• news
  • image

عمران خان اور مسئلہ کشمیر

25 جولائی 2018ءکے عام انتخابات کا انعقاد اور نتائج کے بعد پاکستان کی بڑی پارٹی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان میں بیشتر باتیں درست بھی ہو سکتی ہیں لیکن اس کے باوجود تحریک انصاف نے واضح کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کے پیچھے عمران خان کی 22 سالہ جدوجہد شامل ہے۔ اس دوران عروج و زوال بھی آئے۔ بعض اوقات تحریک استقلال اور اصغر خان کے طعنے بھی برداشت کرنے پڑے۔ بہرحال اپنے، پرائے اور قوم کو ان کی داد دینی پڑے گی۔ پاکستانی عوام بالخصوص نوجوان طبقے نے ان کا ساتھ دیا۔ ان کے چاہنے والوں ، اندرون اور بیرون ممالک سے خوشی ، مسرت اور مبارکباد کے پیغام آ رہے ہیں۔ عمران خان نے ایک بار قوم کو ورلڈ کپ کا تحفہ دیا اور پھر انہوں نے سماجی کاموں میں شاندار کامیابی حاصل کی۔ ساری باتیں اپنی جگہ درست ہیں۔ اب اپنے داعوں اور وعدوں کے معیار پر اترنا پڑے گا۔ انہوں نے اپنی کامیابی کی تقریر میں پوری قوم کا شکریہ ادا کیا۔ واضح کیا کہ وہ مدینے پاک جیسی فلاحی اسلامی ریاست بنائیں گے۔ کسی کے خلاف انتقامی کارروائی نہ کرنے ، اپنے منشور پر عمل کرنے اور احتساب اپنے آپ شروع کرنے ، قانون کی بالا دستی ، کرپشن کا خاتمہ ، کمزوروں کی داد رسی ، ٹیکس کا مﺅثر نظام ، اداروں کی مضبوطی صحت اور تعلیم کا حصول ، انصاف کو یقینی بنانے کا عزم کیا۔ انہوں نے امریکہ سمیت سب سے متوازن تعلقات سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک سے اچھے تعلقات چین سمیت دیگر ہمسائیوں سے بہتر تعلقات کا عزم دہرایا۔ انہوں نے حالیہ دنوں بھارتی میڈیا کے رویے کی بھی مذمت کی ہے۔ کہا کہ بھارت سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں۔ مسئلہ کشمیر ہی ہمارے تعلقات کی بنیاد ہے۔ اور کشمیری عوام نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ لہٰذا بھارت کو ایک قدم آگے بڑھ کر بات چیت کرنی چاہیے۔ ہم بھی مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔ عمران خان کے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بیان پر آل پارٹی حریت کانفرنس کے رہنماءسید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق سمیت سب نے خیر مقدم کیا۔ عمران خان کو شاندار کامیابی پر مبارک دی۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے بیان کو سراہا گیا۔ کہا کہ انہوں نے کشمیریوں کے درد و کرب کو محسوس کیا۔ بھارت کو بھی پاکستان کو مثبت جواب دینا چاہیے۔ مذاکرات سے ہی مسئلہ کشمیر حل کیا جا سکتا ہے۔ آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف آزاد کشمیر کے صدر ، بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور جنرل سیکرٹری اور ممبر کشمیر اسمبلی غلام محی الدین دیوان نے کہا کہ عمران خان کی جیت کشمیریوں کی جیت ہے۔ عمران خان کی کشمیر پر واضح مﺅقف اور بھارت کو مسئلہ کشمیر حل کرنے کا مشورہ اپنی تقریر میں بھارت کو واضح کیا کہ بھارت سے ہمارا اختلاف مسئلہ کشمیر پر ہے۔ اگر بھارت سنجیدہ ہے تو مذاکرات سے حل کرے تا کہ دونوں ممالک کے عوام بھی ترقی کر سکیں۔ امید ہے عمران کی قیادت میں کشمیر آزاد ہو گا۔ پاکستان ایشیاءکا ٹائیگر بنے گا۔ مقبوضہ کشمیر میں ظلم کی داستان دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ جولائی کے مہینے میں ریاستی دہشت گردی کی کارروائیوں سے خواتین سمیت 21 افراد کو شہید کر دیا گیا۔ 40 افراد کو شدید زخمی کیا گیا۔ گھر گھر مہاصروں اور تلاشیوں کے بہانے 50 سے زائد گھر تباہ کر دیئے۔ 200 کے قریب سیاسی کارکنوں اور پر امن شہریوں کو گرفتار کیا گیا۔ کشمیری 70 سال سے لاشیں اٹھا رہے ہیں اور اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ بھارت کا رویہ ہٹ دھرمی ہے۔ نریندر مودی نے اپنی ساری انتخابی مہم میں پاکستان کو ٹارگٹ کر کے ووٹ حاصل کیے۔ بھارت کے اندر سے بھی ریٹائرڈ جنرل ، ججز، دانشور اور سول سوسائٹی نے نریندر مودی کو کئی بار مسئلہ کشمیر کا سیاسی حل نکالنے پر زور دے چکے ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نے بذریعہ ٹیلی فون عمران خان کو کامیابی پر مبارک باد دی۔ عمران خان نے اس کے جواب میں مسئلہ کشمیر سمیت تمام معاملات مذاکرات کے لئے حل کرنے پر زور دیا۔ بھارت کا ماضی دیکھتے ہوئے مثبت رویے کی توقع کم ہے۔ پاکستان مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے درست راستہ اختیار کیا کہ اسمبلی میں بیٹھ کر عوامی مسائل اٹھانے کا عزم کیا۔ دیکھا جائے کہ 1977ءمیں دوبارہ الیکشن کرانے کی ضد اور خطرناک احتجاجی تحریک بالآخر ضیاءالحق کے طویل مارشل لاءکی صورت میں سامنے آئی تھی۔ اور پھر ذوالفقار علی بھٹو کو بھی پھانسی چڑھنا پڑا۔ انتہاءپسندی اور منفی رویے ملک اور سیاسی جماعتوں کو جمہوریت سے دور کر سکتے ہیں۔ عمران خان کو عوام کے معیار پر پورا اترنا چاہیے۔ باتیں کر کے عوام کے دل جیتنا آسان ہے لیکن اپنے وعدوں اور منشور کے مطابق ڈیلیور کرنا مشکل ہوتا ہے۔ ان کو پاکستان کے چاروں صوبوں اور مرکز میں نمائندگی ملی ہے۔ عوام نے اعتماد کیا ہے۔ ماضی کی حکومتوں کی ناکامی اور کامیابیوں کو مد نظر رکھیں۔ ان کے پاس تجربہ کار ٹیم موجود ہے۔ ماحول ساز گار ہے۔ ملک اس سمت درست کرنے اور عام آدمی کی زندگی کو آسان بنانے میں کامیابی ہے۔ وسائل کی کمی کے باوجود اور اپوزیشن پارٹیوں کے تحفظات بھی دور کیے جانے ضروری ہیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن