حکومت سازی میں مشکلات!
انتخابات کی تکمیل کے ساتھ ہی نیا پنڈورا باکس کھل گیا، ہارنے والوں نے دھاندلی کا واویلا شروع کر دیا۔ یہ شور کل کی حکمران جماعت اور اسکے اتحادیوںکی جانب سے مچایا جا رہا ہے ، جنہیں حالیہ انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا، 25جولائی کے انتخابات کے بعد سیاسی جماعتیں اور تجزیہ نگار واضع طور پر دو دھڑوں میں منقسم ہیں، اگر ایک دھڑا انتخابات کو ماضی کی نسبت شفاف کہہ رہا ہے تو دوسرا انہیں دھاندلی زدہ قرار دے رہا ہے بلکہ تاریخ کی بد ترین دھاندلی، ماضی کی نسبت یہ انتخابات، نظریات یا منشور کی بنیاد پر نہیں بلکہ پراپیگنڈہ اور خود ساختہ بیانیوں پر لڑے گئے،انتخابی شیڈول آنے سے پہلے ہی قوم دو دھڑوں میں تقسیم ہو چکی تھی، میڈیاچینلز اور تجزیہ نگاربھی دو دھڑوں میںبٹ چکے تھے۔ ایک وہ جوکل کی حکومتی پارٹیوں ، نون لیگ ، اور پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کے موقف کو نہ صرف درست تسلیم کرتا تھا بلکہ اسٹبلشمنٹ سے محاذ آرائی اور حد سے بڑھتے ہوئے اختلافات،قبل از انتخابات خلائی مخلوق کی مداخلت یا ایک مخصوص جماعت کی ضرورت سے زیادہ طرفداری کا بیانیہ، عدالتی ویکٹم ازم ، انڈیا دوستی کے حوالے سے عسکری اداروں کی ناراضی جیسے بیانیہ کو لےکر اس کے دفاع کی کوشش میںتھا تو دوسری جانب کل کی اپوزیشن تحریک انصاف اور اس کی حمایتی جماعتیںکو(جو گنتی میں کم ہیں)کرپشن کے خلاف جدوجہد، عدالتوں اور عسکری اداروں سے محاذ آرائی کی مخالف اور وطن دشمن بیانیہ کے خلاف موقف اپنانے پرعوام کی ایک واضع اکثریت کی حمایت حاصل رہی۔
انتخابات کی رات جب نتائج آنا شروع ہوئے تو بہت سی پارٹیوںاور تجزیہ نگاروں نے اسے توقع کے عین مطابق اور بہت سوں نے توقعات کے بالکل برعکس قرار دیا، میں نے گذشتہ کالم میں عرض کی تھی کہ ، تمام سیاسی جماعتیںاپنی اپنی جیت کے لئے سو فی صد پُر اُمید ہیں لیکن سبھی زمینی حقائق کو یکسر نظر اندازکر رہی ہیں‘ انتخابی مہم کے دوران ملک کے گوشے گوشے سے آمدہ اطلاعات سے عوام یا ووٹرز کے تیور کا اندازہ ہونے لگا تھا جس نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی باراپنے سابق منتخب نمائندوں سے سوال کرنے اور ان کا محاسبہ کرنے کی جرا¿ت و جسارت کر کے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی۔ بد قسمتی سے، جیت کے زعم میں کسی جماعت نے بھی عوامی غصے کو بھانپنے یا زمینی حقائق کوخاطر میں لانے کی پرواہ نہیں کی،سب کی یہ کوشش رہی کہ اپنے مخالفین کو اسٹبلشمنٹ کی پیداوار کہنے کے بیانیے سے عوام ان کی بات مان کر انہیں پذیرائی دیں گے ،لیکن ایسا نہیں ہوا۔ سب سے بڑھ کر اگر ان کے اسٹبلشمنٹ یا خلائی مخلوق کے بیانیے کی عملاً کوئی حقیقت تھی بھی تو کیا خلائی مخلوق پھر بھی ان سے صرفِ نظر کرتی؟پاکستان کی تاریخ میں اب تک ہونے والے تمام انتخابات کو (ماسوائے 70 کے) دھاندلی زدہ قرار دیا گیا77کے انتخابات کے نتائج کے خلاف پی این اے کی تحریک اور 2013کے انتخاب پر 120دن کا دھرنا کسے بھولا ہے؟ 25جولائی کی رات بھی گیارہ بجے تک کے نتائج کو مدنظر رکھتے ہوئے ( ابھی یہ نتائج نہ تو حتمی تھے اور نہ ہی مکمل)نون لیگ کے صدرشہباز شریف نے پریس کانفرنس میں انتخابات کے نتائج کو یکسرمسترد کرتے ہوئے کہاکہ ’ انتخابات میں اس پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے کہ میرے جیسا شخص بھی بلبلا اُٹھا ہے‘، انہوں نے نتائج تسلیم نہ کرنے اور ان کےخلاف احتجاج کا اعلان کردیا، کچھ ہی دیر بعد الیکشن کمشن کا ’آر ٹی ایس‘( رزلٹ ٹرانسمشن سسٹم) کوئی چار ساڑھے چار گھنٹے کےلئے بیٹھ کیا ،جس پر سندھ کے سابق گورنرمحمد زبیر نے پھبتی کسی کہ ، سسٹم بیٹھا یا بٹھایا گیا؟ حالانکہ کمشن کے سیکرٹری نے اس غلطی کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس پر معذرت بھی کی، بلکہ چار گھنٹے بعد خود چیف الیکشن کمشنر کو میڈیا پر آ کر معذرت کرنا پڑی، رزلٹ کو نہ ماننے والی جماعتوں نے بھی اس پر نکتہ اعتراض اُٹھایا اور مطالبہ کیا ہے کہ اس حساس مسئلے کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ الیکشن کو مسترد کر کے نئے انتخابات کا مطالبہ، احتجاجاً حلف نہ اُٹھانے کا فیصلہ، پارلیمنٹ کا بائیکاٹ سب وقتی گیدڑ بھبھکیاں ثابت ہوئیں ، اے پی سی آخر کار اسمبلی میں بھر پور اپوزیشن کرنے پر متفق ہو گئی، دوسری طرف پنجاب میں ہر قیمت پر حکومت بنانے کااعلان اس وقت دھرا رہ گیا جب آزاد ارکان نے متوقع حکمرانوں کی چھتری کی جانب اُڑان بھر لئی ، نوں لیگ نے منتخب نمائندوں کا اجلاس بلایا گیا تو ایک اخباری (دی نیوز)اطلاع کے مطابق بیس سے زائدارکان اجلاس سے غیر حاضر رہے۔پچھلے کالم کااختتام اس جملے پر ہواتھا کہ’ حکومت کوئی بھی بنائے اپوزیشن یقینا ًطاقتور ہو گی‘۔ اب یہ صورت یقینی ہو تی جا رہی ہے ، گذشتہ روز اے پی سی کا اجلاس ہوا جس کے مشترکہ اعلامیہ میں بھر پور اپوزیشن کرنے کا عندیہ دیا گیا۔ سپیکر، ڈپٹی سپیکر اور وزیر اعظم کے عہدے کے لئے مشترکہ اُمیدوار لانے کا اعلان ہوا۔ اِسے جمہوریت کےلئے اچھی شروعات سمجھنا چاہیے کیونکہ گذشتہ دو ادوار میں ’فرینڈلی اپوزیشن‘ کا طعنہ سُنتے گزرے۔ پیپلز پارٹی حکومت سازی کا دعوی کرتی کرتی اپوزیشن سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی ۔ کامیابی کے باوجود عمران خان مشکل میںہیں ۔ انہیں قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت ثابت کرنے کےلئے پاپڑ بیلنے پڑ رہے ہیں، حکومت سازی میں آزاد اراکین کا ’رول‘فیصلہ کن ہوتا ہے جب حسب ِ سابق آزاد پنچھیوں نے یکے بعد دیگرے عمران خان کی جانب پرواز شروع کی تو ان کی مشکلات میں کچھ کمی آئی، ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے کہ آزاد اراکین حکومتی پارٹی میں شمولیت کو ترجیح دیتے ہیں۔ق لیگ سے انہیں سپیکر شپ مع دو صوبائی اور دو وفاقی وزارتوں کے خاصا مہنگا سودا کرنا پڑا۔ ذاتی انا کی وجہ سے وہ نون لیگ کو پہلے ہی انکار کر چکی تھی ،مگرنیب زدہ پرویز الٰہی کو سپیکر کے عہدے کی پیش کش چہ معنی؟ دوسری طرف ایم کیو ایم کراچی میں پٹنے کے بعد اپنی ساکھ بچانے کےلئے حکومتی اتحادسے ملنے کو تیار ہے،اوربی اے پی بھی،ادھر تحریک انصاف کے پی اور پنجاب میں حکومت سازی کے اعلان کے باوجود ابھی تک ان دو صوبوں کے چیف منسٹر کے ناموں کا اعلان نہیں کر پائی ،تاخیر کا سب کچھ بھی ہوتاہم مشکلات سے سب واقف ہیں، بالخصوص شاہ محمود کی صوبائی سیٹ پر شکست تو کچھ اور کہانی سنا رہی ہے ورنہ ان سے مضبوط اُمیدوار کون ہو سکتاتھا؟نیب زدہ علیم خان لاکھ مضبوط امیدوار ہوں لیکن عمران کا یہ موقف کہ’ احتساب مجھ سے شروع ہو گا، میرے کسی وزیر پر الزام ہو گا تو وہ وزارت سے فارغ، بے گناہ ثابت ہو تو اپنے منصب پر واپس آ جائیگا‘،علیم خان کو نیب کی جانب سے بلاوا،اورآمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں 25 سوالوں پر مشتمل سوال نامہ جاری ہو چکا،نتیجہ کیا ہوتا ہے اس کا سب کو انتظار ہے جوبر خلاف بھی ہو سکتا ہے، ایسے میں ان کی نامزدگی کا کیا تاثر ہو گا؟ اس پر غالب کا شعریاد آتا ہے کہ ....
ایماں مجھے روکے ہے توکھنچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے، کلیسا میرے آگے