• news
  • image

سینئر وزیر کیا ہوتا ہے؟

مجھے معلوم نہ تھا کہ سینئر وزیر کیا ہوتا ہے اور جب کتنی دیر کی ٹیلی فون ڈائلنگ کے بعد بھی کوئی رابطہ نہ ہوا تو مجھے پتہ چل گیا کے سینئر وزیر کیا ہوتا ہے۔ علیم خان دوست آدمی ہے مگر اب وہ سینئر وزیر ہے مگر ہمیں اُن کے ساتھ کوئی کام نہیں ہے۔ اللہ سینئر وزیر کو اور سینئر کرے۔
میں جماعت اسلامی میں کبھی نہیں رہا۔ مگر میرا ایک تعلق سید مودودی سے تھا جب وہ اچھرہ میں تھے ۔ اُن سے بڑی ملاقاتیں ہوئیں۔ میرے جیسے معمولی آدمی سے بھی وہ شفقت سے ملتے۔ انہیں معلوم تھا کہ میرا جماعت اسلامی سے کوئی تعلق نہیں مگر میرا مودودی صاحب سے تو تعلق ہے۔ وہ اپنے زمانے میں عالم اسلام کے سب سے بڑے آدمی تھے۔ پھر جماعت اسلامی میں ایسا آدمی نہیں آیا۔ اس کے علاوہ مجھے قاضی حسین احمد پسند ہیں۔ وہ میرے ساتھ بہت شفقت کرتے تھے۔ ان کی مایہ ناز اور قابل احترام صاحبزادی سمیعہ راحیل قاضی میری بیگم زینت خانم سے ایک تعلق رکھتی ہیں۔ ان سے ایک رابطہ ہے۔ میرا رابطہ سراج الحق سے بھی ہے۔ یہ رابطہ ان سے ذاتی نوعیت کا ہے۔ ایک دوستانہ رابطہ برادرم لیاقت بلوچ سے ہے اور بھائی امیر العظیم سے بھی ہے۔ وہ جماعت اسلامی میں ہیں مگر جماعت اسلامی اُن میں نہیں ہے۔ لیاقت بلوچ اور امیرالعظیم پنجاب یونیورسٹی میں ہمارے صدر تھے۔ صدر سٹوڈنٹس یونین جب آپ کا صدر بن جائے تو وہ جمعیت کا صدر نہیں ہوتا۔ پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کا صدر ہوتا ہے۔ لیاقت بلوچ اور امیرالعظیم ایسے ہی عالی ظفر ہیں۔
میں جمعیت میں کبھی نہ رہا، مگر میں نے ووٹ لیاقت بلوچ اور امیرالعظیم کو دیا تھا۔ البتہ میں نے جب پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج میں الیکشن لڑا تو جمعیت نے ڈٹ کر میری مخالفت کی اور اس فیصلے کے بعد جمعیت کے کسی چھوٹے بڑے آدمی نے میری حمایت نہ کی میرے مقابلے میں ایک بالکل نالائق اور غیر مستحق آدمی کو ووٹ دے دیا۔ مجھے عدل کی اس صورتحال کی کوئی سمجھ نہ آئی۔ میں ہار گیا۔ اگر میں جیت جاتا تو آج میرا معاملہ کچھ اور ہوتا۔ میں نوکری کے چکر میں پھنس کر چکرا گیا ہوں۔ مگر آج بھی ذاتی طور پر میرے دل میں لیاقت بلوچ اور امیرالعظیم کے لئے دوستانہ جذبات ہیں
مجھے دکھ ہے کہ سید مودودی کی جماعت کے امیر میاں طفیل محمد بن گئے۔ سید مودودی کی عزت میرے دل میں اس لئے بھی بہت ہے کہ اُن کے نام کے ساتھ ’’مولانا‘‘ نہیں ہے۔
جب سید مودودی اور علامہ عبدالستار خان نیازی کو سزائے موت ختم نبوت کے معاملے میں ہوئی تو مولانا نیازی نے کہا کہ ’’یہ بے غیرت حکومت مجھے نہیں مار سکتی۔‘‘
سید مودودی نے فرمایا کہ زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے اگر میری زندگی ہے تو کوئی مجھے مار نہیں سکتا ا وراگر میری زندگی ختم ہونے والی ہے تو کوئی تکلیف مخالفین کو کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سید مودودی کے حوالے سے جماعت کے ساتھ ایک نسبت ہمیشہ محسوس ہوتی ہے۔ قاضی حسین احمد بہت دوست آدمی تھے۔ شفیق اور زندہ دل، میری بیٹی تقدیش نیازی کا نکاح بھی قاضی صاحب نے پڑھایا تھا۔ سمیعہ بی بی بھی اس شادی میں شریک ہوئی۔ اس شادی میں کوئی قابل ذکر سیاسی آدمی نہ تھا۔جو شریک نہ ہوا ہو،
وزیر تو لیاقت بلوچ بھی رہے ہیں۔ مگر وہ وزیر شذیر کی اوقات جانتے ہیں، کیا علیم خان کی نظر میں بھی یہ بات ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ وزیر ہی سینئر وزیر ہوتا ہے۔ مگر علیم خان کو تو میں دوست سمجھتا ہوں۔ وہ بھی دوستوں کے دوست ہیں۔
بہت نامور قادر الکلام اور اچھے شاعر اقبال راہی کا شعری مجموعہ ’’ش‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے۔ مگر پبلشر یہ کتاب اس طرح نہیں چھاپ سکا جو اس کتاب کا حق تھا۔ میں نے اقبال راہی کے لئے فلیپ لکھا ہے۔ جسے کتابچے کے آخری صفحے پر شائع کیا گیا ہے۔
’’نجانے اقبال راہی کن راہوں کا مسافر ہے۔ اس سے مل کر اور اسے سن کر میری بھی خواہش ہے کہ میں بھی ان راہوں پر چلوں ۔ یہ نیک نیتی کا صلہ ہے وہ انتہا درجے کا قادر الکلام ہے۔ وہ شعر اس روانی سے کہتا ہے کہ اتنی آسانی سے ہم باتیں بھی نہیں کرتے۔ ’’وہ اس لئے منفرد ہے کہ اس نے ذاتی طور پر کبھی دکھوں کا اظہار نہیں کیا۔ دکھ اسی وقت دکھ بنتے ہیں جب آدمی ان کا اظہار کرتا ہے۔ اقبال راہی امیر آدمی نہیں ہے مگر اس سے زیادہ امیر کون ہوگا کہ وہ کمال فن کے خزانے سنبھالے ہوئے ہیں۔ جنوئن اور نامور شاعر اخترشمار نے اس کے لئے لکھا ہے۔
’’فکر معاش اور زندگی کی بے نیازی اور کج ادائی وہ غم دوراں کے آگے سرنگوں نہیں ہوا۔ وہ ہمیشہ دوسروں کے لئے شعروں کے حوالے سے کام آتا ہے کئی شاعر اور شاعرات اس کی مرہون منت ہیں۔
اس واسطے میں تم سے ہوا ہوں کنارہ کش
کشتی کو تم نے پار لگانا تو ہے نہیں

epaper

ای پیپر-دی نیشن