زرداری کیخلاف سوئس مقدمات دوبارہ نہیں کھل سکتے‘ نیب : نندی پوری کیس ری اوپن‘ این آئی سی ایل کیس دو ماہ میں مکمل کرنے کا حکم
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ صباح نیوز) قومی احتساب بےورو (نیب) نے اےن آر او عملدرآمد کےس کی روشنی میں سپرےم کورٹ میں سوئس عدالتوں میں سابق صدر آصف علی زرداری سے متعلق کیس کا جواب جمع کرادےا، نیب نے اپنے جواب میں کہا سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف سوئس میں کیس ری اوپن نہیں ہو سکتا، 2012ءمیں وفاقی حکومت نے سوئس عدالت میں جب اپیل دائر کی تو وہ زائد المیعاد ہو چکی تھی لٰہذا اب سوئس عدالت میں کیس ری اوپن نہیں ہو سکتا، تاہم آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن کے پانچ مقدمات میں احتساب عدالتوں کے فےصلوں کے خلاف اپیلیں اسلام آباد ہائیکورٹ میں زےر سماعت ہیں، نیب نے سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف نیب میں زےر التوا کیسز کی تفصےلات بھی جمع کرا دی ہیں جن میں بتاےا گےا احتساب عدالت کے فےصلوں کے خلاف اپیلیں دائر کی گئی ہیں نیب سوئس عدالت میں کیس سے متعلق مبےنہ کرپشن کی رقوم کی تفصےلات بھی اپنے جواب میں درج کی ہیں دو صفحے کے جواب میں نیب نے سابق اٹارنی جنرل ملک قےوم سے متعلق بتاےا اس وقت کی نیب انتظامےہ نے 17ستمبر 2012ءکو سابق اٹارنی جنرل ملک قےوم کے خلاف سوئس مقدمات سے متعلق اختےارات کے ناجائز استعمال کے حوالے سے انکوائری ان رےمارکس کے ساتھ بند کر دی تھی سابق اٹارنی جنرل کے خلاف اختےارات کے ناجائز استعمال کے حوالے سے کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔ صباح نیوز کے مطابق این آر او کیس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ہے این آر او سے قومی خزانے کو نقصان پہنچنے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ جواب میں کہا گیا ہے 'نیب ریکارڈ کے مطابق ملک قیوم نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال نہیں کیا اور الزام غلط ہونے کے باعث ملک قیوم کے خلاف ہونے والی انکوائری ختم کردی گئی تھی۔' جواب میں کہا گیا کہ 'سابق صدر آصف زرداری کے خلاف سوئس کیسز نہیں کھولے جاسکتے، حکومت پاکستان کی اپیل زائد المیعاد ہونے کی وجہ سے سوئس حکام نے کیس کھولنے سے معذرت کی، جس کے بعد آصف زرداری کے خلاف چلنے والے کیسز کی فہرست بھی تلف کردی گئی ہے۔'
زرداری/ سوئس مقدمات
اسلام آباد (آن لائن‘ اے این این‘ آئی این پی) سپریم کورٹ نے خواجہ آصف کی درخواست پر نندی پور کرپشن کیس ری اوپن کردیا اور فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت (آج) تک ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں بنچ نے مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف کی نندی پور کرپشن کیس بحالی کی درخواست کی سماعت کی۔ خواجہ آصف عدالت میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے نندی پور کرپشن کیس بحالی کی خواجہ آصف کی درخواست منظورکرتے ہوئے ریمارکس دیئے آپ نے کئی خرابیوں کی نشاندہی کی تھی،جب خود وزیر بنے تو خرابیاں دور کیوں نہیں کیں؟ چیف جسٹس نے کہا بطور وزیر پانی و بجلی آپ کی بھی کچھ ذمہ داریاں تھیں۔ خواجہ آصف نے کہا نندی پور منصوبہ اب 5 سال سے کام کررہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا آپ نے منصوبے کو چینی کمپنی کو ٹھیکے پر دیا ہے، رولز کے مطابق آپ منصوبہ ٹھیکے پر نہیں دے سکتے۔ لیگی رہنما نے کہا منصوبہ ٹھیکے پر نہیں، اونرشپ حکومت کی ہے، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا درخواست میں وزارت قانون کی اعلیٰ شخصیت کا ذکر ہے،آپ نے الزام لگایاکہ اس شخصیت نے تاخیرکی۔ خواجہ آصف نے کہا جی اس شخصیت نے روکا تھا، کمیشن نے بھی اس بات کو مان لیا، تاخیر کی وجہ سے منصوبے کی لاگت میں اضافہ ہوا، مجھے کیس سے الگ کردیا گیا تھا مفادات کا ٹکراﺅ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا آپ کو کیس سے الگ کیا گیا تھا، تحقیقات تو کرا سکتے تھے، خواجہ آصف نے کہا ایک کمیشن رحمت علی جعفری کی سربراہی میں بنا تھا، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کمیشن نے ذمہ داری بھی فکس کردی تھی۔ خواجہ آصف نے کہا اس میں حکم تھا نندی پور اور چیچوکی ملیاں پرکام مکمل کریں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آپ نے 2011 میں درخواست دائرکی، اس کو اب 7 سال ہوگئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا بتائیں اب اس درخواست میں کیا رہ گیا ہے اس کو سنیں؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آپ نے واپڈا اور پیپکو کو فریق بنایا، خواجہ آصف نے کہا نندی پور منصوبہ مکمل ہو گیا ہے۔ عدالت نے خواجہ آصف کا موقف سننے کے بعد فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت (آج) تک ملتوی کر دی۔ سپریم کورٹ نے گلگت بلتستان آردڑ 2018 بحال کرتے ہوئے گلگت بلتستان کی عدالت کا فیصلہ معطل کر دیا عدالت نے گلگت بلتستان کی عدالت کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی اپیل منظور کرتے ہوئے فریقین کو نوٹسز بھی جاری کر دئیے۔ بدھ کے روز چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سر براہی میں تین رکنی بینچ نے گلگت بلتستان آرڈر 2018 سے متعلق گلگت بلتستان ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت کی اپیل پر سماعت کی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا گلگت بلتستان کے لوگوں کو بھی وہ ہی حقوق حاصل ہیں جو دوسرے شہریوں کو حاصل ہیں۔ حکومت یقینی بنائے گلگت بلتستان کے شہریوں کو بھی بنیادی حقوق میسر ہوں، عدالت نے گلگت بلتستان آردڑ 2018 بحال کرتے ہوئے گلگت بلتستان کی عدالت کا فیصلہ معطل کر دیا۔ سپریم کورٹ میں گلگت بلتستان کی عدالت کے خلاف وفاقی حکومت نے اپیل دائر رکھی تھی جسے عدالت نے منظور کر لیا اور فریقین کو نوٹسز جاری کردیئے ہیں یاد رہے وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان کے لئے پیکج دیا تھا جسے گلگت بلتستان کے چیف ایپلٹ کورٹ نے کالعدم قرار دے کر شاہد خاقان عباسی کے خلاف توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا۔ وفاقی حکومت نے جی بی آرڈر 2018 نافذ کیا تھا۔ گلگت بلتستان آرڈر 2018کے تحت گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی اب گلگت بلتستان اسمبلی کہلائے گی، اسے ایکنک اور ارسا سمیت تمام وفاقی مالیاتی اداروں میں نمائندگی مل گئی۔ گلگت بلتستان میں آئین پاکستان کے تحت سٹیزن ایکٹ 1951 بھی لاگو کردیا گیا ہے۔ 5سال کیلئے اسے ٹیکس فری زون قرار دیا گیا ہے جبکہ گلگت بلتستان چیف کورٹ کا نام تبدیل کرکے گلگت بلتستان ہائیکورٹ رکھ دیا گیا ہے۔ گلگت بلتستان آرڈر 2018کے نفاذ سے گلگت بلتستان اسمبلی کو صوبائی اسمبلیوں کی طرح قانون سازی سمیت تمام اختیارات حاصل ہوگئے ہیں، یہاں کے شہریوں کو ملک کی کسی بھی اعلی عدالت سے رجوع کرنے کا حق حاصل ہو گا۔ گلگت بلتستان آرڈر 2018ءکے تحت گلگت بلتستان کونسل کے مکمل خاتمے کا فیصلہ واپس لیتے ہوئے اسے مشاورتی کونسل کی حیثیت دیدی گئی، وزیر اعظم پاکستان کو گلگت بلتستان پر وہی اختیارات ہوں گے جو دیگر صوبوں سے متعلق حاصل ہیں۔ گلگت بلتستان آرڈر کے بعد گلگت بلتستان چیف کورٹ گلگت بلتستان ہائی کورٹ میں تبدیل ہوگئی اور اس کے ججوں کی تعداد 5سے بڑھا کر 7ہو گئی جبکہ اب گلگت بلتستان سپریم اپیلیٹ کورٹ کا چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کا ریٹائرڈ جج ہوگا۔ این آئی سی ایل کیس کی سماعت میںسپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو 2 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت کر دی۔ اس موقع پر عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا ملزم محسن حبیب وڑائچ کہاں ہیں؟ نیب پراسیکیوٹر نے موقف اپنایا محسن حبیب وڑائچ ملک سے باہر ہیں۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے محسن حبیب وڑائچ کا نام ای سی ایل میں تھا ملک سے بھاگا کیسے؟ اطلاع ہے وہ لندن میں ہے اور پتہ چلا ہے افغانستان کے راستے لندن گیا۔ سنا ہے حکومت کی تبدیلی کے بعد واپس آجائے گا جس پر نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا ملزم محسن حبیب وڑائچ بہت جلد پکڑا جائے گا۔ عدالت نے احتساب عدالت کو 2 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت کر دی۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ میں کچی آبادیوں میں سہولتوں سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کچی آبادیوں میں بہت خوفناک حالات ہیں۔ اقلیتوں کی عبادت گاہ کی حالت بہت خراب ہے۔ چیف جسٹس نے ممبر پلاننگ سے مکالمہ سے کرتے ہوئے کہا تجاوزات کو روکنا آپ کی ذمہ داری تھی۔ چیف جسٹس نے ممبر پلاننگ سے استفسار کیا کیا آپ کبھی وہاں گئے ہیں؟ وہاں حالات رہنے کے قابل نہیں۔کچی آبادیاں ایک روز میں تو نہیں بن گئیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا اسلام آباد کی کچی آبادیوں میں 3 ہزار 805 گھر ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا ان کے ووٹوں سے ممبر بن جاتے ہیں،کرتے کچھ نہیں۔
چیف جسٹس