• news
  • image

ملتان کے فنکاروں کی ’’بقر عید‘‘

سلیم ناز
گزشتہ ہفتہ مسلمان ادائیگی سنت ابراہیمیؑ میں مصروف رہے۔ کچھ لوگ اسے بڑی عید کہتے ہیں تو بعض عید قربان ‘ کیونکہ یہ تہوار پیغمبر حضرت ابراہیم کی یادوں کو تازہ کرنے اور اس سے درس حاصل کرنے کے لئے منایا جاتا ہے۔ دیگر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے خصوصاً فنون لطیفہ کے لوگ بھی قربانی کے جانور خریدنے کے لئے مویشی منڈی میں نظر آتے رہے۔ سٹیج کامیڈین معروف اداکار ندیم ننھا کے ساتھ بھی عجیب صورتحال درپیش رہی۔ بے چارہ صبح سویرے اٹھ کر مویشی منڈی کا چکر لگاتا لیکن وہاں نہ بکرے کا مالک ہاتھ آتا اور نہ ہی بکرا۔ آخر عید سے ایک روز قبل انہیں بکرامل ہی گیا۔ کہنے لگے عید کا دن تو نماز کی ادائیگی کے بعد سونے میں اور رات سٹیج پر پرفارمنس میں گزری۔ بس ہم ڈرامہ شائقین کو تفریح فراہم کرنے کیلئے اپنی عید کی خوشیاں تک قربان کر دیتے ہیں معروف گلوکارہ ثوبیہ ملک آج کل محافل موسیقی میں اپنے فن کے جوہر دکھا رہی ہیں۔ کہنے لگیں قربانی کا جانور خریدنا اور قربانی کا گوشت بانٹنا اور اسے گھر میں محفوظ کرنا یہ سب ذمہ داریاں گھر والے پوری کرتے ہیں۔ میں تو بس ٹی وی پر اپنے پروگرام دیکھتی ہوں۔ عید قربان پر پی ٹی وی کے علاوہ لوکل چینلز پر بھی میرے پروگرام ریکارڈ ہوئے ۔ سٹیج سیٹ ڈیزائنر مالک سندھی کا کہنا تھا فنکاروں کی عید کہاں‘ نہ وہ قربانی کا جانور خرید سکتے ہیں اور نہ عید کو مذہبی جوش و خروش سے منا سکتے ہیں۔ عید کے تینوں دن ان کے سٹیج پر ہی گزر جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ہر سال حصہ ڈالتے ہیں۔ امسال بکرا خریدنے کا ارادہ کیا لیکن بکر منڈی میں جا کر احساس ہواکہ دیہی علاقوں سے آ کر یہاں جانور فروخت کرنے والے خاصے ’’اوور‘‘ ہو چکے ہیں۔ جانور کی قیمت مانگتے ہوئے یہ نہیں سوچتے کہ اگر ہم مناسب نرخ پر قربانی کے جانور فروخت کریں تو ہمیں بھی ثواب حاصل ہو گا۔ لیکن ہمیں برملا کہنا پڑا کہ ہم تو فنکار ہیں ہی یہ ہم سے بھی بڑے فنکار ہیں۔خوبصورت آواز کی مالک معروف گلوکارہ راحت ملتانیکر کا کہنا تھا کہ بقر عید کی خوشیاں میں نے اپنے گھر والوں کے ساتھ ملتان میں گزاری ہیں۔ میری امی جان ثریا ملتانیکر میری آمد کی منتظر ہوتی ہیں۔ عید کے تمام روز ہمارے گھر میں خاصی رونق رہتی ہے۔ معروف گلوکار نعیم الحسن ببلو نے کہا ہماری عید تو محافل موسیقی میں گزری۔ عید کی دونوں راتیں تقریبات میں آواز کا جادو جگاتے گزر گیا۔ سٹیج‘ ریڈیو اور ٹی وی آرٹسٹ مظہر احسن تینوں دن خاصے مصروف رہے کیونکہ انہوں نے ریڈیو پر صداکاری اور سٹیج کے ڈرامے میں پرفارم کرنا ہوتا ہے۔ انہوں نے قربانی کیلئے کوئی جانور نہیں خریدا اور اگلے روز قربانی کی۔
ملتان سے تعلق رکھنے والے ٹی وی سٹیج کے معروف اداکار نواز انجم عید قربان لاہور میں منائی۔ معروف لوک گلوکار ساجدملتانی بہت خوش نظر آرہے تھے کیونکہ انہیں اپنی استطاعت کے مطابق قربانی کا جانور مل گیا ۔ بیشتر فنکار اس خوف میں بھی مبتلا رہے کہ مویشی منڈی میں بعض بیوپاری دھوکہ دہی سے کام لیتے ہیں جس کی وجہ سے قربانی ادھوری رہ جاتی ہے۔ منڈیوں میں قربانی کے جانور فروخت کرنے والے جعل سازوں کی طرف سے دھوکہ دہی کے حیرت انگیز واقعات سامنے آ ئے۔ ذرائع کے مطابق قربانی کرنے کے خواہشمند اگر ایک طرف لٹتے رہے تو دوسری طرف ہماری اخلاقی گراوٹ زر کے لالچ میں حدود پھلانگنا جیسے عنصر نمایاں رہا۔ قربانی کے لئے جانور کا بے عیب ہونا شرط ہے۔ انہی لازمی جزو کو حقیقت کا لبادہ اوڑھانے کے لئے ان فٹ جانوروں کو بھیس بدل کر فروخت کیا جاتاہے۔ دودھ کے دانت نکال کر ماربل کے مصنوعی دانت لگانے‘ ٹوٹے سینگوں کو ریپئر کرنے‘ نئے لگانے اور مادہ جانوروں کو نر دکھانے کے لئے منفرد طرز کا شرمناک دھندہ عروج پر رہتا ہے ۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ جعل سازی ‘ دھوکہ دہی‘ ملاوٹ‘ بے ایمانی‘ فراڈ‘ بددیانتی جیسے عوامل ہمارے معاشرے میں ایسے رچ بس گئے ہیں کہ ہمیں یہ خرافات معیوب نظر نہیں آتیں۔ ایسی قبیح حرکات کرنے پر اﷲ کا خوف ہے نہ ریاستی قوانین کے پکڑ کا ڈر۔ کیا ہمارے اندر رچی بسی یہ بیماریاں صرف موت ہی ختم کر سکتی ہے؟ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس طرح عید قربان کے مقاصد پورے ہو جاتے ہیں۔ مسلمانوں کے لئے یہ سوال بہت اہمیت رکھتا ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن