• news

تحریک انصاف کے عثمان بزدار 186 ووٹ لیکر وزیراعلی منتخب‘ اپوزیشن کا ہنگامہ ‘ حمزہ شہباز 159 ووٹ لے سکے : پی پی لاتعلق

لاہور، اسلام آباد (خصوصی رپورٹر+ خبرنگار+ خصوصی نامہ نگار+ نوائے وقت نیوز) تحریک انصاف کے نامزد امیدوار عثمان بزدار پنجاب کے نئے وزیراعلی منتخب ہوگئے ۔ عثمان بزدار نے 186اور حمزہ شہباز نے 159ووٹ حاصل کئے۔ اتوار کو پنجاب اسمبلی کا اجلاس سپیکرپنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کی زیر صدارت ایک گھنٹہ 15 منٹ تاخیر سے شروع ہوا۔ اجلاس کے آغاز کا وقت 11 بجے صبح طے کیا گیا تھا جو کہ 12:15پر شروع ہوا۔ سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی نے تلاوت قرآن مجید کے بعد اجلاس کا باقاعدہ آغاز کیا۔ ووٹنگ کا عمل خفیہ رائے شماری کی بجائے ڈویژن رائے شماری کا طریقہ اپنایا گیا، تحریک انصاف کے عثمان بزدار نے 186 ووٹ حاصل کئے جبکہ انکے مدمقابل مسلم لیگ(ن) کے حمزہ شہباز نے 159 ووٹ حاصل کئے۔ وزیراعلیٰ کا انتخاب خفیہ رائے شماری کے بجائے اراکین کو سپیکر کے دائیں اور بائیں جانب جمع ہو کر انکی گنتی کے عمل سے کیا گیا تاہم پیپلز پارٹی نے قائد ایوان کے انتخاب کے عمل کے دوران کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہ دیا۔ سپیکر اسمبلی نے عثمان بزدار کو ووٹ دینے والے اراکین کو اسمبلی ہال کے دائیں جانب اور حمزہ شہباز کو ووٹ دینے والے اراکین کو بائیں جانب لابی میں جمع ہونے کی ہدایت کی جس کے بعد ہال کے دروازے بند کرادیے گئے جبکہ سپیکر نے ہدایت کی کہ جب تک ارکان کی گنتی مکمل نہیں ہوتی کوئی رکن باہر نہیں جائیگا،پنجاب اسمبلی میں آزاد حیثیت میں منتخب ہونیوالی جگنو محسن نے پی ٹی آئی کے امیدوار عثمان بزدار کو ووٹ دیا، ووٹوں کی گنتی کا عمل مکمل ہونے کے بعد سپیکر نے تحریک انصاف کے امیدوار عثمان بزدار کی کامیابی کا اعلان کیا۔ پی ٹی آئی کے ارکان نے کامیابی پر شدید نعرے بازی کی ، ارکان وزیراعلیٰ کو مبارکباد دیتے رہے اور گلے ملتے رہے۔ اسمبلی اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی تو مسلم لیگ (ن) کے اراکین سپیکر ڈائس کے سامنے جمع ہوئے اور شدید نعرے بازی کرتے ہوئے احتجاج کیا۔ لیگی ارکان سیاہ پٹیاں باندھ کر اجلاس میں آئے۔ لیگی ارکان نے کہا یہ الیکشن نہیں بلکہ سلیکشن ہو رہی ہے تاہم سپیکر نے احتجاج کی پرواہ کئے بغیر اجلاس کی کارروائی جاری رکھی۔ایوان سے خطاب کرتے ہوئے نومنتخب وزیراعلی پنجاب سردار عثمان احمد خان بزدار نے کہا میری حکومت کی ترجیحات میں گڈ گورننس قائم کرنا، پولیس کے نظام کو بہتر بنانا، لوکل گورنمنٹ کے نظام کو مضبوط کرنا ہے، ہم اداروں کو مضبوط کریں گے اور انہیں سسٹم دیں گے۔ وزیراعلی ٰ نے مزید کہا کہ انکا تعلق پنجاب کی پسماندہ ترین تحصیل سے ہے، میرا میرٹ یہ ہے کہ میں جنوبی پنجاب کی پسماندہ ترین تحصیل سے تعلق رکھتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بے شمار مشکلات اور چیلنجز ہیں لیکن اللہ کی مدد ہمارے شامل حال رہی تو ہم عمران خان کے ویژن کو لیکر تمام مسائل حل کریں گے۔ ہم صرف جنوبی پنجاب ہی نہیں پورے پنجاب میں حالات کو درست کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ کرپشن کا خاتمہ کرنا ضروری ہے ہم سٹیٹس کو توڑیں گے۔ ہمارے ارکان اسمبلی اپنے اپنے حلقوں کے وزیراعلیٰ ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بہترین ٹیم لائیں گے اور صوبے کو ترقی دیں گے۔ اپوزیشن کی طرف سے آنے والی اچھی تجاویز پر عمل کریں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر میاں حمزہ شہباز نے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں جہاں یہ اطمینان ہے کہ جمہوری طورپر تیسری مرتبہ مسلسل انتقال اقتدار ہوا ہے وہاں میں دکھی دل سے کہنا چاہتا ہوں کہ اس مینڈیٹ میں دھاندلی کی ملاوٹ ہے۔ بین الاقوامی مبصرین اور فارن میڈیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔ انہوں نے دھاندلی کی تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا۔ میاں حمزہ شہباز نے مزید کہا کہ پاکستان میں برصغیر کا پاور فل الیکشن کمشن ہے اور الیکشن 2018پر اس نے قوم کے 21ارب روپے خرچ کئے ہیں لیکن آر ٹی ایس سسٹم بیٹھ گیا اور یوں جمہوریت پر ڈاکہ ڈالا گیا۔ انہوں نے الیکشن کمشن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ سارا دن پرامن اور بغیر کسی شکایت کے پولنگ ہوئی میں خود ساڑھے پانچ بجے ووٹ ڈالنے گیا تو ووٹروں کی لمبی قطاریں تھیں۔ مسلم لیگ (ن) نے وقت ایک گھنٹہ بڑھانے کا مطالبہ کیا، اسے تسلیم نہیں کیا گیا، الٹا 6بجے کے بعد گنتی اور نتائج کی تیاری کے موقع پر پولنگ ایجنٹوں کو باہر نکال دیا گیا۔ 46حلقے ایسے ہیں جہاں جیتنے والوں کی لیڈ سے مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد زیادہ ہے۔ایسا کبھی نہیں ہوا کہ پنجاب کے حلقوں کے الیکشن نتائج آنے میں 36گھنٹے لگے ہوں ۔الیکشن کے دو دن پہلے ہمارے 16ہزار 800کارکنوں کے خلاف ایف آئی آر کاٹی گئیں۔ پنڈی سے ہمارے ایک امیدوار کو الیکشن سے دو دن پہلے نا اہل کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اقتدار آنی جانی چیز ہے آج اقتدار کی خواہش نہیں خواہش یہ ہے کہ پاکستان قائداعظم کا خوشحال پاکستان بنے ۔ انہوں نے میاں نواز شریف کے اپنی بیمار اہلیہ کو لندن چھوڑ کر احتساب عدالت کے فیصلے پر عملدر آمد کیلئے پاکستان آنے کا ذکر کیا اور کہا کہ احتساب عدالت کے فیصلے میں لکھا ہے کہ استغاثہ نواز شریف پر کرپشن کا الزام ثابت کرنے میں ناکام رہا ۔ انہوں نے نواز شریف حکومت کے کارہائے نمایاں کی تفصیل پیش کی اور کہا کہ انہوں نے ملک کو اندھیروں سے نکالا اور 11ہزار میگا وواٹ بجلی نیشنل گرڈ میں داخل کی۔ اغوا برائے تاوان ، خودکش حملوں اور دہشت گردی کی سکیورٹی اداروں کی مدد سے کمر توڑ دی۔ انہوں نے کہا کہ کالا باغ ڈیم سیاست کا شکار ہو گیا وگرنہ پانی کے بڑے ذخیرہ سے زراعت بھی ترقی کرتی اور بجلی بھی پیدا ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا دشمن ملک چاہتا ہے کہ پاکستان کو پیاسا مارنا ہے لیکن ایسا نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا نواز شریف نے 100ارب روپے خرچ کرکے بھاشا ڈیم کیلئے زمینوں کی قیمت ادا کروائی۔ سی پیک کا 50ارب ڈالر کی پاکستان میں سرمایہ کاری ہوئی۔نوازشریف نے شفاف منصوبے بنائے اور قوم کے پیسے بچائے۔ انہوں نے اپنے خاندان کے احتساب کی تفصیل بھی بیان کی کہ کس طرح انہیں زمانہ طالب علمی میں بے نظیر حکومت میں 6ماہ کیلئے اڈیالہ جیل بھجوایا گیا اور عدالت نے فیصلہ دیا کہ کم عمر ہونے کی وجہ سے مجھ پر مقدمہ بھی نہیں بنتا تھا۔ انہوں نے اس موقع پر سپیکر اسمبلی چودھری پرویز الٰہی کو یاد دلایا کہ وہ بھی اس وقت مسلم لیگ (ن) میں تھے اور وہ بھی اڈیالہ جیل میں قید تھے، انہوں نے مجھے خط لکھتے دیکھا اور خط پڑھا ، مجھے شاباش دی کہ وہ مجھے حوصلہ دینے آئے تھے لیکن آپ خط میں اپنے والدین کو حوصلہ دے رہے ہیں۔ حمزہ شہباز نے نیب کی جانب سے انکے خلاف کارروائی اور پھر نیب کے افسر کی جانب سے یہ حقیقت بیان کی کہ مشرف صاحب کے کہنے پر بہت چھان بین کی لیکن آپکے خاندان کیخلاف کرپشن کا کوئی ثبوت ہاتھ نہیں لگا۔ انہوں نے سپیکر کے الیکشن میں اپنی پارٹی کے 12ارکان کے ووٹوں کے ادھر جانے کا ذکر کیا اور کہا کہ ماضی میں اس طرح کی غلطیاں ہوئی لیکن آج ہمیں اچھا آغاز کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے کہا کہ 2013میں نواز شریف نے کے پی کے کی شکل لارجسٹ پارٹی پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کا حق دیا اور عمران خان کو بھی میں مسلم لیگ (ن) کو سنگل لارجسٹ پارٹی ہونے کی وجہ سے حکومت بنانے کی دعوت دینا چاہیے تھی لیکن عمل اسکے برعکس ہوا۔ مولانا معاویہ اعظم طارق نے کہا کہ وہ الیکشن میں دھاندلی کیخلاف تحقیقات کیلئے پارلیمانی کمشن قائم کرنے کے مطالبے کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے نو منتخب وزیراعلیٰ کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں پچھلی حکومتوں کے ترقیاتی منصوبوں کو روکا گیا آپ ایسا ہرگز مت کرنا کہ منصوبے پنجاب اور پاکستان کے ہیں ۔ پیپلزپارٹی کے رہنما سید علی حیدر گیلانی نے کہا کہ جنوبی پنجاب 70برس سے محرومی کاشکار ہے ۔ پچھلے عام انتخابات سے دو دن پہلے مجھے اغوا کر لیا گیا تھا اور میرے ساتھی جاں بحق ہوگئے تھے، اب میں یہاں منتخب ہوکر آیا تو یہ جمہوری قوتوں کی کامیابی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی آواز میرے والد سید یوسف رضا گیلانی نے بلند کی تھی اور ایوان بالا سے دو تہائی اکثریت سے اسکے حق میں قرارداد منظور کروائی تھی۔ اب وزیراعلیٰ کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے اور پی ٹی آئی کو جنوبی پنجاب سے واضح کامیابی ملی، اگر آپ جنوبی پنجاب صوبہ نہ بنا تو آنیوالی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔حمزہ شہباز نے کہا انتخابات میں دھاندلی ہوئی، شیر کا ٹکٹ لینے والوں پر دباﺅ ڈالا گیا، یہ کیسا میچ تھا جس میں ایک کپتان آزادپھر رہا تھا، دوسرا جیل میں بند تھا۔ مطالبہ کرتے ہیں دھاندلی کی تحقیقات کرائی جائیں،ماضی کی طرح ہارس ٹریڈنگ کی روایت دہرائی گئی تو دھاندلی زدہ ایوان چلنے نہیں دیں گے ۔انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 25 جولائی کے انتخابات جمہوریت کے تسلسل کی تیسری کڑی ہے کہ عام انتخابات ہوئے اور پر امن انتقال اقتدار ہوا۔ وزیراعظم عمران خان نے عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہونے پر مبارکباد دی ہے۔ انہوں نے کہا عثمان بزدار کے انتخاب سے پنجاب میں نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ وزیراعظم نے پی ٹی آئی اور اتحادی جماعتوں کے ارکان کو بھی مبارکباد دی۔نومنتخب وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان احمد خان بزدار آج سوموار کو شام پانچ بجے گورنر ہاﺅس میں وزارت اعلیٰ کے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔ قائم مقام گورنر پنجاب چودھری پرویز الٰہی ان سے حلف لیں گے۔ تقریب میں ارکان اسمبلی سمیت اعلیٰ سول و فوجی حکام بھی شرکت کریں گے۔سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصرنے سردار عثمان بزدارکو وزیراعلیٰ پنجاب اور جام میرکمال خان کو وزیر اعلی بلوچستان منتخب ہونے پر مبارک باد دی ہے۔


پنجاب/ وزیراعلیٰ منتخب

