• news

راحیل شریف نے وفاقی حکومت سے این اوسی نہیں لیا، اجازت وزیردفاع نے دی :سیکرٹری ڈیفنس، معاملہ کابینہ میں رکھاجائے :سپریم کورٹ

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق آرمی چیف جنرل(ر) راحیل شریف کی بیرون ملک اسلامی اتحادی فوج کے سربراہ کے طور پر تقرری کا معاملہ وفاقی کابینہ کے سامنے رکھنے کا حکم دے دیا۔ منگل کے روز چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمرعطا بندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بنچ نے ججز اور سرکاری ملازمین کی دوہری شہریت کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت افواج پاکستان میں دہری شہریت اور سابق آرمی چیف جنرل (ر) کی تقرری کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے بتایا سرکاری افسر کی بیرون ملک ملازمت کے لیے نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ (این او سی) لینا ضروری ہے اور سروسز رولز کے مطابق یہ این او سی وفاقی کابینہ دیتی ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا این او سی وفاقی حکومت جاری کرتی ہے لیکن اس کے لیے وفاقی کابینہ سے منظوری لینا ضروری ہے جبکہ جنرل (ر) راحیل شریف کے معاملے پر وفاقی کابینہ سے اجازت نہیں لی گئی۔ انہوں نے کہا عدالتی فیصلے کی روشنی میں وفاقی کابینہ سے اجازت لینا ضروری ہے، اس سلسلے میں ہائیکورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے۔ اس پر سیکرٹری دفاع لیفٹیننٹ جنرل (ر)ضمیر الحسن نے بتایا کہ جنرل (ر) راحیل شریف کی اسلامی اتحادی فوج کے سربراہ کے طور پر تقرری پر جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ انہوں نے کہا جی ایچ کیو کی منظوری کے بعد معاملہ وزارت دفاع کو بھجوا دیا تھا۔ سیکریٹری دفاع کا کہنا تھا راحیل شریف کے معاملے پر وفاقی حکومت سے این او سی نہیں لیا گیا تھا بلکہ انہیں اجازت وزیر دفاع نے دی۔ اس پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دئیے ہم نے قانون کے مطابق چلنا ہے، وفاقی حکومت کا اختیار کابینہ کے زیر اختیار ہوتا ہے، یہ معاملہ اجلت کا ہے۔فاضل عدالت نے متعلقہ حکام کو حکم دیا وہ جنرل (ر) راحیل شریف کی تقرری کے معاملے کو منظور یا مسترد کرنے کے حوالے سے وفاقی کابینہ کے سامنے رکھیں۔ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا این او سی کے معاملے پر مزید جواب کے لیے وقت درکار ہے، جس پر عدالت نے سماعت موسم گرما کی چھٹیوں کے بعد تک کے لیے ملتوی کردی۔ عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی ) کے سابق سربراہ جنرل شجاع پاشا کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔ سیکرٹری دفاع نے بتایا کہ احمد شجاع پاشا نے جواب دیا ہے وہ کوئی نوکری نہیں کر رہے جبکہ دہری شہریت کے معاملے پر افواج میں سب سے بیان حلفی لیا جارہا ہے۔ خیال رہے گزشتہ سماعت میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) شجاع پاشا کی بیرونِ ملک ملازمت کے لئے دیا گیا این او سی طلب کیا تھا۔ صباح نیوز کے مطابق اٹارنی جنرل کا کہنا تھا لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق پاکستان کا 19 ممالک کیساتھ دوہری شہریت کامعاہدہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا 19 ممالک کیساتھ معاہدہ 1999میں کیا گیا۔ دوہری شہریت والوں پر وہی قدغن ہونی چاہئے جو غیرملکیوں پر عائد ہوتی ہے۔ اگر پارلیمنٹیرین پر دوہری شہریت کی پابندی ہے تو دیگر اداروں پر ہونی چاہیے۔سرکاری افسران بیرون ملک پوسٹنگ کراتے اور شہریت حاصل کر لیتے ہیں شہریت حاصل کرنے کے بعد پاکستان واپس آکر ملک میں نوکری کرتے ہیں ایسے افسران بیرون ملک اثاثے بناتے ہیں اور انکے بچوں کی فیس بھی یہاں سے جاتی تھی۔ ملازمین ریٹائرمنٹ کے بعد بیرون ملک شفٹ ہو جاتے ہیں اور پنشن پاکستان سے وصول کرتے ہیں۔ چیف جسٹس نے واضح کیا اگر کسی کا نام غلط دوہری شہریت میں ہے تو ختم کردینگے۔اس دوران ایڈیشنل سیکرٹری وزارت دفاع نے مسلح افواج میں دوہری شہریت رکھنے والوں سے متعلق اپنی رپورٹ دیدی جس میں کہا گیا تھا 2 افسران کے نام غلط طور پر ان 27 افسران میں شامل ہوئے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا وزارت دفاع کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے دوہری شہریت کی جانچ شروع کر دی ہے تاہم دوسرا سوال جنرل راحیل شریف سے متعلق تھا۔ایڈیشنل سیکرٹری دفاع کاکہنا تھا جنرل (ر)راحیل شریف کے حوالے سے حکومت پاکستان نے سعودی حکومت سے رابطہ کیا تھاجی ایچ کیو نے بھی حکومت کو این او سی بھیجا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کیا قانون جی ایچ کیو۔اور وزارت دفاع کو این او سی کا اختیار دیتا ہے؟وفاقی حکومت کی اجازت تحریری طور پردیکھا دیں۔سوال یہ ہے کیا وفاقی حکومت نے جنرل راحیل شریف کو اجازت دی تھی۔اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے کے مطابق کابینہ کی منظوری نہیں لی گئی3 مارچ 2017 ء کو راحیل شریف کو حکومت نے اجازت دی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا اب اس کیس کو کابینہ کے سامنے رکھیںوفاقی حکومت اس پرفیصلہ کرے ۔چیف جسٹس نے کہا سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل(ر)شجاع پاشا کا کہناہے انہوںنے کہیں نوکری نہیں کی۔

ای پیپر-دی نیشن