جرگہ سسٹم بنیادی انسانی حقوق کیخلاف‘ دائرہ اختیار کا تعین کیا جائے : سپریم کورٹ
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ آف پاکستان میں جرگہ کے ذریعے ونی اور سوارہ جیسی فرسودہ رسموں کے خلاف کیس کی سماعت میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا جرگہ سسٹم بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے، حکومت کو کہتے ہیں کہ قانون بنا کر پارلیمنٹ میں بھیجے، پارلیمنٹ کے پاس قانون منظور یا نا منظور کرنے کا اختیار ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطاءبندیال اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ پہلے ہی جرگہ سسٹم کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے قرار دیا کہ سب سے زیادہ جرگے کے پی کے اور بلوچستان میں ہوتے ہیں،چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جرگہ اور پنچائیت کے پاس سزائے موت اور بچیوں کو ونی کرنے کے اختیار نہیں، جرگہ یا پنجائیت چھوٹے چھوٹے دیوانی معاملات دیکھ سکتا ہے،اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ کچھ لوگ جماعت الدعوہ کے پاس چلے جاتے ہیں،جماعت الدعوہ والے بھاری جرمانے عائد کرتے ہیں جو غیر قانونی ہے۔ چیف جسٹس نے چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز سے کہا بتائیں کیا صوبوں نے اس حوالے سے کوئی قانون سازی کی ہے؟ دیوانی جھگڑے میں جرگہ سے رجوع کیا جاتا ہے تو ٹھیک ہے لیکن فوجداری مقدمات سے متعلق جرگے کے فیصلے پاکستان کی عدالتی نظام کے دائرہ اختیار کے خلاف ہیں۔ بعدازاں مقدمے کی سماعت میں وقفہ کیا گیا ،وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے کہا پنچائیت کی سمجھ نہیں آتی۔ چیف جسٹس نے قرار دیا جرگہ اور پنچائیت کے دائرہ اختیار کا تعین کیا جائے، عدالت نے بنیادی حقوق سے متصادم جرگہ اور پنچائیت کے فیصلوں کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کردی ہے۔ مزید برآں سپریم کورٹ آف پاکستان میں میمو گیٹ سکینڈل سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر کو ملک واپس لانے کا ٹاسک نیب کو دے دیا۔ عدالت نے ایک ہفتے میں نیب کو جواب داخل کرانے کا حکم دیا جبکہ بیرون ممالک سے ملزمان کی واپسی کیلئے ایک ماہ میں قانون سازی کرنے کی بھی ہدایت کی ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی تو عدالتی معاون نے بتایا حسین حقانی کو ملک لا نے کےلئے قانون سازی کی ضرورت ہے اور اس کیلئے ایک مجوزہ مسودہ پیش کیا ہے، نیب کے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے ملزموں کی واپسی کے معاہدے ہیں اور عدالتی معاون احمر بلال صوفی کے مطابق نیب حسین حقانی کو وطن واپس لاسکتی ہے، چیئرمین نیب ملزم کی واپسی کےلئے وارنٹ جاری کرسکتے ہیں، حسین حقانی کے واپس آئے بغیر کیس منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جا سکتا، وہ ہمیں بیان حلفی دے کر گئے تھے واپس آئیں گے۔ عدالت کو بتایا گیا اقوام متحدہ کے کنونشن اور عالمی معاہدے کے تحت نیب پاکستان کی تسلیم شدہ اینٹی کرپشن باڈی ہے اس لئے حسین حقانی کے خلاف درج کئے گئے مقدمے کی تفتیش ایف آئی اے کی بجائے نیب کرے تاکہ بین الاقوامی فورمز پر حقانی کی واپسی کیلئے نیب رجوع کر سکے ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا ایف آئی اے قوانین کے تحت حسین حقانی کی واپسی نہیں ہو سکتی، چیف جسٹس نے کہا حسین حقانی نے واپسی سے متعلق عدالت میں بیان حلفی دیا یقین دہانی اور بیان حلفی کے باوجود حسین حقانی واپس نہیں آئے، ملزمان کی واپسی کے لئے قانون سازی کے بعد بہتر پوزیشن میں ہوں گے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ نیب کو جواب جمع کرانے کے لئے واضح ہدایات دی گئی تھیں، چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس میں 6 سال ضائع کر دیئے گئے۔ عدالت نے آبزرویشن دی پاکستان کے بیرونی ممالک سے باہمی معاہدے نہ ہونے سے مشکلات ہیں۔ عدالت نے حسین حقانی کے خلاف سفارتخانے کے فنڈز میں خورد برد پر درج مقدمے کی تفتیش نیب کے حوالے کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت تک کیلئے ملتوی کر دی ہے۔
سپریم کورٹ/ جرگہ