لاہور (فرخ سعید خواجہ) پنجاب میں گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کے اقتدار کا سورج طلوع ہو گیا جب ان کے وزارت اعلیٰ کے امیدوار سردار عثمان بزدار نے قیام پاکستان کے بعد سے پنجاب کے 20ویں وزیراعلی کی حیثیت سے انتخاب جیت لیا۔ انہوں نے وزیراعلی کا الیکشن جیتنے کے لئے مطلوبہ ووٹ 186 حاصل کر لئے لیکن اس کے لئے انہیں آزاد ارکان پنجاب اسمبلی ملک احمد علی اولکھ اور ممتاز صحافی جگنو محسن کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ اگر ان دونوں میںسے کوئی ایک ان کو ووٹ نہ ڈالتا تو وزیراعلی کا انتخاب دوبارہ کرانا پڑتا۔ ملک احمد اولکھ مسلم لیگ ن ضلع لیہ کے صدر تھے لیکن پارٹی ٹکٹ نہ ملنے کے باعث انہوں نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا اور جیت گئے۔ انہوں نے اپنا غصہ نکالا اور جیت کر مسلم لیگ ن میں شامل ہونے کی بجائے آزاد حیثیت سے رہنے کو ترجیح دی۔ جگنو محسن کا شمار مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف کے فیملی فرینڈ میں ہوتا ہے لیکن انہوں نے بھی مسلم لیگ ن جوائن کرنے کی بجائے آزاد حیثیت میں رہنے کو ترجیح دی۔ پی ٹی آئی کے پاس اپنے مطلوبہ 186 ووٹ تھے جن میں 176 ان کے 10 مسلم لیگ ق کے ووٹ شامل تھے جب کہ راہ حق پارٹی کے معاویہ اعظم طارق بھی ان کے ساتھ تھے۔ یوں ان کی تعداد 187 بنتی تھی لیکن پی ٹی آئی کے رکن پنجاب اسمبلی تیمور لالی ووٹ ڈالنے نہ آ سکے جبکہ سپیکر چودھری پرویزالہی نے اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کیا۔ مسلم لیگ ن نے الیکشن میں پہلے ایوان میں اس وقت زبردست احتجاج کیا جب الیکشن کے لئے مقررہ وقت گیارہ بجے کی بجائے 12 بج گئے لیکن سپیکر پنجاب اسمبلی اپنے چیمبر میں رہے۔ دوپہر بارہ بجے مسلم لیگ ن کے سمیع اللہ خان نے اسمبلی سیکرٹریٹ کے افسران سے کہا کہ کارروائی شروع کرو۔ اس کے فوری بعد مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی نے احتجاج کرتے ہوئے نعرے بازی شروع کر دی۔ سات آٹھ منٹ یہی کیفیت رہی اور ایوان مچھلی منڈی کا منظر پیش کرتا رہا۔ 12 بج کر سات منٹ پر مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی اپنی نشستوں سے اٹھ کر سپیکر ڈائس کے سامنے آ گئے اور نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ دو منٹ بعد 12 بجکر دس منٹ پر سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے اپنی نشست سنبھالی۔ مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما خواجہ سعد رفیق نے مائیک سنبھالا اور کہا کہ ہمارا ایسا کوئی پروگرام نہیں ہے کہ ہم برداشت کی لائن کراس کریں اور خدانخواستہ تصادم ہو۔ انہوں نے کہا جناب سپیکر بے شک آپ کو کسی ممبر کا انتظار تھا لیکن کسی ممبر کے لئے اجلاس شروع کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے تھی۔ سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے کہا کہ جگہ کی کمی کے باعث ممبران سامنے کھڑے ہیں۔ نئی بلڈنگ کا جب میں نے چارج چھوڑا تو 30 فیصد کام رہ گیا تھا۔ پچھلے دس برس اس سلسلے میں کوئی کام نہیں ہوا اب اس طرح تو کرنا پڑے گا تاہم پی ٹی آئی کے رہنما میاں محمود الرشید نے اپنے ارکان اسمبلی کو سامنے سے ہٹا کر پی ٹی آئی کے ارکان کی نشستوں کے قریب کر دیا۔ دوسری طرف خواجہ سعد رفیق بھی مسلم لیگ ن کے ارکان کو اپنی نشستوں کی طرف لے گئے۔ ایک بجٹ کر دس منٹ پر دونوں اطراف کے ارکان ایوان سے اپنے اپنے لئے مقررہ دروازوں سے لابیوں میں جا چکے تھے۔ ایوان میں واحد رکن پیپلز پارٹی کے سید علی حیدر گیلانی بھی موجود تھے۔ سوا ایک بجے سپیکر نے نتائج کا اعلان کیا۔ ادھر پی ٹی آئی کے ارکان نومنتخب وزیراعلیٰ سردار عثمان احمد خان بزدار کی نشست پر جا کر مبارکبادیں دیتے رہے۔ سپیکر چودھری پرویز الٰہی نے 25 منٹ کے احتجاج کے بعد کہا کہ اب بس کر دیں، بہت احتجاج ہو گیا۔ خواجہ سعد رفیق نے اس پر اپنے ساتھیوں کو پیچھے کر لیا اور پھر نومنتخب وزیراعلیٰ اور ان کے مقابلے میں شکست کھانے والے حمزہ شہباز دونوں کی تقاریر ہوئیں۔
پنجاب اسمبلی

ای پیپر-دی نیشن