• news
  • image

آنے والے حالات کی ایک جھلک

گزشتہ روز ن لیگ نے خاموشی توڑ ڈالی۔ 13 اگست کو حلف برداری کے دوران قومی اسمبلی کے اجلاس میں غیر متوقع طور پر کوئی ہنگامہ یا شور شرابہ نہیں ہوا۔ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے قاعدے قانون کے مطابق حلف اٹھایا اور ساری کارروائی سکون سے گزر گئی۔ گزشتہ روز سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے عہدوں کیلئے انتخاب سے پہلے مسلم لیگ ن کے ارکان کے تیور بدلے ہوئے تھے۔ ن لیگ کے ارکان نے سیاہ پٹیاں بازوؤں پر باندھ رکھی تھیں۔ انہوں نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی رنگین تصویروں والے پوسٹر بھی اٹھا رکھے تھے۔ ہال میں داخل ہوتے ہوئے انہوں نے نواز شریف کے حق میں نعرہ بازی شروع کر دی۔ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ ۔ ’’جعلی مینڈیٹ قبول نہیں‘‘ کے نعرے بھی لگائے گئے۔ اس احتجاج میں پاکستان پیپلز پارٹی ‘ ایم ایم اے اور دوسری جماعتوں نے مسلم لیگ ن کا ساتھ نہیں دیا۔ سپیکر ایاز صادق نے بھی دل کی خوب بھڑاس نکالی۔ انہوں نے سپیکر کے منصب کے لئے انتخاب کے دوران کہا کہ ہم سپیکر کا انتخاب شفاف طریقے سے کرائیں گے۔ ہم امیدواروں کو پولنگ ایجنٹوں کو ہال سے باہر نہیں نکالیں گے۔ ہم سپیکر کے انتخاب کے نتیجہ کی گنتی کے وقت بھی پولنگ ایجنٹوں کو یہاں سے نہیں نکالیں گے۔ گنتی ان کے سامنے کریں گے اور جس کاغذ پر نتیجہ درج ہو گا اس پر امیدواروں کے پولنگ ایجنٹوں کے دستخط بھی ہوں گے۔ الیکشن کمشن آف پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ جن پر ن لیگ الزام لگاتی ہے کہ اس نے الیکشن کمشن کی مدد سے 25 جولائی کا مینڈیٹ چرایا ہے ورنہ مسلم لیگ ن جیت رہی تھی۔ سپیکر ایاز صادق کا ہدف تھے۔ ان کے سارے طنزیہ جملوں کا ہدف الیکشن کمشن تھا۔
سپیکر کے ان طنز بھرے جملوں کے دوران سپیکر کا انتخاب بھی جاری رہا۔ پریس گیلری میں یہ چہ مگوئیاں بھی ہوتی رہیں کہ سپیکر کے الیکشن میں اپ سیٹ بھی ہو سکتا ہے لیکن اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ پی ٹی آئی کے امیدوار اسد قیصر کو شکست بھی دے سکتے ہیں۔ ایک اطلاع یہ بھی پارلیمنٹ کی لابیوں میں گردش کرتی رہی کہ سابق سینیٹر قیوم سومرو جنہیں آصف علی زرداری کا معتمد خاص سمجھا جاتا ہے اور منگل کی رات بہت سرگرم رہے وہ پارلیمانی لاجز میں ارکان اسمبلی سے آصف علی زرداری کے خصوصی پیغام کے ساتھ ملاقاتیں کرتے رہے۔ خورشید شاہ خود بھی ہفتے بھر سے دارالحکومت میں اپوزیشن ارکان اور بعض حکومتی ارکان سے رابطوں میں تھے۔ اس لئے اپ سیٹ ہونے کے امکانات کا ذکر چلتا رہا۔ نتیجہ سامنے آیا اور اسد قیصر 176 ووٹ لے کر کامیاب قرار پائے۔ خورشید شاہ نے بھی زبردست مقابلہ کیا۔ انہوں نے 146 ووٹ لئے۔ آٹھ ووٹ مسترد ہوئے۔
انتخاب کے بعد سابق سپیکر ایاز صادق نے جب الوداعی تقریر کی تو انہوںنے 25 جولائی کے انتخابات پر پھر سوالات اٹھائے اور ان انتخابات کو غیر منصفانہ اور غیر شفاف قرار دیا۔ ڈپٹی سپیکر کے الیکشن سے پہلے مسلم لیگ کے ارکان نے ایک طوفان برپا کر دیا۔ شہباز شریف کی قیادت میں مسلم لیگی ارکان نے اپنی جیبوں سے نواز شریف کی تصویر والے پوسٹر نکالے اور سپیکر کے ڈائس کے سامنے آ کر ’ووٹ کو عزت دو‘ جعلی مینڈیٹ نا منظور‘ شرم کرو حیا کرو‘ نواز شریف کو رہا کرو‘‘ کے نعرے لگائے۔ اس نعرہ بازی کے دوران مسلم لیگ ن کے ارکان ممکنہ وزیراعظم پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی کرسی کے سامنے جمع ہو کر اشتعال انگیز نعرے لگاتے رہے۔ عمران خان بالکل پرسکون بیٹھے رہے۔ ان کے چہرے پر ہلکی مسکراہٹ بھی تھی۔ وہ مشتعل بھی ہوئے پی ٹی آئی کے بعض ارکان نے لیگی ارکان سے الجھنے کی کوشش کی لیکن شاہ محمود قریشی اور کئی دوسرے سمجھدار ارکان نے انہیں قابو میں رکھا۔ ورنہ ایک لمحے کو یہ محسوس ہو رہا تھا کہ ن لیگ اور پی ٹی آئی کے ارکان گھتم گھتا ہو جائیں گے۔ مہمانوں کی گیلری میں بیٹھے پی ٹی آئی کے بعض جنونی نوجوانوں نے ہال کے اندر چھلانگ لگا کر حالات خراب کرنے کی کوشش کی لیکن پی ٹی آئی کے ارکان نے انہیں خاموش کرا دیا۔
سپیکر کے انتخاب کے موقع پر ہونے والے ہنگامے کا ایک پس منظر یہ بھی تھا کہ شہباز شریف نے سپیکر کے انتخاب سے پہلے اڈیالہ جیل میں بڑے بھائی نواز شریف سے ملاقات کی تھی۔ جہاں نواز شریف نے شہباز صاحب سے کہا کہ وہ انتخابی دھاندلیوں کیخلاف کوئی صدائے احتجاج کیوں بلند نہیں کر رہے۔ اس ملاقات کا بھی یہ اثر بتایا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی ہال میں داخل ہوئے تو وہ غصے سے بھرے ہوئے تھے اور انہوں نے بھرپور طور یر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔ محسوس ہو رہا ہے کہ اب مسلم لیگ ن اگلے اجلاس میں بھی یہی رویہ اختیار کرے گی۔ قومی اسمبلی کے آئندہ اجلاس بھی پرشور ہوں گے۔ ان اجلاسوں میں سرخ لائن بھی عبور ہو گی اور نوے کی دہائی کے اجلاسوں کا منظر بھی دہرایا جا سکتا ہے۔ جب مسلم لیگ ن اور پی پی پی کے ارکان ہر اجلاس میں ایک دوسرے سے گھتم گھتا ہونے کے لئے تیار رہتے تھے۔ آئندہ اجلاسوں میں اس طرح کے مناظر دہرائے جانے کا بڑا امکان ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے لیے البتہ ایک چیلنج یہ ہوگا کہ وہ پی پی پی اور دوسری ہم خیال جماعتوں کو اپنے احتجاج میں شریک رکھ سکے گی یا نہیں۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن