• news

عمران کے آج وزیراعظم بننے کی راہ ہموار‘ پیپلز پارٹی نے شہبازشریف کی حمایت سے انکار کر دیا

اسلام آباد/ لاہور (خصوصی نمائندہ+ وقائع نگار خصوصی+ خصوصی رپورٹر) الیکشن کمشن نے صدارتی الیکشن کا شیڈول جاری کردیا جس کے مطابق صدارتی الیکشن 4 ستمبر کو ہونگے۔ 27 اگست کو امیدواروں کے کاغذات نامزدگی وصول کئے جائیں گے۔2 9 اگست تک جانچ پڑتال ‘30 اگست تک کاغذات نامزدگی واپس لئے جا سکیں گے‘ اسی دن امیدواروں کی حتمی فہرست جاری کی جائے گی‘ پولنگ صبح 10 بجے سے شام 4 بجے تک جاری رہے گی‘ چاروں ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان پریذائیڈنگ افسر ہوں گے۔ الیکشن کمشن کے مطابق صدر مملکت ممنون حسین کے عہدے کی مدت 8 ستمبر کو پوری ہو رہی ہے۔ سینٹ آف پاکستان اور قومی اسمبلی کے پریذائیڈنگ آفیسر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ ہوںگے۔ لاہور سے خصوصی رپورٹر کے مطابق وزیراعظم کے انتخاب کیلئے قومی اسمبلی کا اجلاس (آج) جمعہ کو ساڑھے تین بجے سہ پہرہو گا جس میں قائد ایوان کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا۔ ووٹنگ کے دوران ایوان کے تمام دروازے بند کر دیئے جائیں گے‘ دروازے بند کرنے سے قبل 5 منٹ کیلئے گھنٹیاں بجائی جائیں گی تاکہ ایوان سے باہر موجود ارکان ایوان میں آسکیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران کسی بھی رکن کو بحث کی اجازت دیئے بغیر قائد ایوان (وزیراعظم) کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا۔ انتخاب کیلئے ڈویژن کا طریقہ اپنایا جائے گا جس کے تحت ووٹ ڈالنے والے رجسٹر پر دستخط کرنے کے بعد دو مختلف دروازوں سے باہر جائیں گے۔ اسلام آباد سے وقائع نگار خصوصی کے مطابق تحرک انصاف کے چےئرمےن عمران خان اور مسلم لےگ (ن) کے صدر مےاں شہباز شرےف کے درمےان ”ون آن ون“ مقابلہ ہو گا۔ نئے منتخب سپیکر اسدقیصر نے کہا کہ قائدایوان کیلئے کاغذات نامزدگی قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائے گئے۔ قائد ایوان کا انتخاب قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط2007 کے تحت ڈویژن کے ذریعے ہوگا۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وزارت عظمیٰ کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے، عمران خان کے تجویز کنندہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید جبکہ تائید کنندہ فخر امام تھے۔ عمران خان کے مقابلے میں مسلم لیگ(ن)کے صدر شہباز شریف نے وزارت عظمی کیلئے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے، صدر مسلم لیگ (ن )اور سابق وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کے کاغذات نامزدگی خواجہ آصف، احسن اقبال اور ڈاکٹر درشن نے جمع کرائے۔ 342 ارکان پر مشتمل ایوان میں وزیراعظم منتخب ہونے کیلئے 172 ووٹوں کا حصول لازمی ہے۔ قائد ایوان کیلئے امیدواروں کی تعداد دو یا اس سے زائد ہو یا کوئی امیدوار مطلوبہ تعداد میں ووٹ حاصل نہ کر سکے تو ایسی صورت میں عددی برتری رکھنے والے صرف دو امیدواروں کے درمیان دوبارہ ووٹنگ ہوگی۔اکثریت حاصل کرنے والا امیدوار کامیاب قرار پائے گا تاہم دونوں امیدواروں کے ووٹوں کی تعداد برابر ہوئی تو ایسی صورت میں سپیکر قومی اسمبلی کا ووٹ فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔ سپےکر نے وزیراعظم کے انتخاب کیلئے تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں کے امیدوار عمران خان پاکستان مسلم لیگ ن اور متحدہ مجلس عمل کے امیدوار محمد شہبازشریف کے کاغذات نامزدگی منظور کرلیے۔ تجویز و تائید کنند گان کی موجودگی میں وزیراعظم کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی پڑتال کی گئی۔ عمران خان کو تحریک انصاف،ایم کیوایم پاکستان، بلوچستان عوامی پارٹی، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس،مسلم لیگ ق،عوامی مسلم لیگ ودیگر ہم خیال جماعتوںنے وزیراعظم کا امیدوار نامزد کیا ہے۔ عمران خان کو تحریک انصاف و اتحادی جماعتوں کے دس ارکان قومی اسمبلی نے نام تجویز کیا۔ اسی طرح ان جماعتوں کے دس ارکان نے تائید کی۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کاغذات کی جانچ پڑتال کی۔عامر محمود ڈوگر،شیخ رشید احمد،فہمیدہ مرزا،ڈاکٹر عارف علوی اور دیگر تجویز و تائید کنندہ موجود تھے۔ مسلم لیگ ن اور متحدہ مجلس عمل کے مشترکہ امیدوار شہبازشریف کو سات ارکان نے تجویز اور سات نے تائید کی۔ مرتضی جاوید عباسی ،رانا ثناءاللہ اور دیگر تجویز و تائید کنندہ موجود تھے۔ سپیکر نے دونوں امیدواروں کے تجویز و تائید کنندگان کی موجودگی میں کاغذات نامزدگی کی منظوری کا اعلان کیا۔ کاغذات کی منظوری کا یہ عمل گزشتہ روز سہ پہر چار بجے مکمل کرلیا گیا اور انتخابی اجلاس کا نوٹس جاری کردیا گیا ہے۔ آئی این پی کے مطابق تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور مسلم لیگ (ن)کے صدر شہباز شریف میں مقابلہ ہو گا ،دونوں امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کے بعد منظورکر لئے گئے ہیں،قائد ایوان کا انتخاب خفیہ رائے شماری کی بجائے ایوان کی ڈویژن کیلئے ذریعے ہوگا،ہر امیدوار کیلئے قومی اسمبلی ہال سے ملحقہ ایک ایک لابی مختص ہوگی، جو رکن جس امیدوار کو ووٹ دینا چاہے گا اس لابی میں چلا جائے گا جس کے بعد ارکان کی گنتی کے بعد اکثریت حاصل کرنے والا امیدوار ملک کا نیا وزیراعظم ہوگا، قومی اسمبلی میں ابھی تک330ارکان نے حلف اٹھایا ہے جن میں سے وزیر اعظم منتخب ہونے کیلئے 166ووٹ درکار ہوں گے۔ قومی اسمبلی کے قواعد کے مطابق 342کے ایوان میں وزیراعظم کے انتخاب کے لیے کسی بھی امیدوار کو سادہ اکثریت یعنی 172ووٹ لینا ہوتے ہیں، ایوان زیریں میں موجودہ پارٹی پوزیشن کو دیکھا جائے تو 152 نشستیں تحریک انصاف کے پاس ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن)کی ایوان میں 81نشستیں ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی 54نشستیں، متحدہ مجلس عمل 15، متحدہ قومی مومنٹ 7، بلوچستان عوامی پارٹی 5، بی این پی مینگل 4، پاکستان مسلم لیگ ق 3، جی ڈی اے 3، عوامی مسلم لیگ، جمہوری وطن پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کی ایک ایک نشست ہے جبکہ 4نشستیں آزاد امیدواروں کے پاس ہیں۔ تحریک انصاف کی سپورٹ کو دیکھا جائے تو اسے متحدہ قومی مووومنٹ 7، مسلم لیگ ق 3، بلوچستان عوامی پارٹی 5، بی این پی مینگل 4، جی ڈی اے 3، عوامی مسلم لیگ اور جمہوری وطن پارٹی کے ایک ایک ممبر کی حمایت حاصل ہے جس سے ان کی ایوان میں عددی قوت 176بنتی ہے۔چار آزاد امیدواروں کا جھکاﺅ بھی تحریک انصاف کی جانب ہوسکتا ہے، ایسا ہوا تو پی ٹی آئی وزارت عظمی کے لیے 180ارکان کی حمایت حاصل کرسکتی ہے۔ اپوزیشن کی عددی قوت 151بنتی ہے جبکہ 4آزاد امیدواروں کس سے ہاتھ ملائیں گے یہ واضح نہیں۔ 342کے ایوان میں 2نشستوں پر انتخابات ملتوی ہوئے جبکہ 6نشستیں پی ٹی آئی ، 2نشستیں ق لیگ اور 1نشست ن لیگ کے حمزہ شہباز کی جانب سے ایک سے زائد نشستوں پر کامیابی کے باعث خالی ہوئی۔ ایک نشست این اے 215پر پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کی کامیابی کا نوٹیفیکیشن عدالت عظمی کی جانب سے جاری کرنے کا حکم دے دیا گیا مگر اب تک ایسا ہوا نہیں اور یوں یعنی ایوان 330کا ہوگا۔ صباح نیوز کے مطابق تحریک انصاف کے نامزد وزیر اعظم عمران خان نے متوقع حکمران اتحاد کی پارلیمانی پارٹی کا پہلا مشترکہ اجلاس آج (جمعہ کو ) طلب کر لیا جبکہ ملتان سے تحریک انصاف کے منتخب رکن عامر ڈوگر کو ایوان میں چیف وہیپ مقرر کر دیا گیا ہے حکمران اتحاد کی پارلیمانی پارٹی کا مشترکہ اجلاس دوپہر دو بجے نامزد وزیراعظم عمران خان کی صدارت میں سپیکر قومی اسمبلی کے لاﺅنج میں ہو گا۔ اجلاس میں تحریک انصاف، ایم کیو ایم، بلوچستان عوامی پارٹی، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس،پاکستان مسلم لیگ ق ، عوامی مسلم لیگ اور دیگر ہمخیال جماعتوں کے ارکان شریک ہوں گے حکمران اتحاد کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد ارکان عمران خان کی قیادت میں قومی اسمبلی آئیں گے۔ اجلاس 2 بجے پارلیمنٹ ہاﺅس میں ہو گا۔ عمران خان نے ارکان کو حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی۔
وزیراعظم/ مقابلہ

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) پیپلزپارٹی نے قومی اسمبلی میں وزارت عظمیٰ کیلئے شہبازشریف کی حمایت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی کور کمیٹی کا اجلاس چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سابق صدر آصف علی زرداری کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں پیپلزپارٹی کی سینئر قیادت نے شرکت کی۔ اجلاس میں وزارت عظمیٰ کیلئے شہباز شریف کی حمایت کرنے پر اتفاق نہ ہوسکا۔ مزید براں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) میں اختلافات شدت اختیار کر گئے۔ مسلم لیگ (ن) نے سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی کا فیصلہ کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے سینٹ میں اپنا اپوزیشن لیڈر لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنی جماعت کا سینٹ اپوزیشن لیڈر لانے کیلئے مختلف جماعتوں سے رابطے کئے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے نیشنل پارٹی‘ پی کے میپ اور جے یو آئی (ف) سے رابطہ کیا ہے۔ اس وقت پیپلزپارٹی کی شیری رحمان سینٹ میں اپوزیشن لیڈر ہیں۔ پیپلز پارٹی نے سیاسی تاریخ میں پہلی بار قائد ایوان کے الیکشن میں لاتعلق رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ ذرائع کے مطابق پی پی آج قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرے گی لیکن انتخابی عمل کا حصہ نہیں بنے گی۔ پی پی عمران خان اور شہباز شریف کسی کو بھی وزیراعظم کا ووٹ نہیں دے گی۔ آصف زرداری نے آج اسمبلی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ بلاول بھٹو کی قیادت میں ارکان اجلاس میں شریک ہونگے۔ قائد ایوان کے انتخاب کے بعد بلاول بھٹو خطاب بھی کریں گے۔ مزید براں جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے سابق صدر آصف علی زرداری سے زرداری ہاﺅس اسلام آباد میں ملاقات کی۔ نجی ٹی وی کے مطابق ملاقات میں قائد ایوان کے انتخاب سے لاتعلق رہنے کے پی پی کے فیصلے پر بات چیت کی گئی جبکہ اپوزیشن اتحاد میں فاصلے کم کرنے سے متعلق بھی گفتگو ہوئی۔ دونوں رہنماﺅں نے صدر مملکت کے الیکشن سے متعلق ابتدائی مشاورت بھی کی گئی۔ اے این پی کے رہنما زاہد خان نے کہا ہے پی پی کے فیصلے کو دیکھ کر لگا کہ ملک میں سیاست کتنا گر گئی ہے۔ اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں نے کہا تھا کہ موجودہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی، اپوزیشن کے اتحاد میں دراڑ ڈالنے کا الزام تو پی پی کے سر جاتا ہے، پی پی نے خورشید شاہ کیلئے تو مسلم لیگ ن سے ووٹ لے لیا تھا۔ترجمان پی ٹی آئی فواد چودھری نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا عمران خان نے مجھے ابھی پنجاب کے وزیراعلیٰ کا نہیں بتایا۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ کا فیصلہ کچھ دنوں میں ہوجائے گا۔ اپوزیشن کو کہہ چکے ہیں اجلاس میں بدمزگی پیدا نہ کریں۔ اپوزیشن ہمارے ساتھ مل کر بیٹھے، مسائل حل کریں گے۔ وہ انتخابات سے متعلق خدشات سامنے لائیں۔ 19, 18اگست کو کابینہ کا اعلان کر دیا جائے گا۔ امید ہے کابینہ عید سے پہلے حلف اٹھائے گی۔ پی پی نے اسمبلی اجلاس میں ذمہ داری کا ثبوت دیا‘ پہلے ہی کہا تھا کہ اپوزیشن اتحاد زیادہ دیر نہیں چلے گا۔ ہم چھانگا مانگا کی سیاست نہیں دہرائیں گے۔ قومی اسمبلی میں نمبرز گیم واضح اور ہمارے حق میں ہے۔ بحیثیت جماعت کسی جماعت میں فاروڈ بلاک کے حق میں نہیں۔ وزیراعظم کی رہائش کا معاملہ حتمی طور پر طے نہیں ہوا۔ عمران خان کا طرز زندگی نوازشریف کے قریب بھی نہیں۔ وقائع نگار خصوصی‘ اپنے سٹاف رپورٹر کے مطابق بنی گالہ مےں چےئرمےن کی زےر صدارت اجلاس مےں مرکزی قےادت نے طے کےا وزےراعظم کے انتخاب مےں اتحادی جماعتوں کی رائے کو اولےت دی جائے گی اجلاس مےں عمران خان کے وزےراعظم منتخب ہونے کے بعد بطور قائد اےوان پہلے خطاب کے امور بھی دےکھے گئے جس مےں عمران خان اپنی حکومت ، کابےنہ ، سادگی، پرتعےش گھروں مےں رہنے سے گرےز، بےروزگار ی، غربت اور سی پےک کے فوائد کو اپنے خطاب مےں نماےاں رکھےں گے۔ صباح نیوز کے مطابق پیپلزپارٹی کے رہنما خورشیدشاہ نے کہا کہ پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ(ن) کو وزارت عظمیٰ کے امیدوار پر اپنے تحفظات سے آگاہ کر دیا تھا۔ آن لائن کے مطابق مسلم لیگ ن کے رہنما رانا ثناءاللہ نے کہا ہے پیپلزپارٹی نے اپنا موقف بدلا ہے تو اسکا وہ خود جواب دے سکتے ہیں، وزارت عظمیٰ کی نامزدگی مسلم لیگ( ن) کی صوابدید تھی، خورشید شاہ کوہماری مشاورت سے نامزد نہیں کیا گیا تھا، آصف علی زرداری کے اوپر نیب اور ایف آئی اے میں مقدمات چل رہے اگر وہ کوئی رعایت لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ نمائندہ خصوصی کے مطابق پی پی پی کے مرکزی اطلاعات سیکرٹری سینیٹر مولابخش چانڈیو نے نون لیگ کے رہنماﺅں کے بیانات پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہماری قیادت کی کوئی مجبوری نہ پہلے تھی نہ اب ہے، ہماری قیادت کے متعلق بیانات دینے سے قبل نون لیگی دوست پہلے شہباز شریف کا کردار تو لےں،نون لیگ کے سب سے بڑے دشمن شہباز شریف ہیں، لیگی قیادت انکھیں کھولے، شہباز شریف نے جمہوریت کو نقصان پہنچایا اور پنجاب میں جیالوں کو اذیتیں دیں،یہ شخص کل تک بلاول بھٹو، آصف زرداری کے متعلق ہرزہ سرائی کرتے رہے،پنجاب میں پی پی قیادت اور کارکنوں کو شہباز شریف نے ہر دور میں انتقام کا نشانہ بنایاہمارا جگھڑا نون لیگ سے نہیں شہباز شریف کے مشکوک کردار نے ہمیں مجبور کیا ہے، ہماری مجبوری نظام ، ائین اور قانون ہے، جیلوں سے ڈرنے والے نہیں ، لیگی دوستوں کی قیادت جیلوں میں رو رو کر معاہدے کر گئی، ہم نے کبھی سمجھوتے نہیں کئے۔ ہمیں مجبوریوں کا طعنہ دینے والے پہلے اپنی تاریخ دیکھیں، ہم نے جمہوریت کی خاطر جانیں دیں اب بھی ہم ہی میدان میں کھڑے ہیں۔

پیپلز پارٹی/ فیصلہ

ای پیپر-دی نیشن