الیکشن قوانین کی خلاف ورزی پر عمران خان کے سر پر ’’نااہلی‘‘ کی تلوار
نواز رضا
عام انتخابات2018 میں حصہ لینے والی 95سیاسی جماعتوں میں سے صرف 12 ہی قومی اسمبلی تک پہنچ سکی ہیں ، جبکہ 2013 کے عام انتخابات میں16 سیاسی جماعتیں قومی اسمبلی میں پہنچ سکیں تھیں۔خیبرپختونخوا اسمبلی میں 5 جب کہ بلوچستان اسمبلی میں 10 سیاسی جماعتیں پہنچی ہیں ، اسی طرح پنجاب اسمبلی میں 5 جب کہ سندھ اسمبلی میں 6 سیاسی جماعتیں پہنچیں جب کہ ایک بڑی تعداد میں منتخب ہونے والے آزاد امیدوار بھی ہیں ۔ قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے نو منتخب ارکان کو ’’اقتدار کی منتقلی‘‘ کا مرحلہ شروع ہونے والا ہے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 25جولائی2018ء ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بارے میں باضابطہ طور نوٹیفیکیشن جاری کردئیے ہیں تاہم 25قومی و صوبائی حلقوں کے نوٹیفیکیشن روک دیئے گئے جن میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی کامیابی والے 2حلقوں این اے 53اور این اے 131کے نتائج روک دیئے ، جبکہ تین حلقوں این اے 35، این اے 95 ، اور این اے 243 کے نوٹیفیکیشن الیکشن کمیشن میں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مقدمات کے حتمی فیصلے کے ساتھ مشروط کر تے ہوئے جاری کئے گئے ہیں ،سردار ایاز صادق اور پرویز خٹک کی کامیابی کے نوٹیفیکیشن بھی الیکشن کمیشن میں ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے مقدمات کے حتمی فیصلے کے ساتھ مشروط کر دیئے گئے ہیں قومی اسمبلی کے 9حلقوںا ین اے 90،این اے 91،این اے 108،این اے 112،این اے 140،این اے 215، این اے 271، این اے 53 اور این اے 131 کے نوٹیفیکیشن روک دینے سے وزیر اعظم ، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کی صورت حال غیر یقینی صورت حال سے دو چار ہو گئی ہے ۔عمران خان خان کا تین حلقوں سے مشروط طور نوٹیفیکیشن جاری تو کر دیا گیا ہے لیکن الیکشن قوانین کی خلاف ورزی پر ان کے سر پر ’’نااہلی‘‘ کی تلوار مسلسل لٹک رہی ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے اس صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے پاکستان تحریک کے ترجمان فواد چوہدری نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اس طرز عمل پر’’ مایوسی‘‘ کا اظہار کیا ہے اور چیف جسٹس آف پاکستان سے مداخلت کی اپیل کی ہے لاہور ہائی کورٹ نے این اے 131میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا حکم جاری کیا تو عمران خان نے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا جس نے ان کی درخواست سماعت کے لئے منظور کر لی ہے اور لاہور ہائی کورٹ کا دوبارہ گنتی کرائے جانے کا حکم معطل کر دیا ہے یہ بات قابل ذکر ہے عمران خان نے اپنی ’’کامیابی‘‘ کے بعد اعلان کیا تھا کہ وہ اپوزیشن کے مطالبے ہر حلقہ انتخاب کھولنے کے لئے تیار ہیں لیکن جب ان کے اپنے حلقہ انتخاب کو کھولنے کی کوشش کی گئی تو وہ الیکشن قوانین کا سہارہ لے کر دوبارہ گنتی کی راہ میں حائل ہو گئے ۔ سیاسی حلقوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے اگرچہ پاکستان تحریک انصاف 7 کے ترجمان فواد چوہدری 174ارکان پورے ہونے کا دعویٰ تو کر رہے ہیں لیکن پاکستان تحریک انصاف 8 جماعتوں اور آزاد ارکان کی پارلیمانی قوت سے’’ نمبر گیم ‘‘ پورا ہونے کے بارے میں مطمئن دکھائی نہیں دیتی ۔ دوسری طرف عام انتخابات میں دھاندلی کے خلاف’’ پاکستان اتحادبرائے آزادانہ وشفاف انتخابات‘‘ میں شامل جماعتوں نے بدھ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان اسلام آباد کے سامنے پہلا بڑا احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ احتجاجی مظاہرے کی قیادت تمام اتحادی جماعتوں کی اعلی قیادت نے کی لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری نے شرکت نہیں کی تاہم پیپلز پارٹی کی دوسرے درجے کی قیادت نے شرکت کر کے اس تاثر کی نفی کی ہے وہ اپوزیشن اتحاد سے الگ تھلگ کھڑی نظر آتی ہے پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے مظاہرے میں شرکت نہ کر کے پاکستان مسلم لیگ (ن)کی اعلیٰ قیادت سے اپنا فاصلہ برقرا ر ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے دونوں جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کو اکھٹے مستقبل کی سیاست کرنے کے لئے بڑے دریا عبور کرنا پڑیں گے ممکن ہے آصف علی زرداری ’’ایف آئی اے ‘‘ کے سامنے پیش ہونے کے نوٹسز کے باعث قدرے احتیاط سے کام لے رہے ہیں لیکن انہوں نے ایف آئی کے سامنے پیش ہونے سے نہ صرف انکار کر دیا ہے بلکہ کہا ہے کہ’’ وہ اپنے گھر موجود ہیں جس نے گرفتا رکرنا ہے کر لے ‘‘ میاں نواز شریف کو جیل بھجوائے جانے کے وقت ’’تماشا ‘‘ دیکھنے والے سیاست دانوں کی باری آنے والی ہے اب ان کی ’’چیخ و پکار ‘‘ لا حاصل نظر آتی ہے ۔ریڈ زون میں شاہراہ دستور پر وزیراعظم آفس کے قریب الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے ہونے دھرنے نے 14 اگست 2014ء کو پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے مشترکہ احتجاج کی یاد تو تازہ کر دی ہے لیکن اس کی پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے 14اگست2014ء کے احتجاج سے مماثلت نہیں دی جا سکتی فرق صرف یہ ہے ریڈ زون میں ہونے والا پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کا احتجاج جو 126دن تک جاری رہا پارلیمنٹ ہائوس پر ’’قبضہ‘‘ کے لئے تھا جب کہ اپوزیشن جماعتوں کا احتجاجی دھرنا ایک روز تک جاری رہا انتخابی دھاندلی کا نشانہ بننے والے قومی وصوبائی اسمبلیوں کے امیدوار ایک روز روز قبل ہی اسلام آباد پہنچ گئے تھے ۔الیکشن کمیشن کے سامنے دھرنا میں تینوں بڑی جماعتوں و اتحاد پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان یپپلز پارٹی اور متحدہ مجلس عمل سمیت قوم پرست جماعتوں کے کارکنوں نے بھر پور سیاسی قوت کا مظاہرہ کیا
تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی نے عمران خان کو وزیراعظم کا باضابطہ امیدوار نامزد کردیا ہے تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں عمران خان کو قومی اسمبلی میں پارٹی کا پارلیمانی لیڈرنامزد کرنے کیلئے قرار داد پیش کی جسے پارلیمانی پارٹی نے متفقہ طور پر منظوری دی۔ دوسری طرف اسی روز پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے بھی میاں شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کے لئے اپنا امیدوار نامزد کر دیا ہے میاں شہباز شریف کو اپوزیشن کی جماعتوں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی ، متحدہ مجلس عمل ، عوامی نیشنل پارٹی کے نام قابل ذکر ہیں کی حمایت حاصل ہے اپوزیشن جماعتوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سید خورشید شاہ کو سپیکر اور متحدہ مجلس عمل کے رہنما مولانا اسعد محمود کو