب و دانشور (Oldious Huxley)کے تحریر یاد آگئی جس میں وہ لکھتا ہے کہ فوجیوں کو یہ بتایا جاتا ہے ہمارے سامنے والی فوج ہماری”دشمن“ہے اور ہمیں انہیں”قتل“کرنا ہے۔نہ مارنے والے کو خبر کہ اس نے کسے مارا ہے اور نہ مرنے والے کو خبر کہ اسے کس نے مارا ہے۔جنگ کے شعلے بھڑکانے کی بجائے جنگ کے شعلے بجھانے کا عمل ہی عظمت و خدمت انسانیت ہے۔امریکہ میں ریپبلیکن پارٹی سرمایہ داروں،رجعت و قدامت پرستوں اور مذہبی انتہا پسندوں کی پارٹی ہے۔جارج بش نے 9/11 کے واقعہ کو صلیبی جنگ کا اعادہ قرار دے کر اسلام دشمنی کا ثبوت دیا۔موجودہ امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے بھی اسلام دشمنی کی بدولت یہودیوں کی حمایت اور مذہبی انتہا پسندوں کی حمایت سے سیاسی فتح حاصل کی۔اس کا رویہ تےسری عالمی جنگ کے لئے حالات پیدا کررہا ہے۔12 مئی 2018 کو امریکی ٹی وی سی این این کی میزبان امان پور نے پولٹزر پرائز کے حامل ممتاز کالم نویس (Ronan Farrow)کا انٹرویو لیا جس نے ایک کتاب بعنوان(War on Peace)لکھی ہے جس میں اس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی پر سخت تنقید کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے کو ترک کرکے نہ صرف اصولوں سے انحراف کررہا ہے بلکہ جنگ کے لئے عالمی سطح پر زمین ہموار کررہا ہے ۔اسرائیل کا ہم پیالہ و ہم نوالہ ہے۔اسی طرح شمالی کوریا کے ساتھ بھی مذاکرات کرنے کی بجائے جارحانہ انداز اختےار کےئے ہوئے ہیں۔رونن فیرو نے ڈونلڈ ٹرمپ کی جارحانہ ذہنیت کو بے نقاب کرتے ہوئے امریکی سفارت کاری کو ناکام قرار دیا ہے جو پرامن نہیں بلکہ منافقانہ اور جارحانہ ہے۔ہاجرہ نور احمد زریاب نئی نسل کی نمائندہ شاعرہ ہیں۔وہ ایم اے اردو اور ایم اے انگریزی کے علاوہ ایل ایل بی بھی ہیں۔فارسی زبان کا بھی گہرا مطالعہ کیا ہے جو ان کے کلام میں جھلکتا ہے۔اردو زبان کے جسم میں روح فارسی ہے جس سے اس میں تابندگی و درخشندگی ہے۔میر تقی میر ،مرزا غالب،ذوق،سودا،میرانیس،مرزا دبیر،علامہ اقبال،جوش ملیح آبادی اور فیض احمد فیض کی شاعری میں فارسیت کی شیرینی اور نغمگی نے ان کے کلام کو چار چاند لگادیئے ہیں۔زریاب گوہر نایاب ہے۔زریاب کے والد گرامی نور احمد بھی کہنہ مشق شاعر ہیں۔زریاب بنیادی طور پر غزل کی شاعرہ ہیں،زود گوہیں،ایک اخباری انٹرویو میں کہتی ہیں۔”میری شاعری آورد نہیں آمد ہے“۔دریں چہ شک،زریاب کی شاعری ندی کی طرح بہتی اور گنگناتی ہے۔دل کو موہ لیتی ہے۔کہتی ہیں کہ وہ قدماءمیں میر و غالب اور اقبال و جگر مراد آبادی کی مداح اور جدید شعراءمیں پروین شاکر،احمد فراز اور قیتل شفائی کی گرویدہ ہیں۔اکثر غزلیات سادہ وسلیس ہیں۔رومانیت کے طلسم ہوش ربا کے حصار میں مقید ہیں لیکن سماجی و سیاسی مسائل سے بخوبی باخبر ہیں۔غنائیت و موسیقیت زریاب کی شاعری کا طرہ امتےاز ہیں۔دو شعر ملاحظہ فرمایئے....
یارب دیا ہے حسن تو یہ بھی کمال دے
میں ہنس پڑوں تو پھول بھی خوشبو اچھال دے
کیسا عجیب دوست ہے جب بھی ملوں اسے
میرے ہی سامنے مجھے میری مثال دے
اردو ادب نے خوب ترقی کی۔بھارت میں اب بھی مسلمان بستے ہیں۔سکھوں کی مذہبی زبان پنجابی ہے وہ ہمارے برعکس پنجابی کوگور مکھی رسم الخط میں لکھے ہیں، جو ہمارے لئے بالکل اجنبی تھے۔ گرنتھ پنجابی زبان میں ہے۔ سکھ مذہب کے بانی گورو نانک نے بابا فرید کے کئی اشعار بھی نقل کےئے ہیں۔پنجاب میں مسلمانوں اور سکھوں نے پنجابی زبان و ادبیات کی ترویج کی۔صوفیاءنے پنجاب زبان میں شاعری کی وارث شاہ،سلطان باہو،شاہ حسین،بلھے شاہ،محمد شاہ،میاں محمد بخش قدماءمیں بڑے نام ہیں۔جدید شعراءمیں امریتا پریتم،نسرین انجم بھٹی،خیام قیوم،انور مسعود،سعید آسی،شریف کنجاہی،صوفی تبسم،منیر نیازی ،ڈاکٹر نثار ترابی،دامن،جوگی جہلمی،میر تنہا یوسفی،ڈاکٹر جگر،سجیت پتر اور دھنی رام چرک نام۲ور شعراءہیں۔راقم الحروف کی شاعری کی کتاب ”اڈیکاں“بھی شائع ہوچکی ہے۔پنجابی نثر میں کم لکھا گیا ہے۔محمد ریاض رضا نے اپنی پنجابی افسانوں کی کتاب”لکھوں ہولے لوک“ارسال کی۔اس میں 22 افسانے ہیں۔اپنی کتاب میں وہ لکھتے ہیں۔”ماں بولی تو ودھ کوئی زبان مٹھی نیئں ہوسکدی“۔یعنی مادری زبان سے بڑھ کر کوئی زبان میٹھی نہیں ہوسکتی۔ان افسانوں میںا نہوں نے سماج کی مظلوم عورت کو موضوع بنایا ہے سماجی درد کے ساتھ مزاحیہ رنگ کے افسانے ان کی کہانیاں معاشرے کی تلخ حقیقتوں پرضرب کاری ہیں ،حامد علی ہاشمی کا لکھا دبیاچہ مفصل اور قابل تعریف ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن