این سی اے طالب علم قطب کے قتل کو مذہبی رنگ دینے کی کوششیں‘ نامزد ملزم بدستور آزاد
لاہور (میاں علی افضل سے ) نیشنل کالج آف آرٹس کے سٹوڈنٹ کو قتل کرنیوالے ملزموں کو بچانے اور اصل ملزموں تک پہنچنے سے روکنے کے لئے معاملے کو مذہبی رنگ دینے کی کوششیں جاری ہیں۔ مقتول کی سوشل میڈیا پر کردار کشی کی مہم چلانے والے اس واردات کے مرکزی ملزموں میں شامل ہونے کا امکان ہے، کئی روز بعد بھی ایف آئی آر میں نامزد ملزموں کی عدم گرفتاری جبکہ ایک ملزم کی گرفتاری کو ظاہر نہ کرنا، ایف آئی آر میں تیسرے شخص کو نامزد نہ کرنے سمیت قتل کے ملزم کو پاگل اور نشئی قرار دینے کے اقدامات نے کئی سوالیہ نشان کھڑے کر دئیے ہیں۔ مقتول کے کالج پرنسپل، اساتذہ نے قطب رند کے خلاف تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے قطب کے حق میں گواہی دیدی، بظاہر مالک مکان اور اس کا بھائی مہرے نظر آ رہے ہیں۔ مقتول کے اہلخانہ کا اصرار ہے موقع پر موجود تیسرا شخص ہی اصل قصور وار ہے جسے مکمل طور پر گمنام رکھا گیا، ہو سکتا ہے کالج کے کسی سٹوڈنٹ نے کسی جیلسی یا کسی اور وجہ سے قتل کرایا ہے اور یہ انتہائی بااثر معلوم ہوتا ہے، انصاف کے لئے دربدر پھر رہے ہیں، پولیس کا کہنا ہے کرائے کے لین دین پر لڑائی ہوئی جبکہ حالات و واقعات بتا رہے ہیں حقائق کچھ اور ہی ہیں، معلوم ہوا ہے گوٹھ حاجی نہال خاں رند تحصیل، ضلع جیکب آباد سندھ کے غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والا قطب علی رند دل میں آرٹسٹ بننے کا شوق لئے لاہور پہنچا اور نیشنل کالج آف آرٹس میں 4سالہ فائن آرٹس پرنٹنگ میں داخلہ لیا اور کامیابی کیساتھ اپنی تعلیم مکمل کی اس کا شمار بہترین طلباءمیں ہوتا تھا۔ قطب علی رند کئی سال سے تھانہ ساندہ کے علاقہ پریم نگر راج گڑھ میں وقاص نامی شخص کے گھر میں اوپر والی منزل میں کرائے پر رہتا تھا اور ہر ماہ 6ہزار روپے کرایہ ادا کرتا تھا 4سال یہاں رہائش کے دوران نہ تو اس کا کبھی مالک مکان سے جھگڑا ہوا اور نہ ہی کوئی توتکرار ہوئی لیکن 17جولائی کے روز جب یہ آبائی علاقہ جیکب آباد سے لاہور آیا تو تھوڑی دیر بعد اس کے والد گل بیگ ،چچا زاد بھائی فاروق اور چھوٹے بھائی محب علی کی موجودگی میں مالک مکان وقاص اس کا بھائی احسن علی اور ایک نامعلوم شخص بالائی منزل پر پہنچے اور قطب کو کمرے سے باہر بلوایا قطب کے باہر آتے ہی ملزموں نے کمرے کو باہر سے کنڈی لگا دی اور راڈ سے قطب کو تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیا، تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ملزموں نے 32سالہ قطب کو دوسری منزل سے نیچے پھینک دیا جس سے وہ شدید زخمی ہو گیا اور ہسپتال لیجاتے ہوئے دم توڑ گیا۔ اطلاع ملنے پر پولیس موقع پر پہنچی اور مقتول کے والد گل بیگ کی درخواست پر مقدمہ درج کر لیا مقدمہ میں مقتول قطب کے والد گل بیگ کی جانب سے نامعلوم افراد کی موجودگی کی درخواست کے باوجود اس کا ذکر ایف آئی آر میں نہیں کیا گیا جبکہ مقدمہ کے اندراج کے 16روز گزرنے کے بعد بھی ملزموں کو گرفتار نہیں کیا جا سکا اور اچانک مقتول کیخلاف سوشل میڈیا پر مذہبی بے حرمتی کی مہم شروع کر دی گئی۔ انچارج انوسٹی گیشن تھانہ ساندہ میاں عارف کا کہنا ہے قتل کرنیوالا ملزم احسن علی نے قطب کو کرایہ اس کے بڑے بھائی وقاص کو دینے پر قتل کیا۔ میاں عارف نے بتایا ملزم کا ذہنی توازن درست نہیں جبکہ حقائق بتا رہے ہیں اس بات پر جھگڑا ہوتا تو احسن اپنے بھائی وقاص سے لڑائی کرتا کہ اس نے کرایہ کیوں لیا اور کرایہ اپنے بھائی سے واپس مانگتا اور کبھی بھی اپنے بھائی کے ہمراہ قطب سے جھگڑا کرنے نہ آتا ایک اور حقیقت یہ بھی اگر انچارج انوسٹی گیشن کی بات سچ ہے تو وقاص اپنے بھائی سے ضرور لڑائی کرتا کہ قطب نے کرایہ دے دیا ہے اس سے جھگڑا نہ کرو۔ لیکن وہ اپنے بھائی کے ہمراہ جھگڑا کرنے آیا انچارج انوسٹی گیشن کا یہ بھی کہنا ہے نشئی احسن علی نے قطب کو دکھا دیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے 3افراد نے دھکا دیا اور پلاننگ کے تحت نشئی کو سامنے لایا گیا ہے دوسری جانب کیس کی تفتیش کرنے والے تفتیشی غلام مرتضیٰ کا کہنا ہے قاتل احسن علی کا ذہنی توازن ٹھیک ہے یہ بیان انچارج انوسٹی گیشن میاں عارف کے بیان کی تردید کر رہا ہے تفتیشی غلام مرتضیٰ کا کہنا ہے 16روز میں صرف احسن علی کو گرفتار کیا جا سکا جبکہ ذرائع کنفرم کر رہے ہیں کہ وقاص بھی پولیس کی حراست میں ہے جس کی گرفتاری کو ظاہر نہیں کیا جا رہا۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے مرکزی ملزم پیچھے بیٹھا ہے جس کا واردات پر موجودگی کے باوجود مقدمہ میں نام بھی نہیں آیا وہ ایک جانب مذہب کی آڑ میں مقتول کی کردار کشی کر رہا ہے اور دوسری جانب ملزموں کو ہیرو بنا کر پیش کر رہا ہے اور مقدمہ کی پیروی کرنیوالے مقتول کے اہلخانہ کو روکنے کے لئے ان پر شدید ذہنی دباﺅ ڈال رہا ہے اس حوالے سے مقتول کے والد گل بیگ کا کہنا ہے قتل کا اصل ملزم ابھی سامنے نہیں آیا یہ ہی اصل قاتل ہے جس نے قتل کر دیا۔ انھوں نے کہا اس میں ممکنہ طور پر کالج کے لوگ ہو سکتے ہیں جو قطب علی رند سے جلتے تھے قتل کی واردات آنکھوں کے سامنے ہوئی احسن علی ،وقاص اور تیسرا شخص موجود تھا سامنے آنے پر تیسرے شخص کو پہچان لیں گے جسے چھپانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ نیشنل کالج آف آرٹس کے پرنسپل ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری نے کہا قطب علی رند کا شمار کالج کے بہترین طلباءمیں ہوتا تھا وہ غریب آدمی تھا قسمت بدلنے لاہور آیا تھا وہ 4سال این سی اے میں رہا سب اس سے محبت کرتے تھے وہ بہترین اور سمجھدار انسان ہونے کیساتھ ساتھ پکا مسلمان اور نمازی تھا، تمام ٹیچرز اور سٹوڈنٹس اس کی عزت کرتے تھے کیچڑ اچھال کر اس کی کردار کشی کی جار ہی ہے ۔
قطب رند