ڈپٹی سپیکر کے لئے ا میدوار نامزد کر دیا یہ بات قابل ذکر ہے کہ پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں سپیکر کے لئے کسی امیدوار کی نامزدگی عمل میں نہیں آئی تاہم پی ٹی آئی کے ذرائع کے مطابق سپیکر کے لئے شاہ محمود قریشی اور ڈپٹی سپیکر کے لئے زر تاج کا نام لیا جا رہا ہے شنید ہے جن قوتوں کے پاس اصل ’’اقتدار‘‘ ہے ان کی طرف سے ان اہم عہدوں کے لئے منظوری نہیں آئی جس کے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے بھی ان اہم مناصب کے لئے امیدواروں کا اعلان نہیں کیا پارلیمانی پارٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے کہا ہے ’’روایتی طرزحکومت اپنایا تو تحریک انصاف بھی عوامی غضب کا نشانہ بنے گی، تحریک انصاف کا اقتدار چیلنجزسے بھرپور ہے،تحریک انصاف کو مضبوط نہیں بلکہ اخلاقی طور پر کمزور ترین اپوزیشن کا سامنا ہے، برطانیہ کی طرز پر ہر ہفتے بطور وزیر اعظم ایک گھنٹہ سوالات کے جواب دیا کروں گا ۔‘‘ عمران خان نے 22برس قبل وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہونے کا جو خواب دیکھا ہے وہ پورا ہوتا دکھائی تو دیتا ہے آئند ہ چند دنوں میں ان کے وزیر اعظم بننے کے قوی امکانات ہیں لیکن انہوں نے اپنی پارلیمانی کے اجلاس میں اپوزیشن کے بارے میں جو طرز عمل اختیار کیا وہ آئندہ چند دنوں میں وزارت عظمی ٰ کے منصب پر فائز ہونے والے سیاست دان کو زیب نہیں دیتے قائد ایوان اپوزیشن کی لگائی ہوئی آگ میں جلنے کی بجائے اسے ٹھنڈا کرتا ہے عمران خان نے کہا ہے کہ’’ حزب اختلاف کے پاس مولانا فضل الرحمان تو ہیں مگراخلاقی و روحانی قوت سے محروم ہے‘‘ عمران خان کو علم ہونا چاہیے کی مولانا فضل الرحمنٰ ، مفتی محمود کے صاحبزادے ہیں آج اس خاندان کی تیسری نسل مولا نا اسعد محمود پارلیمنٹ میں ہیں ۔ یہ مفتی محمود ہی تھے جن کی قیادت میں پاکستان جمہوری اتحاد نے انتخابی دھاندلی کے خلاف ملک کی سب سے بڑی تحریک چلا کر ذوالفقار علی بھٹو اقتدار سے محروم کر دیا تھا لہذا وہ ان کے خلاف بیان بازی میں احتیاط سے کام لیا کریں ۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو آئندہ کا وزیر اعظم منتخب کرانے کے لئے تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوںکو 172ارکان ایوان میں پورے کرنے کے لئے جن مشکلات کا سامنا ہے ، ان کا حل آئین کے آرٹیکل 91کی شق چار میں دیا گیا ہے اگر عمران خان کو ایوان میں 172ارکان کی سادہ اکثر یت قائد ایوان کے انتخاب کے پہلے مرحلے پر حاصل نہ ہو سکی تو ایوان میں دوبارہ رائے شماری ہو گی اورا س میں وزیر اعظم کے امیدوار عمران خان اور ان کے مد مقابل دوسرے نمبر پر قریب ترین ووٹ حاصل کر نے والے اپوزیشن کے متفقہ امیدوار کے درمیان دوبارہ مقابلہ ہو گا ، اور ایوان میں موجود ارکان کی اکثریت حاصل کرنے والے امیدوار کو منتخب وزیر اعظم قرار دے دیا جائے گاآئین کے آرٹیکل 91 اور اس کی ذیلی شقوں میں سپیکر ، ڈپٹی سپیکر اور وزیر اعظم کے انتخاب کا طریقہ کا ر موجود ہے ، جس کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس قومی اسمبلی کے عام انتخابات کے انعقاد کے بعد اکیسویں دن ہو گا، تاوقتیکہ اس سے پہلے صدر اجلاس طلب نہ کرلے، سپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے الیکشن کے بعد، قومی اسمبلی، کسی بھی دوسری کاروائی کو چھوڑ کر، کسی بحث کے بغیر، اپنے مسلم ارکان میں سے ایک کا وزیراعظم کے طور پر انتخاب کرے گی۔