بلاول بھٹو امید کی کرن
ہم کسی تعصب کا شکار نہیں ہیں۔ ہماری منزل پاکستان ہے۔ محبت ، سوچ، عشق سب کچھ پاکستان ہی ہے۔ نئے دور میں روشن خیال، نئی تعلیم سے آراستہ شعلہ بیان لیڈر شپ ہماری قومی ضرورت بھی ہے اور امید بھی۔ مریم نواز، جیل میں ہیں۔ پاکستان کے لئے ایک حوصلہ مند لیڈر کی بصورت مریم پرورش ہو رہی ہے۔ ایک امید کی کرن بلاول بھٹو بھی ہیں۔ کالی بدلیوں کی اوٹ سے ایک سحر انگیز لیڈر طلوع رہا ہے۔ الیکشن 2018ءکے آخری دنوں میں مہم چلا کر بلاول بھٹو نے سیاست کے میدان میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ بھٹو شہید، بے نظیر شہید کے بعد بلاول میں وہ سحر اور کشش ہے کہ وہ عوام کو اپنی جانب راغب اور متوجہ کرسکتے ہیں۔ بلاول 2018ءکی انتخابی مہم کا انمول تحفہ ہیں۔ پیپلزپارٹی ایک وفاقی جمہوری سیاسی جماعت ہے اوربھٹواور بے نظیر دور میں پاکستان کی حکمران رہی ہے، اب توقع پیدا ہوگئی ہے کہ بلاول بھٹو اپنی محنت اور جدوجہد سے پاکستانی سیاست میں وہ مقام بنا لیں گے۔ جہاں وہ غیر متنازعہ قومی لیڈر بن سکتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم سے سرفراز بلاول نے انتخابی مہم کے دوران نے جونقش چھوڑے ہیں وہ احسن بھی ہیں اور قابل صد تعریف بھی۔ بلاول سنجیدہ ہیں اور بہرصورت جیلوں میں بھی اپنے وقار اور متانت کو برقرار رکھتے ہیں۔ وہ کسی حالت میں مستقل نہیں ہوتے اور بہادری سے صورتحال کا مقابلہ کرتے ہیں انتخابی مہم کے دوران پہلی بار بلاول بھٹو لیاری گئے تو انہیں مختلف صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ خاص بات یہ ہے کہ مشتعل افراد میں گھرے بلاول کے چہرے پر خوف یا غصے کے کوئی تاثرات موجود نہیں تھے۔ لیاری 1970ءسے پہلی بار پی پی کو داغ مفارقت دے گیا ہے، مگر بلاول نے کہا ہے کہ لیاری والے میرے لاڈلے ہیں اور میں لیاری کی خدمت کرتا رہوں گا۔ یہی ایک سیاستدان کا عزم و ہمت اور حوصلہ ہوتا ہے۔ بلاول بھٹو لیاری کی نشست ہار گئے تو کیا ہوا۔ ایک الیکشن میں بے نظیر بھٹو پنجاب سے ساری نشستیں ہار گئی تھیں اور انہیںسندھ سے ہی چند نشستیں حاصل ہو سکیں۔ مگر بے نظیر نے رزلٹ کو قبول کیا اور اپنی محنت سے پورے پاکستان کی سیاست میں پارٹی کے رول کو بحال کیا ۔یہی سیاستدان کا کرشمہ ہوتا ہے۔ بلاول بھٹوایک بات یاد رکھیں کہ سیاست اور نفسیات کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ وہ کسی علاقے کے دورے سے قبل وہاں عوام کے نفسیاتی کیفیت کا مطالعہ کرائیں، ان کے کیا مسائل اور ایشوز ہیں۔ تھنک کی رپورٹ کو اہمیت دیں بھٹو صاحب ایک عجیب بات کہتے تھے کہ لیڈر کا کام ہے کہ وہ سب سے مشورہ کرے مگر کر ے وہ جس کے لئے اس کا ذہن فیصلہ کرے۔ بھٹو صاحب نے 1977ءکے الیکشن کے حوالے سے مشوروں کو قبول کیا اور حالات کے بھنور میں پھنستے چلے گئے۔ سندھ میں پی پی کی مقبولیت جوں کی توں ہے۔ پنجاب میں وہ عجلت سے کام نہ لیں ہمت، صبر اور حوصلے سے اپنی جڑیں مضبوط کریں۔ ضروری نہیں ہے کہ قومی سیاست میں صرف جناب عمران خان، جناب نوازشریف، مریم نواز یہی فعال اور متحرک ہوں، بلاول بھٹو آخر کیوں نہ ہوں؟بلاول بھٹو پاکستانی نیشنل ازم کے علمبردار ہیں وہ اردو بہت اچھی بولنے لگے ہیں۔ آج کے بلاول میں بیک وقت ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر کی تصویر بھی نظر آتی ہے یہ اہم بات ہے کہ بلاول بھٹو اس کے ساتھ خود بھی جداگانہ شناخت بنائیں ان کی جرات اور حوصلہ قابل ستائش ہے۔
ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ بلاول بھٹو قائداعظم کی تقریروں اور اقبال کی شاعری کا خصوصی مطالعہ فرمائیں۔ بے نظیر اور اس سے پہلے بھٹو بہت مطالعہ کرتے تھے۔ جناب آصف زرداری اپنے مزاج کی بناءپر زیادہ مطالعے کا ذوق نہیں رکھتے تھے۔ کتابیں پڑھیں گے تو بلاول کی اہلیت صلاحیت اور معلومات میں اضافہ ہو گا وہ بھی بے پناہ مشاہدہ اور تجربہ کتابوں سے حاصل کر لیں گے۔ ممکن ہے کہ سندھ میں پی پی کے بعض لوگ انہیں اقبال سے دور رکھنے کے شعوری کوشش کریں۔ مگر بلاول یہ غلطی ہرگز نہ کریں۔ پنجاب کے بغیر بھٹو صاحب کو اقتدار مل سکتا تھا نہ بے نظیر کو....چند دنوں بعد بے نظیر خود بھی اس حوالے سے نواز شریف کی مقبولیت میں اضافے کا باعث بن گئی تھیں۔ مگر بے نظیر عظیم لیڈر تھیں۔ وہ بہت پڑھتی تھیں۔ ہم نے پانچ صفحے کا خط لکھا کہ پنجاب کے بغیر پاکستان کی سیاست کیسے ممکن ہے؟ بے نظیر نے درست سمت کا تعین کر لیا۔ بلاول وزیر اعظم پاکستان بنیں گے مگر یہ راستہ پنجاب سے ہو کر آگے جاتا ہے۔ بھٹو صاحب کے دنوں میں ایک غلطی یہ ہوئی کہ سندھ سے پیپلز پارٹی کے رہنماﺅں نے انہیں سندھی نیشنلسٹ لیڈر کے طور پر پیش کیا۔ اس بناءپر سندھ کے مہاجر بھٹو کے خلاف ہوتے گئے....اگر آج کا کراچی بھٹو کی پھانسی کے دوران پی پی کا حامی ہوتا تو صورتحال یکسر بدل جاتی ، تاریخ بدل جاتی۔ اُمید ہے کہ بلاول بھٹو اس صورتحال کا Scientific جائزہ لیں گے۔ سندھی اور مہاجر متحارب ہرگز نہیں ہیں۔ یہ ایک ہو گئے سیاسی طور پر سندھ کی قسمت بھی بدل جائے گی اور پی پی کی بھی....مولا بخش چانڈیو اس معاملے پر بہتر رپورٹ تیار کر کے بلاول صاحب کو دے سکتے ہیں۔ بلاضرورت تنگ نظری کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ تقریروں میں بلاول بھٹو بہت پراعتماد ہوتے ہیں۔ وہ گالیاں نہیں دیتے۔ غیر مہذب زبان اور الفاظ سے ہر صورت میں گریز کرتے ہیں۔ اب انہوں نے لکھی ہوئی تقریر پڑھنا بند کر دی ہے۔ الیکشن کے بعد 27 جولائی کی شام بلاول بھٹو نے پریس کانفرنس کی۔ وہ ”بھٹو“ نظر آئے۔ وہ انگریزی بھٹو صاحب کے لہجے میں بولتے ہیں۔ بلاول کو اقتدار کی جلدی نہیں ہے....وہ مشکل پسند ہیں، سہولت پسند نہیں ہیں....
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
بلاول بھٹو لیاری سے کیوں ناکام ہوئے؟ کیا وہ Urdu speaking عوام کے محبوب رہنما بن سکتے ہیں؟
ہم اگلے کالموں میں اس حوالے سے لکھیں گے۔ ضرور....! ہمیں یقین ہے کہ بلاول بھٹو کی صورت میں قوم کو ایک نوجوان، فعال، متحرک، شعلہ بیان ”اپوزیشن لیڈر“ مل گیا ہے۔ یہی جمہوریت کا حُسن ہے۔ یہ پی پی کی غلطی ہو گی کہ وہ بلاول کے علاوہ کسی اور کو قومی اسمبلی میں اپنا لیڈر بنائے۔ اچھے مذاکرات کریں تو مسلم لیگ (ن) بھی بلاول کواپوزیشن لیڈر بنانے پر آمادہ ہوسکتی ہے۔ بلاول اعتبار دلائیں تو اُنہیں یہ منصب مل سکتا ہے۔ بلاول بھٹو کامسکن اب زیادہ تر اسلام آباد ہو گا....یہاں سے وہ پنجاب میں اپنا سیاسی کام بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔ پنجاب میں پہلے نئی تنظیم بنائیں ، پھر اسے فعال بنائیں۔ پھر اسے سیاسی کام کرنے کی تربیت دیں۔ بڑے اخبارات خواہ انگریزی ہوں یا اردو ان کے روزانہ مطالعے کو ترجیح دیں مخالفت سے بالکل نہ گھبرائیں....اقبال نے کہا تھا
تندی¿ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لئے
ہمارا خیال ہے کہ ایک بہتر مستقبل بلاول بھٹو کا انتظار کر رہا ہے۔....عشق بھی ضروری ہے جو جسم میں انرجی دوڑا دیتاہے۔ ........
تم نہ مانو مگر حقیقت ہے
عشق انسانی کی ضرورت ہے
خود اقبال نے بھی کہا تھا
عشق ہے نورِ حیات
عشق ہے نارِ حیات
عشق کی مضراب سے ....بلاول کےلئے ڈھیر ساری
نغمہ¿ تارِ حیات
دُعائیں اور نیک خواہشات