• news

رضا ربانی تحریک التوا ایجنڈے میں شامل نہ کرنے پر سینیٹ سیکریٹریٹ پر برس پڑے

منگل کو سینیٹ کا اجلاس چار گھنٹے تک جاری رہا۔ اسے حسن اتفاق کہیے یا سابق چیئرمین میاں رضا ربانی کی قائم کی ہوئی روایات کی پاسداری کرتے ہوئے مقررہ وقت پر سینیٹ کا اجلاس شروع کیا گیا۔ جس میں قائد ایوان شبلی فراز پونے چار گھنٹے جبکہ قائد حزب اختلاف دو گھنٹے تک ایوان میں موجود رہے۔ منگل کو ایوان کی کاروائی معمول کے مطابق چلتی رہی۔ ایوان میں کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا تاہم ایوان میں سینیٹرز کی حاضری مایوس کن رہی۔ جب ایوان کا اجلاس شروع ہوا تو 14 ارکان وہاں موجود تھے۔ اختتام پر ان ارکان کی تعداد 12 رہ گئی۔ سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کو چیئرمین سینیٹ کے منصب سے الگ ہونے کے بعد سینیٹ سیکرٹریٹ کے طرز عمل کے بارے میں شکایت کا موقع مل گیا، انھوں نے ایجنڈے میں تحریک التواء شامل نہ ہونے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سینیٹ سیکرٹریٹ پر الزام لگایا ہے کہ وہ جانبدار ہو گئے ہیں اور جان بوجھ کر میری تحریک التواء ایجنڈے میں شامل نہیں کی گئی ، انھوں نے زوردار لہجے میں کہا کہ امریکہ کی طرف سے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں ڈومور برداشت نہیں کر سکتے پاکستان نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ میاں رضا ربانی نے کہا کہ آج میری تحریک التواء کو اس ایجنڈے کا حصہ ہونا چاہئے تھا کیا یہ ہمارا ایوان نہیں ہے ؟ پورے ایجنڈے میں اپوزیشن کی صرف ایک تحریک شامل ہے باقی سب حکومتی تحاریک اور نوٹسز ہیں۔ وہ پچھلے پانچ سال کے دوران قائد ایوان کے طور پر اپنے فرائض بخوبی سر انجام دے چکے ہیں۔ انھیں تیسری بار قائد حزب اختلاف بننے کا موقع ملا ہے۔ راجہ محمد ظفر الحق کو اپوزیشن کے 41 سینیٹرز کی حمایت حاصل ہے۔ اب جبکہ پیپلز پارٹی بھی اپوزیشن بنچوں پر بیٹھی ہے، اس طرح سینیٹ میں بھاری بھرکم اپوزیشن موجود ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کو وہی مشکلات پیش آ رہی ہیں جو قبل ازیں مسلم لیگ ن کی حکومت کو سینیٹ میں بڑی اپوزیشن موجود ہونے کی صورت میں پیش آئیں۔ راجہ ظفر الحق مختلف سیاسی جماعتوں کو اپوزیشن کے پلیٹ فارم پر متحد رکھے ہوئے ہیں۔ اے این پی کی سینیٹر ستارہ ایاز اے این پی کے مرکزی رہنما میاں افتخار حسین کو بار بار ملنے والے تھریٹ الرٹ کا معاملہ سینیٹ میں اٹھایا جس پر راجہ ظفر الحق نے ان کے موقف کی تائید کی سینیٹ میں توہین رسالت اور گستاخانہ خاکوں کا معاملہ سینیٹ میں زیر بحث آیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ توہین رسالت اور گستاخانہ خاکے جیسی حرکات یورپ کے امن کو متاثر کر سکتے ہیں، آزادی رائے کے ہم سب قائل ہیں ، لیکن اس کی حدود و قیود ہونی چاہے اگر اس کی روک تھام نہ کی گئی تو وہ انتہا پسندی کو ہوا دے گا کابینہ نے اس معاملے پر غم و غصے کا اظہار کیا میں نے دفتر خارجہ سے سیکٹر ی جنرل او آئی سی کو خطوط لکھا ہے۔حکومتی اور اپوزیشن کے سینیٹرز نے گستاخانہ مواد کی روک تھام کے لیے کمیٹی بنانے اور پاکستان میں سوشل میڈیا پر گستاخی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ رسول ﷺ کی شان میں گستاخی کسی صورت قبول نہیں ہے۔ جب سے بابر اعوان کو وزیراعظم کا پارلیمانی امور کا مشیر بنایا گیا ہے، وہ ایوان بالا میں خاصے سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ وہ پارلیمنٹ میں اٹھائے جانے والے سوالات کا کما حقہ ہو جواب دیتے ہیں۔ ڈاکٹر بابر اعوان نے ایوان کو بتایاکہ سی پیک پر کام کرنے والی کمپنیوں کے تیرہ چیک تھے جو کہ سٹیٹ بینک کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئے اب رقم ادا کر دی گئی ہے۔ سینیٹر محسن عزیز کی طرف سے توجہ دلائو نوٹس میں کہا گیا کہ سی پیک کے مختلف منصوبہ جات بشمول مغربی روٹ پر سڑکوں کی تعمیر کے منصوبہ جات پر کام کرنے والے کنٹریکٹرز کے چیک بائونس ہونے کے باعث کام میں تاخیر کا خدشہ ہے ۔ سینیٹ میں وقفہ سوالات میں حکومت نے اعتراف کیا ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت میں 2013 کے بعد12 ہزار میگا واٹ سے زائد بجلی نیشنل گرڈمیں شامل کی گئی، ملک میں اس وقت بجلی کی پیداوارضرورت سے زیادہ ہے،لوڈ شیڈنگ صرف خسارے والے فیڈرز پر کی جا رہی ہے، سینیٹ میں چوہدری تنویر اور دیگر سینیٹرز نے سوالات کے ذریعے حکومت کی توجہ اہم مسائل کی طرف مبذول کرائی وقفہ سوالات کے دوران وزیر اعظم کے مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان ،وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم،وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے سینیٹرز کے سوالات کے جواب دیئے۔ حکومت کو نواز شریف دور میں بجلی میں 12000 ہزار میگا واٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہونے کا کڑوا سچ ایوان میں بیان کرنا پڑا۔ قائد ایوان سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ بیرسٹر سیف کی بھرپور تائید کرتے ہیں، ایک کمیٹی بنا دی جائے جو اس معاملے پر اپنی سفارشات پیش کرے۔وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹیم پر الزامات لگانا درست نہیں، نیا پاکستان رویوں میں تبدیلی سے بنے گا۔ متحدہ قومی موومنٹ کے سینیٹر بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ پاکستان روہنگیا مسلمانوں کا معاملہ اقوام متحدہ میں بھرپور طریقے سے اٹھائے۔ ۔قائم مقام چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے ہدایت کی ہے کہ وزیر خزانہ ایوان میں آ کر اقتصادی صورتحال کے حوالے سے ایوان کو اعتماد میں لیں۔ ایوان بالا کا اجلاس (آج) بدھ کو صبح 11 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔
ڈائری

ای پیپر-دی نیشن