فارن پالیسی دفتر خارجہ میں بنے گی : شاہ محمود‘ مودی نے عمران کو خط میں بات چیت کی دعوت دی وزیر خارجہ ایسا نہیں انڈین حکومت
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس عزم کا اظہار کےا ہے کہ خارجہ پالیسی پاکستان سے شروع ہو کر پاکستان پر ہی ختم ہوگی، پاکستان کا مفاد سب پر مقدم ہے، خارجہ پالیسی کا از سرنو جائزہ لےا جائے گا، ملکی مفاد میں حنا ربانی کھر اور خواجہ آصف سے مشاورت کروں گا، سی پیک اہم ہونے کے ساتھ ایک گیم چینجر ہے، کچھ طاقتیں پاکستان کو تنہائی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہی ہیں، خارجہ امور پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کروں گا، ایم ایم اے کے رہنما کو بھی مدعو کروں گا میری سوچ یہ ہوگی کہ خارجہ پالیسی پر قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کروں گا۔ پاکستان کے مفاد پر سب کو یکسو ہو کر چلنا ہوگا۔ خارجہ پالیسی دفتر خارجہ میں مرتب کی جائے گی۔ خارجہ پالیسی کی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے۔ دفتر خارجہ مےں اپنی پہلی پرےس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا چین پا کستان اقتصا دی را ہداری ( سی پیک) ایک اہم منصوبہ ہے 4 سال پاکستان کا وزیر خارجہ ہی نہیں رہا، وزیر خارجہ نہ رہتے ہوئے ایسی طاقتوں کو موقع ملا، خارجہ پالیسی کمزور ہو تو دشمن فائدہ اٹھاتا ہے، محبت، دوستی اور ایک نئے آغاز کا پیغام لے کر افغانستان جانا چاہتا ہوں۔ افغان عوام کو پیغام دینا چاہتا ہوں ہمیں مل کر آگے بڑھنا ہے، افغانستان میں امن کے بغیر پاکستان آگے نہیں بڑھ سکتا، پا کستان اور بھا رت کے ما بین کشمیر ایک مسئلہ ہے ،ایڈونچر کا کوئی فائدہ نہیں، دونوں ملکوں کا نقصان ہوگا،واجپائی صاحب کے اسلام آباد مذاکرات تاریخ کا حصہ ہیں۔ آج پھر کہتا ہوں ہمیں بامعنی مذاکرات کی ضرورت ہے۔ بھارت مذاکرات کرے، مسئلہ کشمیر سے منہ موڑنا مناسب نہیں۔ کچھ طاقتیں پاکستان کو تنہائی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہی ہیں،4 سال پاکستان کا وزیر خارجہ ہی نہیں رہا، وزیر خارجہ نہ رہتے ہوئے ایسی طاقتوں کو موقع ملا،خارجہ پالیسی کمزور ہو تو دشمن فائدہ اٹھاتا ہے، ہماری سوچ کا محور شہریوں کی زندگی میں بہتری لانا ہے کچھ عرصے سے پاکستان کو تنہائی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے ملک کا وزیر خارجہ ملک کا چیف ڈپلومیٹ ہوتا ہے، دورہ افغانستان کا ارادہ ہے،ہندوستان کی وزیر خارجہ سے کہنا چاہوں گا ہم نہ صرف دو ہمسائے ہیں بلکہ ہم دونوں ایٹمی قوتیں ہیں ہمارے دیرنیہ مسائل ہیں ان مسائل سے آپ بھی واقف ہیں اور ہم بھی ہیں، افغانستان کے وزیر خارجہ کو فون کروں گا ان مسائل کو حل کرنے کے لئے گفت و شنید کے علاوہ اور کوئی حل موجود نہیں ہے۔ ہم روٹھ کر ایک دوسرے سے منہ نہیں پھیر سکتے ہمیں حقائق کا سامنا کرنا ہے، کشمیر ایک اہم مسئلہ ہے ہم دونوں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں، واجپائی صاحب کے اسلام آباد مذاکرات تاریخ کا حصہ ہیں۔ اٹل بہاری واجپائی کے انتقال پر پاکستان کے وزیر قا نو ن کو بھیجا گیا اٹل بہاری لاہور اور اسلام آباد آچکے تھے انہوں نے خود کہا تھا کہ دونوں ممالک کا کشمیر ایک اہم مسئلہ ہے۔ ہمیں ایک نہ منقطع ہونے والی بات چیت کی ضرورت ہے جو ایک دانشمندانہ راستہ ہے ہمیں اپنے رویے بدلنے ہیں یہ تقاضا ہے پاکستان کا ہماری سوچ اور اپروچ مختلف ہوگی ہمارے رویوں میں تبدیلی آنی چاہئے۔ اخلاق سے کبھی مار نہیں ملتی قوموں پر آزمائش آتی ہے میرے علم میں ہے کہ ہمارے کیا چیلنجز ہیں۔ ہمیں اپنی ترجیحات کو درست کرکے کامیابی کی طرف بڑھنا ہوگا۔ نریندر مودی نے خط لکھ کر عمران خان کو مبارکباد پیش کی ہے خط میں انہوں نے بات چیت کے ذریعے مسائل کو حل کرنے کا پیغام دیا ہے۔ مجھے ماضی میں امریکہ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا میں نے ہیلری کلنٹن کے ساتھ کام کیا ہے مجھے ان کی ترجیحات کا اندازہ ہے۔ میں ان ترجیحات کو سامنے رکھتے ہوئے امریکہ سے بات چیت کروں گا ان سے کہوں گا ملک بڑے بھی ہوتے ہیں ملک چھوٹے بھی ہوتے ہیں لیکن عزت و وقار سب سے اہم ہوتا ہے۔ میں ان کی سن کر اپنا موقف بھی پیش کروں گا۔ عزت و احترام کے ساتھ کام کرم کریں گے اور چیزوں کو دیکھیں گے وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے خط بھیجا ہے جس میں عمران خان کو وزیر اعظم بننے کی مبارکباد دی ہے، انہوں نے مذاکرات کی دعوت بھی دی ۔ کشمیر پاکستان اور بھارت میں تنازعات کی بنیادی وجہ ہے، دونوں ممالک ہمسائے اور ایٹمی قوت ہیں، بھارت سے تسلسل کے ساتھ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، پاکستان اور امریکہ میں اعتماد کا فقدان ہے جسے دور کرنا چاہوں گا، انہوں نے کہا کہ بھارت کی وزیر خارجہ کے لیے میرا پیغام ہے کہ کشمیر پاکستان اوربھارت میں تنازعات کی بنیادی وجہ ہے، دونوں ممالک ہمسائے اور ایٹمی قوت ہیں، بھارت سے تسلسل کے ساتھ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے۔ بیرون ممالک پاکستان کے سفیر حاکم نہیں ہیں، ملک کو عالمی تنہائی سے نکالنے کے لیے اقدامات کریں گے، ۔ انہوں نے کہا کہ بلاوجہ اکھاڑ پچھاڑ کا قائل نہیں ہوں، تقرریاں کارکردگی کی بنیاد پر ہونی چاہئیں، سیکریٹری تہمینہ جنجوعہ سے ملاقات کروں گااور ان سے رہنمائی حاصل کروں گا، مستقبل میں کچھ ملکوں سے رابطے کیے جائیں گے۔وزیر خارجہ نے حزب اختلاف کو مشاورت کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ حنا ربانی کھر اور خواجہ آصف سے بھی مشاورت کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اس خطے میں امن و استحکام ہو، ملک سے غربت کا خاتمہ ہماری اولین ترجیح ہے، خارجہ امور پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش ہوگی، عوام کی منتخب حکومت کو عوام کے امنگوں کے مطابق چلنا ہے۔ ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لئے پرعزم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسئلے پیچیدہ ہیں، ہو سکتا ہے کہ مسائل فوری حل نہ ہوںجبکہ دوسری طرف بھارتی حکومت نے کہا ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم کو مذاکرات کی دعوت نہیں دی گئی۔ بھارتی وزیراعظم کے خط میں صرف اچھے تعلقات کی خواہش کا اظہار ہے۔
شاہ محمود