قائد کے سپاہی، اسیر ختم نبوت۔۔۔ جناب بشیر نظامی مرحوم
چند سال قبل میں نے معروف دفاعی تجزیہ نگار اور تحریک پاکستان کے رہنما میاں عبدالباری مرحوم کے صاحبزادے میجر(ر) معین باری کا انٹرویو کیا۔ معین باری پیپلزپارٹی کے بانی مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کے پہلے دوراقتدار کے دوران رکن قومی اسمبلی رہ چکے ہیں۔ میجر(ر) معین باری نے اپنے انٹرویو میں کچھ تحریک پاکستان کے واقعات شامل کروانے کے لئے پاکستان ٹائمز کے کافی پرانے اخبار کا تراشہ دیا۔ اس اخبار میں میجر(ر) معین باری کا ایک مضمون ادارتی صفحے پر اشاعت کی صورت میں موجود تھا۔ مضمون میں بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح کے دورہ پنجاب کا تفصیلی ذکر تھا۔ اس مضمون میں لکھا گیا تھا کہ جب قائداعظم پنجاب کے دورے پر نکلے تو ہندو اور انگریز میڈیا نے واویلا شروع کر دیا کہ استصواب رائے سے قائداعظم برصغیر کے پنجاب کے جس حصے پر پاکستان کے وجود کا مطالبہ کر رہے ہیں اس حصے میں تحریک پاکستان کو زیادہ عروج حاصل نہیں لیکن میجر معین باری نے اپنے مضمون میں واضح کیا کہ جب قائداعظم محمد علی جناح پنجاب کے دورے کے دوران شیخوپورہ سے آگے سانگلہ ہل ریلوے جنکشن پر پہنچے تو تحریک پاکستان کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے قائداعظم محمد علی جناح اور پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کے نعرے بلند کئے، جس پر انگریز اور ہندو پریس کو شدید ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اور مسلمان اخبارات نے اپنی شہ سرخیوں میں اس واقعہ کو شائع کیا۔ یہ تاریخی واقعہ سانگلہ ہل ریلوے جنکشن پر پیش آیا تھا جب قائداعظم محمد علی جناح پنجاب کے دورے کے دوران لائلپور آتے ہوئے شیخوپورہ ریلوے سٹیشن پر مختصر خطاب کے بعد اپنی ریلوے بوگی میں آرام کر رہے تھے اور سانگلہ ہل ریلوے جنکشن پر ان کی ٹرین پہنچی تو تحریک پاکستان کے کارکنوں کا جم غفیر ان کے استقبال کے لئے موجود تھا لیکن قائداعظم بہت زیادہ تھکے ہوئے تھے۔ سانگلہ ہل ریلوے جنکشن پر بانی نوائے وقت اور مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے بانی صدر حمید نظامی مرحوم کے چھوٹے جبکہ نوائے وقت کے معمار ایڈیٹر مجید نظامی مرحوم کے بڑے بھائی اور میرے دادا بشیر نظامی مرحوم تحریک پاکستان کے کارکنوں کی قیادت کر رہے تھے۔ مجمع بے تاب ہو رہا تھا اور قائداعظم آرام فرما رہے تھے۔ اس دوران بشیر نظامی مرحوم نے اپنی گونجدار آواز میں نعرہ بلند کیا کہ لے کے رہیں گے پاکستان، پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ، تو دیکھتے ہی دیکھتے یہ نعرے بلند ہونے شروع ہو گئے۔ اس دوران قائداعظم جس ٹرین میں سوار تھے اس کے چلنے کی وسل بج گئی۔ ٹرین ہلکی ہلکی چلنے لگی۔ قائداعظم کے کہنے پر ٹرین کے اندر لگی زنجیر کھینچ دی گئی اور قائداعظم ٹرین کے دروازے پر آئے۔ انہوں نے بشیر نظامی مرحوم کو بلایا اور پوچھا کہ یہ کون ہے۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ حمید نظامی مرحوم کے چھوٹے بھائی ہیں۔ قائداعظم نے اس دوران اپنے مختصر خطاب میں کہا کہ جب میری قوم کے نوجوان اس قدر پرجوش اور مستقل مزاج ہو جائیں تو قیام پاکستان کو کوئی نہیں روک سکتا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے بشیر نظامی کو تحریک پاکستان کا بڑا کارکن قرار دیا۔ یہ واقعہ انگریز اور ہندو میڈیا کے منہ پر ایک طمانچہ تھا کہ پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبہ نما شہر سانگلہ ہل میں بھی نوجوان نہ صرف تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کر رہے تھے بلکہ وہ انگریز اور ہندو پریس کے اس سوال کا بھی جواب دے رہے تھے کہ انہیں پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ کا مکمل طور پر علم ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح سانگلہ ہل سے لائلپور آئے۔ اس لائلپور کے دورے کے لئے مسلم لیگ نے ایک کمیٹی بھی قائم کی جو شیخ بشیر احمد آف چیف بوٹ ہا¶س کی قیادت میں قائم ہوئی۔ اس کمیٹی میں بشیر نظامی، حکیم شریف اور دیگر بھی شامل تھے۔ قائداعظم کا دورہ لائلپور کامیاب رہا اور اس نے قیام پاکستان میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ سانگلہ ہل برصغیر میں اس وقت شیخوپورہ اور گردونواح سے سکھوں کی آبادیاں موجود تھیں۔ تحریک پاکستان کی تحریک پرجوش ہونے پر ہندو¶ں اور سکھوں نے گٹھ جوڑ کر کے سانگلہ ہل پر حملے کا منصوبہ بنایا جس کا مقصد سانگلہ ہل میں شیخوپورہ اور لاہور تک تحریک پاکستان کے لئے کلیدی کردار ادا کرنے والی شخصیات کا موجود ہونا تھا۔ حمید نظامی مرحوم بھی چند مرتبہ تحریک پاکستان کے دوران مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے صدر کی حیثیت سے سانگلہ ہل آئے۔ بشیر نظامی مرحوم اور ان کے دیگر رفقاءاس تحریک کے دوران ہندو¶ں اور سکھوں کے حملے ناکام بنانے کے لئے علاقے کا پہرہ بھی دیتے رہے اور بعض مرتبہ ایسے حملوں کے دوران سکھوں سے تلواریں وغیرہ بھی چھین کر لائے۔ تحریک پاکستان کے کارکنوں نے قیام پاکستان کے لئے جو کردار ادا کیا اس کی مثال ان دس لاکھ شہداءکی قربانیوں سے لی جا سکتی ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کی سرحدوں کے دائمی محافظ بنائے جا چکے ہیں۔ بشیر نظامی مرحوم کا شمار بھی انہی شخصیات میں سے ہوتا ہے۔ وہ قیام پاکستان کے بعد تحریک بحالی جمہوریت میں سرگرداں رہے۔ مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کی تحریک کا ہراول دستہ رہے۔ قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی آبادکاری کے لئے اپنا بھرپور کردار ادا کرتے رہے۔ انہوں نے مہاجرین کو کئی گھر الاٹ کروا کر دیئے مگر اپنا گھر نہیں بنایا۔ وہ سفید پوش انسان تھے لیکن اپنی خودداری پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ سانحہ مشرقی پاکستان نے تحریک پاکستان کے بہت سارے کارکنوں کی طرح ان کو بھی اندر سے توڑ دیا تھا اور پھر اس طرح ان کی صحت گرنے لگی۔ سانحہ مشرقی پاکستان تحریک پاکستان کے کارکنوں کے لئے بہت بڑا صدمہ تھا کیونکہ انہوں نے پاکستان کو صرف ایک خطے یا زمین کے ٹکڑے کے طور پر حاصل نہیں کیا تھا بلکہ وہ پاکستان کو قائداعظم محمد علی جناح اور شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال کے افکار کے مطابق اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے لیکن سانحہ مشرقی پاکستان ہمارے حکمرانوں، فوجی آمروں اور طالع آزما¶ں کی کج ادائیوں کے باعث رونما ہو گیا۔ بشیر نظامی مرحوم نے ملک میں چلنے والی بڑی تحریک ختم نبوت میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ اس دوران شاہی قلعہ لاہور، میانوالی، کیمبل پور اور اٹک جیل میں بھی قید رہے۔ انہیں بیڑیاںلگا کر خطرناک قیدی قرار دیا گیا لیکن واقفان حال بتاتے ہیں کہ یہ تحریک ختم نبوت کا ثمر تھا کہ 1953ءمیں جب شاہی قلعہ جیل میں انہیں بیڑیا ںاور ہتھکڑیاں لگائی جاتی تو وہ کھل جایا کرتی تھیں۔ بشیر نظامی 4ستمبر 1981ءکو اس جہان فانی سے عالم جاودانی کوچ کر گئے۔ اللہ رب العزت ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین۔