• news

زرداری کا طرز عمل : متحدہ اپوزیشن کے قیام کا خواب بکھرتا نظر آ رہا ہے

پاکستان کی 15 ویں قومی اسمبلی کے 324 ارکان کی حلف برداری کے بعد ایوان زیریں کا باضابطہ طور پر قیام عمل میں آ گیا ہے۔زمانہ طالب علمی میں مجھے 1968 میں بالواسطہ انتخابات کے ذریعے قائم ہونے والی قومی اسمبلی کی کاروائی دیکھنے کا اعزاز حاصل ہے۔ مجھے 12 اسمبلیوں کی کاروائی دیکھنے اور کور کرنے کا موقع ملا ہے۔ ’’جرنلسٹ کور‘‘ میں گنتی کے چند صحافی رہ گئے ہیں جنھوں نے اپنے سامنے اسمبلیاں بنتی اور ٹوٹتی دیکھیں۔ پچھلے دس سال پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں اس لحاظ سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ دو قومی اسمبلیوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی اور پر امن انتقال اقتدار کا مرحلہ مکمل ہونے کو ہے۔ 15 ویں قومی اسمبلی کے انتخابات کے بارے میں اپوزیشن جماعتوں نے بے پناہ تحفظات ہونے کے باوجود حلف نہ اٹھانے کے فیصلے پر نظر ثانی کی اور پارلیمنٹ کے اندر رہ کر عام انتخابات میں ہونے والی دھاندلیوں کو بے نقاب کرنے اور 25 جولائی کی رات عوامی مینڈیٹ پر ڈالے جانے والے ’’ڈاکہ‘‘ کو بے نقاب کرنے کا فیصلہ کیا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ایک ’’فاتح ‘‘ کی حیثیت سے ایوان میں داخل ہوئے تو سب سے زیادہ پرجوش استقبال انہی کا کیا گیا۔ وزیراعظم نواز شریف کے نعرے لگائے گئے۔ اسی ایوان میں وزیراعظم نواز شریف کے نعروٖں کی گونج سنائی دیتی رہی ہے۔ قومی اسمبلی کی مسلسل تین بار منتخب ہونے والی خاتون رکن سیما جیلانی نے بلند بانگ نعرے لگا کر ایوان کا ماحول گرما دیا اور مسلم لیگی ارکان کو بھی ان کا ہمنوا ہونا پڑا۔ پاکستان کے دو سابق سپیکر گوہر ایوب اور یوسف رضا گیلانی نے سپیکر گیلری میں بیٹھ کر ایوان کی کاروائی دیکھی۔ موجودہ سپیکر سردار ایاز صادق نے ان کا خاص طور پر ذکر بھی کیا جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، سابق سپیکر فہمیدہ مرزا نے حلف اٹھایا۔ 15 ویں قومی اسمبلی میں جن پارلیمنٹرین کی کمی محسوس کی گئی ان میں میاں نواز شریف، چوہدری نثار علی خان، اسفند یار علی، غلام احمد بلور، مولانا فضل الرحمان، شاہد خاقان عباسی کے نام قابل ذکر ہیں۔ اب دیکھنا یہ وہ اپوزیشن کو ساتھ چلنے میں کس حد تک سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں متحدہ اپوزیشن کا طرز عمل آنے والے دنوں میں واضح ہو جائے گا اگرچہ متحدہ اپوزیشن قائم ہو گئی ہے لیکن آصف علی زرداری اور میاں شہباز شریف ایک دوسرے سے ملنے کے روادار نہیں دونوں نے ایک دوسرے سے فاصلہ برقرار رکھا ہے آصف علی زرداری حلف اٹھانے والے پہلے رکن تھے وہ حلف اٹھانے کے بعد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی سے ملاقات کے لئے ان کے چیمبر میں چلے گئے یہ بات قابل ذکر ہے میاں شہباز شریف ، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری گیٹ نمبر1سے آئے جب کہ ’’کپتان‘‘ عقبی دروازہ سے قومی اسمبلی میں آئے انہیں عام لوگوں سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی۔ اسد عمر پی ٹی آئی میں خاصے مقبول نظر آتے یہی وجہ جب سپیکر نے ان کا نام پکارا تو پی ٹی آئی کے کاکنوں نے ڈیسک بجا کر ان کی حوصلہ افزائی کی قومی اسمبلی میں بہت بڑی تعدا د نئے منتخب ہونے والے چہرے ہیں وہ قومی اسمبلی کا ایوان بالکل نئی جگہ وہ قومی اسمبلی کے ایوان کو ’’حیرت‘‘ سے دیکھ رہے تھے۔ شاید ان کو یقین نہیں آرہاتھا وہ ملک کی سب سے بڑی اسمبلی کی رکن بن گئے ہیں بظاہر پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ مجلس عمل ’’پاکستان الائنس فار فری اینڈ فیئر‘‘ پر کھڑی ہیں لیکن پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے اچانک میاں شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ بنانے کی مخالفت کرکے ان قوتوں کو جو مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت کو دیوار سے لگانا چاہتی ہیں کو یہ پیغام دیا ہے وہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ کھڑے نہیں ہو گی۔ اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ متحدہ اپوزیشن کے قیام کا خوب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آرہا ۔

ای پیپر-دی نیشن