موسم، بارش اور الیکشن
ایک حکایت ہے کہ ایک بھڑ نے کسی پروانے سے پوچھا کہ یہ عشق، محبت، وفا اور جنون کیا چیز ہے کہ ایک بار دماغ میں سما جائے تو اترنے کا نام نہیں لیتے، پروانے نے کہا تم دو کمرے چھوڑ کر جاﺅ اور دیکھو کہ تیسرے کمرے میں دیا جل رہا ہے۔ بھڑ گیا اور واپس آکر کہا کہ ہاں جل رہا ہے۔ بھنورے نے مسکرا کر کہا بس یہی فرق ہے۔ میں روشنی کی تلاش میں جاتا تو اسے لیکر آتا یا جل کر مر جاتا۔ نئے پاکستان کا جنون تو عمران خان کو بھی ہے اور گزشتہ باتیں سال سے وہ نئے پاکستان کے خواہاں ہیں۔ عمران خان میں اس قدر ولولہ اور جوش ہے کہ ہمیشہ اگر کبھی ہارے بھی تو دوبارہ استقامت کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے اور سیاسی سفر برقرار رکھا۔ عین ممکن ہے کہ وہ اپنے ارادوں اور حوصلوں میں کامیاب ہو جائیں۔ انہوں نے مدینہ جیسی فلاحی ریاست کے قیام کی خواہش کا بھی اظہار کردیا۔ تاریخ کے صفحوں کا مطالعہ کیا جائے تو در حقیقت وہ فلاحی ریاست حکمرانوں کیلئے کانٹوں کا بستر تھی۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا تھا کہ تمہارا قوی تر شخص میرے لئے کمزور ہے جب تک میں اس سے غریب کا حق نہ لے لوں اور تمہارا کمزور ترین شخص میرے لئے مضبوط ہے یہاں تک کہ میں اس کا حق نہ دلوا دوں۔ جب حضرت ابوبکر ؓ نے لشکر اُسامہ کو روانہ کیا تو آپ کو بتایا گیا کہ دشمن آپکی تاک میں ہیں۔ آپ ؓ کے ارادوں کو سبوتاژ کرنے کیلئے کسی وقت بھی مدینہ پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔ اس وقت آپ ؓ نے بے پناہ عزم کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ”ابو قحاضہ کے بیٹے کی یہ مجال نہیں کہ جس لشکر کی روانگی کا حکم آنحضور دے چکے ہیں۔ میں انکی وفات کے بعد وہ لشکر نہ روانہ کروں۔ مدینہ کی فلاحی ریاست کی بنیاد، حقوق العباد، بنیادی حقوق، عدل انصاف، رواداری پر مبنی اور امتیازات سے پاک ریاست تھی۔ آج بھی ہمیں اسی ولولے کی ضرورت ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں لیکن جو حکومتیں مندرجہ بالا بنیادی اصولوں کو ساتھ لے کر چلتی ہیں انہیں زوال نہیں ملتا۔ تاریخ کے صفحوں پر وہ امر ہو جاتی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ پر بھی اگر ہم نظر ڈالیں تو عوام نے ہر آنے والی حکومتوں سے توقعات وابستہ کر لیں لیکن جب انکی توقعات پوری نہ ہوئیں۔ عوام میں مایوسی اور بددلی پھیلتی چلی گئی۔ عمران خان کو عوام نے بطور وزیراعظم منتخب کیا ہے اور ان سے بے شمار امیدیں وابستہ ہیں۔ امید واثق ہے کہ وہ امیدیں بہر آئیں گی ہم اگر ذاتی مفادات کی بجائے پاکستان کی بقا اور سالمیت کو مدنظر رکھیں تو یقیناً آپس کے اختلافات مٹا کر نئے پاکستان کی بنیاد رکھ سکتے ہیں ۔ ایک فلاحی ریاست میں حکمرانی کے اصول کیا ہیں؟ اسکا جواب کچھ اس طرح دیا جا سکتا ہے کہ ایک بالک نے اپنے گرو سے پوچھا کہ آپ مجھے بتائیں کہ حکمرانی کے کیا اصول ہیں۔ گرو نے بالک کو کہا کہ یہ تیرے کام کی باتیں نہیں ہیں۔ بالک مصر رہا، گرو نے اسے ایک والی کے پاس بھیج دیا۔ والی نے کہا کہ اے بالک آج کا دن تم میری سلطنت میں قیام کرو اور کل سارا دن تم میری سلطنت کی سیر کرنا، تمہارے ہاتھ میں دودھ کا پیالہ ہوگا۔ خبردار ایک قطرہ بھی نیچے نہ گرنے پائے ورنہ میرے جلاد تمہارا سر قلم کر دینگے، جب شام کو بالک واپس آیا تو والی نے سوال کیا کہ اے سالک دن بھر کی سیر کیسی رہی۔ بالک نے کہا کہ میں کیا خاک سیر کرتا سارا دن مجھے یہی فکر رہی کہ کہیں قطرہ نیچے نہ گر جائے اور جان سے جاﺅں۔ والی نے کہا کہ سلطنت کی نگہداشت بھی دودھ کے پیالے کی حفاظت کی مانند ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ عوام کے حقوق و فرائض، غربت کا خاتمہ، بیروزگاری کا قلع قمع اور امن کا قیام جیسے محرکات اگر ہمارے منشور میں شامل ہو جاتے تو آج پاکستان کی تاریخ بالکل مختلف ہوتی۔ حضرت واصف علی واصف نے فرمایا تھا کہ پاکستان کا نور ہے اور نور کو زوال نہیں اگر ہم واقعی پاکستان کو اس عروج پر لے جانا چاہتے ہیں جو کہ ہم سب کیلئے قابل فخر ہو تو ہمیں اپنے دلوں کو تبدیل کرنا ہوگا۔ ایک مغربی مورخ کنفیوشس لکھتا ہے کہ اگر حکمران یا سلطان چاہئیں کہ مملکت کو یکسر تبدیل کرکے ان اصولوں کو رائج کیا جائے جسکے تحت لوگ آزادی کا سانس لے سکیں گے تو سب سے پہلے حکمران طبقے کو اپنے دل تبدیل کرنے ہونگے۔ ڈاکٹر سہیل احمد خان اسکو ماہیت قلبی سے تعبیر کرتے ہوئے اعلیٰ اخلاقی اقدار پر زور دیتے ہیں۔ ایک ادیب نے لکھا کہ وہ چین کے دورے پر گئے اور اسی دکان میں گئے جہاں ریشم تیار ہوتا تھا۔ دکان کے وسط میں ایک خاتون سوتی کپڑے پہن کر بیٹھی ہوتی تھی۔ انہوں نے اسے خاتون سے پوچھا کہ آپکے ارد گرد ریشم بکھرا ہے اور آپ عام سے کپڑوں میں، چینی خاتون نے جواب دیا کہ جب تک میرا ملک ریشم پہننے کے قابل نہیں ہو جاتا میں ریشم نہیں پہنوں گی۔ یہ ہے ماہیت قلبی، ذہن، خیالات اور سوچ کی تبدیلی، شاید یہ ہی تبدیلی عمران خان لانا چاہتے ہیں۔ اپنے پہلے خطاب میں بھی عمران خان نے ان باتوں کا اعادہ کیا ہے۔ بارش ، بادل اور موسم تو ایک خوشگوار تبدیلی کا پیش خیمہ ہوتے ہیں۔ بارش، بادل اور گیلے موسم میں ہونیوالے الیکشن کیا خوشگوار تبدیلی لائیں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ تاہم عوام کی توقعات نئی حکومت سے بہت زیادہ ہیں۔