آصف علی زرداری صدر بننے کیلئے سرگرم
شہزاد چغتائی
الیکشن کے بعد کراچی میںریلیوں اور مظاہروں کی لہر آگئی۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے جمعہ کوریلی نکالی اس کے بعد متحدہ مجلس عمل میدان میںآگئی اوراس نے انتخابات میں دھاندلی کے خلاف پورے سندھ میں احتجاج کیا اور دھرنے دیئے۔ اس دوران میگا منی لانڈرنگ کیس کے منظرعام پرآنے کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری دبائو کاشکار ہیں لیکن وہ صدر بننے کیلئے ہاتھ پیر بھی ماررہے ہیں۔ کراچی میں یہ باتیں ہورہی ہیں سابق صدر نے منی لانڈرنگ کیس میں ضمانت کیوں نہیں کرائی جبکہ ان کی ہمشیرہ فریال تالپور اس مقدمہ میں ضمانت پرہیں۔پیپلز پارٹی نے آصف علی زرداری اورفریال تالپور کے خلاف کارروائی کو انتقام قرار دیدیا اورواضح کیا کہ پیپلز پارٹی کو سندھ میں الیکشن جیتنے کی سزا دی جارہی ہے۔ الیکشن کے بعد سیاسی تنائو بتدریج کم ہورہا ہے اس کے ساتھ پیپلز پارٹی اورتحریک انصاف کے درمیان کشیدگی کم ہوگئی ہے۔آصف علی زرداری تحریک انصاف کے ساتھ اشتراک کیلئے دل وجان سے تیار تھے لیکن انہوں نے ایک بڑا بول بھی بولا تھا کہ حکومت بنانے کیلئے عمران خان کو میرے پاس آنا ہوگا۔ ایک سال پہلے سابق صوبائی وزیر شرجیل میمن نے کہا تھا کہ ہم تحریک انصاف کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں گے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ پلان پرانا تھا۔ یہ بات شرجیل میمن نے گرفتاری سے پہلے رہائش گاہ پر بااعتماد دوستوں کو بتائی تھی با خبر ذرائع کہتے ہیں کہ تحریک انصاف اورپیپلز پارٹی کے درمیان برف پگھل رہی ہے دونوں جماعتوں کو نزدیک لانے کیلئے شیخ رشید پہلے ہی سرگرم ہیں انہوں نے کہا کہ میں خود چل کر بلاول بھٹو کے پاس جائوں گا۔ شیخ رشید کے کراچی مشن کو اس سلسلے کی کڑی قرار دیاجارہا ہے دونوں جماعتوں کے درمیان خاموش مفاہمت ہوسکتی ہے سینیٹ کے الیکشن اس کی مثال ہیں۔ تحریک انصاف اورپیپلز پارٹی کے درمیان اس وقت جنگ بندی کی کیفیت ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے آپشن کھلے رکھے ہیں۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ آصف زرداری اور بلاول بھٹو نے آل پارٹیز میں شرکت نہیں کی۔آصف زرداری کو یقین ہے کہ وہ اندر ہوں یا باہر وہ عمران خان کی ضرورت ہیں وقت کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف کے اندر یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے بغیر حکومت نہیں چلے گی۔ کراچی کے سیاسی حلقوں میں یہ باتیں ہو رہی ہیں کہ پیپلز پارٹی عمران خان کو منانے کیلئے سر توڑ کوششیں کررہی ہے ۔ پیپلز پارٹی کا ڈبل گیم یہ ہے کہ ایک جانب وہ گرینڈالائنس کا حصہ ہے اور انتخابی دھاندلیوں کے خلاف مظاہرے کررہی ہے۔ دوسری جانب طویل المدت سیاسی مفادات کیلئے اس نے تحریک انصاف سے درپردہ رابطے استوار کررکھے ہیں سابق صدرآصف علی زرداری اس وقت سودمند موقع کی تلاش میں ہیں موجودہ سیاسی کھیل جب چلے گا وہ پیپلز پارٹی کیلئے نئی راہیں نکال لیں گے۔المیہ یہ ہے کہ انتخابات میں ہارنے اورجیتنے والے سب سڑکوں پر ہیں پیپلز پارٹی ملک کی دوسری بڑی جماعت ہے لیکن نتائج سے مطمئن نہیں۔یہ حقیقت ہے کہ حکومت پیپلز پارٹی کے بغیر کچھ نہیں کرسکتی عمران خان کے لئے حکومت اورپارلیمنٹ کو چلانا آسان نہیں ہوگا پیپلز پارٹی کے بغیر تحریک انصاف قانون سازی نہیں کرسکتی ایک بار حکومت تو بن جائے گی لیکن دوسری بار اعتماد کا ووٹ لینا محال ہوگا قومی اسمبلی سے کوئی بل منظور نہیں ہوسکتا قومی اسمبلی سے بل منظور ہوا تو سینیٹ میں رک جائے گا سابق صدر یہ سوچ کر ہنستے ہوں گے عمران خان کب تک نظر انداز کریں گے۔ شایداس لیے عمران خان کو راہ راست پر لانے کے لئے ان کے سر پر تلوار لٹکادی گئی ہے ۔ تحریک انصاف کے پاس صدر لانے کیلئے اکثریت نہیں ہے۔ اسپیکر اور صدر پیپلز پارٹی کا ہو سکتا ہے۔ دریں اثناء ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان ہونے والے اتحاد کے نکاٹی اعلامیہ کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ کراچی کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالنے والی جماعت نے ایم کیوا یم کو بے بھائو کی سنادیں جس کے ساتھ دونوں جماعتوں کے درمیان تنازعہ کھڑا ہوگیا ۔ ایم کیوا یم نے 9مطالبات عمران خان کے حوالے کردیئے۔عمران خان سے ملاقات کے موقع پر ڈاکٹر فاروق ستار پھرمائنس ہوگئے۔ وہ بنی گالہ جانے والے وفد میں شامل نہیں تھے۔ جہانگیر ترین کو پیرپگارا نے یقین دلایا کہ وہ تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جی ڈی اے نے عمران کو الیکشن سے پہلے ہی حمایت کا یقین دلادیا تھا اور دونوں جماعتوں میں اتحاد بھی قائم ہوگیا تھا اس اتحاد کا المیہ یہ تھا کہ وہ سندھ میں پیپلز پارٹی کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ بلکہ پیپلز پارٹی نے 2013ء کے مقابلے میں زیادہ نشستیں اور ووٹ جیت لیں۔ جس پر گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے رہنما سکتے کی کیفیت میں ہیں۔