پر تماشہ نہ ہوا
پریس گیلری میں موجود صحافیوں کا خیال تھا کہ جب مسلم لیگ ن‘ ایم ایم اے اور پی پی پی کے ارکان اسمبلی حلف اٹھانے قومی اسمبلی ہال میں داخل ہوں گے تو وہ احتجاجی نعرے لگا رہے ہوں گے۔ یہ خیال بھی تھا کہ حلف اٹھانے سے پہلے اگر احتجاج نہ ہوا تو حلف برداری کے بعد تو ضرور نعرے بازی ہو گی۔ ہال میں کشیدگی پیدا ہو گی لیکن اس رائے اور خدشات کے باوجود حلف برداری کی تقریب بڑے سکون سے مکمل ہو گئی۔ راقم کو اس پارلیمنٹ ہاؤس میں جس کا سنگ بنیاد ذوالفقار علی بھٹو نے رکھا تھا 1985ئ‘ 1988ئ‘ 1990ئ‘ 1993ئ‘1997ء 2002ء کے انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی قومی اسمبلی کے پرشور اور ہنگامہ خیز اجلاس دیکھنے کا موقع ملتا رہا ہے۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد مسلم لیگ (جونیجو) نے حکومت بنائی تھی اس حکومت کی اپوزیشن اتنی توانا نہیں تھی۔ صرف چند ارکان اپوزیشن میں تھے جن میں شیخ رشید احمد‘ حاجی سیف اﷲ‘ فخر امام‘ بیگم عابدہ حسین‘ جاوید ہاشمی‘ راجہ شاہد ظفر‘ سردار آصف احمد علی تھے لیکن یہ اپوزیشن بھی جونیجو حکومت کو ٹف ٹائم دیتی تھی۔ 1988ء کے انتخابات کے بعد جب بینظیر بھٹو کی قیادت میں پی پی پی کی حکومت بنی تو اس کی اپوزیشن جو مسلم لیگ (ن) پر مشتمل تھی نے بینظیر حکومت کا ناک میں دم کئے رکھا۔ پنجاب بھی مسلم لیگ (ن) کے پاس تھا۔ نواز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے۔ وفاق اور پنجاب کی حکومتوں میں ہر وقت ٹھنی رہتی تھی۔ بینظیر بھٹو کی وفاقی حکومت کی رٹ وفاقی دارالحکومت تک محدود تھی‘ فیض آباد سے آگے پنجاب حکومت کی عملداری شروع ہوتی تھی۔ 1989ء میں جب بینظیر بھٹو کیخلاف متحدہ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد پیش کی اور ارکان اسمبلی کی وفاداریاں تبدیل کرانے کا دور شروع ہوا تو پی پی پی کے بعض لیڈر یہ خدشہ ظاہر کرنے لگے تھے کہ ان کے پنجاب سے تعلق رکھنے والے بعض ارکان کو مسلم لیگ کی حکومت گرفتار کر لے گی۔ بینظیر کے خلاف یہ تحریک اعتماد صرف دو ووٹوں سے ناکام ہوئی تھی۔ قومی اسمبلی میں بینظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری پر اپوزیشن کرپشن کے الزامات لگاتی تھی۔ سیاسی کشیدگی کا یہ دور 6 اگست 1990ء کو بینظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے ‘ اسمبلیوں کی تحلیل اور نئے انتخابات کے اعلان پر ختم ہوا۔
اکتوبر 1990ء میں جو انتخابات ہوئے تھے ان میں مسلم لیگ ن کو اکثریت ملی اور اس نے حکومت بنائی۔ آصف زرداری اور بینظیر بھٹو کیخلاف کرپشن مقدمات بنے۔ بینظیر نے 1990ء کے انتخابات کو Rigged قرار دے کر نتائج کو مسترد کر دیا اور نواز شریف حکومت کے خلاف اسمبلیوں میں اور اسمبلیوں کے باہر احتجاج جاری رکھا۔ نواز شریف حکومت اس کشیدہ ماحول میں بمشکل تین سال مکمل کر پائی۔ اپریل 1993ء میں نواز شریف حکومت کو غلام اسحاق خان نے برطرف کر کے نئے انتخابات کا اعلان کیا۔ 1993ء سے 1996ء تک نواز شریف کی قیادت میں اپوزیشن نے بینظیر بھٹو حکومت کو ایک طرح سے مفلوج کئے رکھا۔ اس دور میں بینظیر اور زرداری کیخلاف اپوزیشن سرے محل کا سکینڈل قومی اسمبلی میں سامنے لائی۔ بینظیر کی دوسری حکومت بھی تین سال مکمل نہ کر سکی۔ اسے ڈس مس کر دیا گیا۔ فروری 1997ء میں انتخابات میں نواز شریف دو تہائی اکثریت سے اقتدار میں آ گئے۔ اس دور میں بینظیر اور آصف زرداری کیخلاف احتساب بیورو نے بدعنوانی کے مقدمات قائم کئے۔ آصف زرداری کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس عرصہ میں قومی اسمبلی کا ہر اجلاس ہنگامے کی نذر ہوتا رہا۔
2008ء سے 2013ء تک کے پانچ سال میں (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی نے ماضی کی تاریخ نہیں دہرائی۔ پی پی پی کی حکومت نے پانچ سال مکمل کئے۔ 2013ء میں مسلم لیگ (ن) نے حکومت بنائی لیکن یہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے سے پہلے مشکلات کا شکار ہو گئی۔ 2013ء سے 2018ء تک کے عرصہ میں مسلم لیگ (ن) کی اپوزیشن پیپلز پارٹی کی بجائے تحریک انصاف نے کی۔ تحریک انصاف پی پی پی کو فرینڈلی اپوزیشن ہونے کا طعنہ دیتی رہی۔ پانامہ سیکنڈل سامنے آیا۔ تحریک انصاف اسے سپریم کورٹ لے گئی اور پھر جو ہوا وہ قوم کے سامنے ہے۔ 2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) یہ الزامات لگاتی رہی کہ اسٹیبلشمنٹ ایک لاڈلے لیڈر عمران خان کو آگے لا رہی ہے۔ اسے دھاندلی سے کامیاب کرایا جا رہا ہے۔
اس پس منظر میں ہونے والے الیکشن میں جو اسمبلی بنی ہے اس کے پہلے اجلاس کے بارے میں میڈیا اور سیاسی حلقوں کی رائے یہ تھی کہ 13 اگست کا اجلاس شور شرابے کی نذر ہو جائے گا لیکن یہ اندازے غلط ثابت ہوئے۔ گزشتہ روز ہونے والے حلف برداری کے اجلاس میں مسلم لیگ (ن) نے ارکان اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی قیادت میں آئے لیکن انہوں نے نہ کوئی نعرہ بازی کی اور نہ ہی ہنگامہ۔ کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ شہباز شریف کی قیادت میں ن لیگ احتجاج سے گریز کی پالیسی اپنائے گی۔ پی پی پی کے بارے میں تو عام تاثر یہ ہے کہ وہ بوجوہ فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی۔ حلف برداری کے اجلاس میں جہاں عمران خان کا ہال میں داخلے پر پی ٹی آئی کے منتخب ارکان اور گیلریوں میں بیٹھے تحریک کے کارکنوں نے تالیاں بجا کر استقبال کیا۔وہاں بلاول بھٹو زردار ی کا بھی پی پی پی کے ارکان اور گیلریوں میں موجود جیالوں نے نعروں سے استقبال کیا۔ پی پی پی کی قومی اسمبلی کی رکن شگفتہ جمانی نے دو مرتبہ ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ کے نعرے لگوائے۔ ایک مرتبہ جب آصف علی زرداری کو سب سے پہلے بطور رکن قومی اسمبلی رجسٹر پر دستخط کرانے کے لئے بلایا گیا اور دوسری مرتبہ جب بلاول بھٹو رجسٹر پر دستخط کرنے سپیکر کے ڈائس پر آئے تو سپیکر ایاز صادق کو شگفتہ جمانی کو وارننگ دینا پڑی کہ وہ نعرے بازی بند کریں۔کل کا اجلاس تو سکون سے گزر گیا۔ اب 15 اگست کو سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کے روز کیا ہوتا ہے۔ کیا ن لیگ اب اسی طرح Behave کرے گی جس طرح اس نے پیر کے روز کیا۔