• news

جائیداد کتنے کی تھی نیب نے بتایا ہی نہیں تضادات سے نتیجہ کیسے نکالا : اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد (وقائع نگار+ نامہ نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے نواز شریف ، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا معطلی و ضمانت پر رہائی کی درخواستوں کی سماعت کے دوران سوشل میڈیا پر عدالت سے منسوب غلط ٹکرز پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے خلاف بہت منظم طور پر مہم چلائی گئی، گمراہ کن ٹکرز کا معاملہ ایف آئی اے کو بھیج رہے ہیں ، جو لوگ یہ سب کررہے ہیں وہ توہین کے مرتکب ہوئے ہیں، جب عدالت کے باہر ٹرائل شروع ہو جائے تو وہ سنگین توہین عدالت ہے، میڈیا نے بہت ذمہ داری سے کیس کی رپورٹنگ کی، ہمارے اوپر کوئی پریشر نہیں ہے، سامنے کوئی بھی ہو قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہیں، اگر لوگوں کی خواہشات پر مقدمات کے فیصلے ہونے لگیں تو معاشرے سے انصاف ختم ہو جائے، ہم پر کوئی اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ بدھ کو سزا معطلی و ضمانت پر رہائی کی درخواستوں پر نوازشریف ، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے وکلاءنے دلائل مکمل کر لئے ، آج جمعرات کو نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر دلائل دیں گے۔ ڈویژن بنچ نے نیب پراسیکیوٹر کی جانب سے کمنٹس داخل کرانے کیلئے دو روزہ التواءکی استدعا مسترد کر دی۔ دوران سماعت نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر اور نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔ نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر کا کہنا تھا کہ خواجہ حارث نے وقت پر دستاویزات فراہم نہیں کیں جبکہ خواجہ حارث نے کہا کہ یہ بہت غلط بات کر رہے ہیں ۔ سردار مظفر نے کہا کہ وکیل صفائی نے بروقت درخواست کی نقل فراہم نہیں کی لہٰذا کمنٹس داخل کرانے کیلئے سماعت ملتوی کی جائے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ التواءکی گراﺅنڈ نہیں بنتی۔ سردار مظفر نے کہا کہ میں شہر سے بھی باہر تھا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ نیب وکیل صفائی پر ایسے انحصار نہیں کر سکتا۔ ہم نے پہلے ہی پوچھ لیا تھا کہ کسی فریق کو بنچ پر اعتراض ہے تو بتا دے لیکن کسی فریق نے انگلی نہیں اٹھائی ، شفاف ٹرائل کیلئے ضروری ہے کہ عدالت پر مکمل اعتماد ہونا چاہئے۔ ہمارے اوپر کوئی پریشر نہیں ہے، سامنے کوئی بھی ہو قانون کے مطابق فیصلے کرنے ہیں۔ تفتیشی افسر نے مانا کہ اس کے پاس ریفرنس دائر کرنے کے سوا کوئی اور آپشن نہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا یہ تفتیشی افسر کا بیان تھا کہ اس کے پاس کوئی اور آپشن نہیں تھا ، وہ سپریم کورٹ بھی جا سکتا تھا کہ ابھی مزید تحقیقات کی ضرورت ہے ، سپریم کورٹ نے اس سے تحقیقات کا استحقاق تو نہیں لیا تھا ، کیا تفتیشی افسر نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو سمجھنے میں غلطی کی؟ خواجہ حارث نے کہا کہ ہم یہی سمجھتے ہیں کہ انہوں نے یہ غلطی کی ، نیب کے پاس اس لئے پیش نہیں ہوئے کہ وہ ہمارا دفاع جاننا چاہتے تھے ، ہمیں کال اپ نوٹس میں یہ کہا گیا کہ اگر آپ پیش نہیں ہوتے تو یہ سمجھا جائے گا آپ کے پاس دفاع میں کچھ نہیں ، نیب کے سامنے پیش بھی ہوتے تو بھی ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا تھا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ کیا جب نوازشریف نیب کے پاس پیش نہیں ہوئے تو نیب ان کو گرفتار کرسکتا تھا؟ خواجہ حارث نے کہا کہ چیئرمین نیب کے پاس اختیارات تھے۔ اب ایس او پیز بنا دی گئی ہیں ، نیب نے نواز شریف کو گرفتار نہیں کیا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ تفتیشی افسر مطمئن تھا کہ اس کے پاس دستیاب مواد کافی نہیں ہیں۔ خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ سزا معطلی اور ضمانت پر رہائی عدالتی استحقاق ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ کے مطابق نواز شریف کی ملکیت کے حوالے سے ریکارڈ پر کچھ موجود نہیں ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ جی نیب گواہوں نے تسلیم کیا ہوا ہے کہ ان کے پاس نواز شریف کے خلاف براہ راست کوئی ثبوت نہیں۔ نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے کہا کہ نیب بچوں اور نوازشریف کے معلوم ذرائع ریکارڈ پر لے کر آئی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ نے بتانا ہے کہ کیسے معلوم ذرائع ریکارڈ پر لائے ، آپ نے بتانا تھا کہ جائیداد کتنے کی تھی ، جب یہ بتایا ہی نہیں گیا تو پھر تضادات کا نتیجہ کیسے نکالا؟ نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے کہا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے سامنے جائیداد کی قیمت بتائی ہوئی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ نے عدالت کو بتانا ہے کہ کیسے تضاد سامنے آیا ، عام آدمی جس طرح سوچتا ہے قانون وہ نہیں ہے کہ پراپرٹی جس کی ہے ثبوت بھی وہی دے ۔ نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے کہا کہ میں آپ کو وجوہات بتاﺅں گا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے کہا ہے کہ مریم نواز نے جو دستاویزات پیش کیں وہ جعلی تھیں ، ٹرسٹ ڈیڈ کس بنیاد پر جعلی قرار دی گئی؟ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ کو بنیاد بنایا گیا ہے ، رابرٹ ریڈلے نے کہا کہ کیلیبری 2006ءسے پہلے کمرشلی دستیاب نہیں تھا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ اس ٹرسٹ ڈیڈ کا سیٹلر کون تھا؟ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ اس کا بینفشری اور سیٹلر حسین نواز ہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس ٹرسٹ ڈیڈ پر کبھی عمل نہیں ہوا ، ٹرسٹ ڈیڈ میں لکھا ہے کہ موت کی صورت میں جائیداد کیسے سیٹل ہو گی ، یہ بہن بھائی کے درمیان نجی معاملہ ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ نیب کا کہنا ہے کہ مریم نواز نے خود کہا کہ وہ بینفشل آنر ہیں ۔ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایسا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا مریم نواز شریف کو مالک نہیں کہا گیا؟ امجد پرویز نے کہا کہ جی ایسا ہی ہے۔ الزام یہ ہے کہ مریم نواز نے معاونت کی۔ نیب کے مطابق یہ جائیداد 1993ءمیں خریدی گئی جبکہ ٹرسٹ ڈیڈ 2006ءکی ہے۔ اب ان اثاثوں کو بنانے میں مریم نواز نے کیسے مدد کی؟ نیب کا کیس بہت کمزور ہے۔ مریم نواز نے سازش اور معاونت کیسے کی؟ استغاثہ کے مطابق 2006ءسے پہلے حسن نواز مالک تھے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ آپ نے یہ نہیں بتایا کہ کس تاریخ کو قطری نے کہا کہ یہ فلیٹس آپ کے ہوئے۔ ہمیں کوئی تاریخ بتادیں تاکہ ہم لکھ لیں۔ کل ہمیں 2005ءکا بتایا گیا تھا۔ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ میں ریکارڈ دیکھ کر تاریخ بتا دیتا ہوں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ یہ ٹرسٹ ڈیڈ بی وی آئی نے داخل کی تھی ، جہاں یہ ٹرسٹ ڈیڈ رجسٹر ہوتی ہے وہاں سے کوئی رپورٹ حاصل کی؟ جسٹس اطہر من اللہ نے نیب پراسیکیوٹر کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ نے نواز شریف اور مریم نواز کا کردار علیحدہ علیحدہ کر دیا ہے ، مریم نواز پر مالک ہونے کا الزام عائد نہیں کیا بلکہ بے نامی دار کہہ کر بینیفشل آنر کہا ہے ، اگر مریم نواز کی ٹرسٹ ڈیڈ جعلی بھی ہو تو اس کا شریف خاندان کو کیا فائدہ حاصل ہوا؟ امجد پرویز ایڈووکیٹ نے مزید دلائل دینے کی استدعا کی تو جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ معاونت اور سازش کا الزام کس عرصے سے تعلق رکھتا ہے۔ دوسری جانب اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ سٹیل ملزمیں پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا کو بھی 20اگست کو طلب کرلیا ہے، مسلم لیگ(ن) کے صدر میاں شہباز شریف بھی پہلی بار عدالتی کارروائی کے دوران احتساب عدالت میں موجود تھے، تفتیشی افسر محبوب عالم کا مکمل بیان ریکارڈ نہ ہوسکا، وہ آئندہ سماعت پر بھی اپنا بیا ریکارڈ کرائیں گے، بیان ریکارڈ کراتے ہوئے تفتیشی افسر محبوب عالم نے بتایا کہ العزیزیہ ریفرنس کی تفتیش سونپی گئی، تفتیش سونپے جانے کے بعد سپریم کورٹ سے متعلقہ ریکارڈ حاصل کیا، سپریم کورٹ سے حاصل ریکارڈ میں آئینی اور متفرق درخواستیں شامل تھیں۔ خواجہ حارث کی عدم موجودگی کے باعث واجد ضیا کو جانے کی اجازت دیدی گئی ،سماعت کے دوران اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیراعظم نواز شریف کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ تفتیشی افسر نے کہاکہ ملزمان کی بتائی ہوئی منی ٹریل من گھڑت کہانی نکلی ۔نواز شریف کا یہ موقف درست نہیں کہ انہیں ان جائیدادوں کا علم نہیں۔ یو اے ای سے آنیوالے ایم ایل اے کے جواب سے ملزمان کا موقف غلط ثابت ہوا ۔تفتیش سے ثابت ہوتا ہے کہ نواز شریف ان اثاثوں کے مالک ہیں۔ایک اعشاریہ دو اور دس ملین ڈالرز کی دو ٹرانزکشین ہل میٹل سے نوازشریف کے اکاونٹ میں ہوئی۔ مریم نواز کے اکاﺅنٹ میں 59.256ملین روپے آئے۔ایک اعشاریہ پانچ ملین روپے حسن کے اکاﺅنٹ میں آئے۔ بچوں کے ذرائع آمدن نہیں تھے وہ نواز شریف کے بے نامی دار تھے ۔یہ تمام اثاثے نواز شریف کے معلوم ذرائع آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے۔آڈٹ رپورٹ کے مطابق ہل میٹل کا اٹھاسی فیصد منافع نواز شریف کے ذاتی اکاﺅنٹ میں آیا۔
نوازشریف درخواستیں

ای پیپر-دی نیشن